“مانا”-میرا دوست۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

دوست اور دوستی کی کوئی عمر نہیں ہوتی ۔دوستی ایک قلبی لگاؤ ہے،ایک ذہنی مانوسیت ہے،ایک جیسی ذہنی فریکوئنسی ہے،دوستی بھی ایک رشتہ ہے،ایسا رشتہ جس میں خون کی آمیزش تو نہیں ہوتی لیکن خلوص کی فراوانی ضرور ہوتی ہے۔

مانے سے میری دوستی بہت اچانک ہوئی ۔

ایکدن ڈور بیل بجی۔میں گیٹ کھولنے گئی تو اسکے گرد سے اٹے ہوئے ،میلے اور گندے پاؤں گیٹ کی جھریوں سے نظر آرہے تھے۔ گیٹ کھولا تو میرے سامنے چھے سال کا گورا چٹا پٹھان بچہ کندھے پر ردی کاغذوں کا تھیلا ٹانگے ،مجھے امید بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتی اس نے بڑے معصوم دھڑلے سے کہا۔

میں نے روٹی کھانی ہے۔

لہجے میں جو حق اور رعب تھا وہ مجھے بہت پیارا لگا۔

جیسے میرا دنیا میں کبھی نہ آنے والا بیٹا مجھ سے فرمائش کر رہا ہو کہ”اماں میں نے ناشتہ کرنا ہے” ۔ بنا کچھ کہے میں اسے اندر لے آئی۔وہ آم کے درخت کے نیچے بنے پتھر کے صوفے پر بیٹھ گیا۔میں اسکے لئیے ناشتے میں سے بچا پراٹھا اور آملیٹ لے آئی اور اسکے سامنے رکھ دیا۔ وہ میلے ہاتھوں سے پراٹھا کھانے ہی والا تھا کہ میں نے ٹوکا ۔

جاؤ ہاتھ دھو کر آؤ۔

کیوں؟اس نے حیرت سے پوچھا۔

کیونکہ تمہارے ہاتھ گندے ہیں۔۔

بڑی سعادت مندی سے پراٹھا پلیٹ میں واپس رکھ کر وہ اٹھا اور گیٹ کے پاس لگے نلکے سے ہاتھ دھو کر آگیا ۔اس نے پراٹھے کو مروڑا اور منہ سے کاٹ کر کھانے لگا۔

ایسے نہیں کھاتے۔۔۔میں نے پھر ٹوکا۔میں تو ایسے کھاتا ہوں۔ لاؤ میں کھلادوں۔۔۔

میں نے پراٹھے اور آملیٹ کا نوالہ توڑ کر اسکے حیرت سے کھلے ہوئے منہ میں ڈالا،جسے وہ جلدی جلدی چبانے لگا۔

میں اسے اپنے ہاتھوں سے نوالے کھلاتی رہی اور وہ کھاتا رہا ۔ایسا لگا جیسے میں سالوں سے ایسے ہی اسے سامنے بٹھا کر اپنے ہاتھوں سے نوالے کھلاتی رہی ہوں۔ جیسے وہ میرے ہی وجود کا حصہ رہا ہو۔ جیسے ہمارے درمیان کوئی نہ دکھائی دینے والا رشتہ جڑ رہا ہو ۔

ناشتہ کرکے وہ کھڑا ہو گیا اور بڑی معصومیت سے بولا ،اب میں جاؤں؟؟ کل پھر آؤں گا۔۔

مجھے ہنسی آگئی۔۔۔کیا بے تکلفی تھی۔

ٹھیک ہے۔ آجانا۔۔۔۔۔لیکن مجھے اپنا نام تو بتاؤ۔

ابا مجھے مانا بلاتا ہے۔

اور اماں؟

اماں نہیں ہے۔

میرے دل کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا۔ اسے اپنے ساتھ لگا کر میں نے اسکی کمر تھپکی،کل پھر آنا۔ کیا کھاؤ گے؟

پراٹھا اور چائے اور آنڈا۔ اس نے خوشی خوشی کہا اور اپنا تھیلا اٹھا کر باہر نکل گیا۔

مانا ہر روز تو نہیں لیکن دوسرے تیسرے دن آنے لگا۔

اور مجھے اسکا انتظار رہنے لگا۔ اسکی زندگی میں ممتا کی کمی تھی اور میری زندگی میں کوئی اس جیسا نہیں تھا ۔وہ بہت معصوم لیکن ذہین بچہ تھا ۔اسکے پاس کتاب نہیں تھی لیکن زندگی کا وہ تجربہ تھا جو اسکے ہم عمر بچوں کے پاس نہیں تھا۔۔ کبھی کبھی تو وہ مجھے حیران کر دیتا تھا ۔

ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا۔آپ تو امبیر ہیں پھر آپ مجھے ڈانٹتی کیوں نہیں ہو؟؟

میں نے جواب دیا،کیونکہ تم میرے چھوٹے سے دوست ہو اور دوست تو پیارے ہوتے ہیں،اتنے پیارے دوست کو ڈانٹتے تھوڑی ہیں  ۔

تو آپ نے کسی امبیر بچے کو دوست کیوں نہیں بنایا؟

میں تو غریب ہوں۔۔کاغذ کٹھے کرتا ہوں،

اس لئیے کہ کوئی امیر بچہ مانے جیسا پیارا نہیں ہے ۔

اچھا۔۔۔۔لیکن اگر میں پیارا ہوں تو باقی ساری امبیر باجیاں مجھے پیار کیوں نہیں کرتیں؟مجھے دوست کیوں نہیں بناتیں؟؟

میں چکرا گئی اور سوچ کر بولی۔ کیونکہ تم نے کبھی ان باجیوں سے باتیں نہیں کیں،انھیں پتہ ہی نہیں ہے کہ مانا کتنا پیارا بچہ ہے  ۔

وہ کوئی خاص مطمئن تو نہیں ہوا لیکن چپ ہوگیا۔پھر کچھ دیر بعد بولا۔ابا کہتا ہے امبیر لوگ ظالم ہوتے ہیں۔بچوں کو مارتے ہیں،نوکر بنا لیتے ہیں،لیکن آپ تو ایسی نہیں ہو ۔

تو میں امیر ہوں ہی کب؟ اور دوستی میں سب برابر ہوتے ہیں۔میں نے ہنس کر کہا۔۔

اس نے مجھ سے کبھی پیسے نہیں مانگے،بس ہمیشہ کھانے کو کچھ مانگتا تھا اور میرے ہاتھ سے کھانے کی فرمائش کرتا تھا۔لیکن ایکدن اس نے مجھ سے پوچھا۔

آپ کے پاس کھڈونے ہیں؟

نہیں۔۔

آپکے بچوں کے پاس کھڈونے نہیں ہیں؟

میرے بچے نہیں ہیں۔میں نے جواب دیا۔

وہ حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے    بولا۔

آپکا کوئی بچہ نہیں ہے؟

نہیں۔۔۔

وہ تھوڑی دیر چپ رہا اور پھر بڑی سنجیدگی سے بولا۔

آپ مجھے اپنا بچہ بنا لو۔۔۔مجھے اماں بہت یاد آتی ہے۔۔۔

میرا دل کٹ کے رہ گیا۔

تم میرے دوست بھی ہو اور بچے بھی ہو۔میں نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔

دوست کیا ہوتا ہے؟اس نے پوچھا

میں نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔

دوست وہ ہوتا ہے جس سے ہم اپنے دل کی ساری باتیں کر لیتے ہیں اور وہ انھیں سنتا بھی ہے اور سمجھتا بھی ہے ۔

جیسے میں آپ سے ساری باتیں کرتا ہوں۔اماں کی۔۔ابا کی باتیں؟اس لیے آپ میری دوست ہو۔۔۔؟؟

ہاں بالکل ایسے ہی۔۔۔میں نے پیار سے کہا۔

مانا واقعی میرا دوست تھا۔۔۔۔جب وہ میرے پاس ہوتا تھا تو میں بھی چھے سال کی بچی بن جاتی تھی۔۔۔اس نے مجھے کنچے کھیلنے سکھائے اور میں نے اسے لوڈو کھیلنی سکھائی۔۔۔ہم برف پانی بھی کھیلتے تھے اور اڈا کھڈا بھی۔ وہ آتا تو ہمارے گھر کے صحن میں بہار آجاتی اور چلا جاتا تو خزاں چھا جاتی۔۔۔۔مجھے اپنے چھوٹے سے دوست سے دلی لگاؤ تھا۔۔۔اور وہ بھی مجھ سے بے حد مانوس ہو گیا تھا۔۔۔

میرے شوہر کو اس بڑھتی ہوئی دوستی پر گہری تشویش تھی۔ وہ میری غریب مزاجی، نرم دلی اور حساس طبیعت سے واقف تھے سو ایکدن مجھ سے کہنے لگے۔

اس بچے کے باپ کو پتہ چلا کہ یہ کاغذ چننے کی بجائے گھنٹوں ہمارے گھر رہتا ہے تو اسکا آنا جانا بند کر دے گا اور پھر تم مشکل میں آجاؤ گی۔ دلی اور ذہنی تکلیف برداشت کرو گی اور تمہیں ڈپریسڈ دیکھ کر میں پریشان ہونگا،اسکی عادی مت بنو،وہ بچہ ہے بہل جائے گا لیکن تم نہیں بہلو گی ۔

پروفیسر صاحب ٹھیک کہتے تھے۔۔۔۔ایکدن ایسا ہی ہوا۔

مانا ہمارے گھر میری دی ہوئی پانی والی گن سے کھیل رہا تھا کہ اسکا باپ گھر کا گیٹ پیٹنے لگا ۔میں نے گیٹ کھولا تو اس نے اندر آکر مانے کو دو تین زناٹے کے تھپڑ لگا دئیے اور چنگھاڑا۔

تو ادھر کھیلتا ہے تو کاغذ تیرا باپ کٹھے کرے گا؟ چل کام پہ جا۔

پھر وہ بڑے غصے سے مجھ سے مخاطب ہوا۔۔۔

باجی۔۔۔ام غریب لوگوں کے بچے کے پاس کھیلنے کا ٹیم نہیں ہوتا ۔تم اسکا روز دیہاڑی خراب کرتا ہے ۔ یہ روز خالی ہاتھ گھر جاتا ہے۔ تم کو اتنا اچھا لگتا ہے تو تم رکھ لو ام کو دو لاکھ روپیہ دے دئیو۔۔۔۔ام بچہ تمہارے نام لکھ دے گا۔

میرا جی تو چاہا کہ دو لاکھ روپے اس لالچی باپ کے منہ پر ماروں اور مانے کو ہمیشہ کے لئیے اپنے پاس رکھ لوں اور شاید میں ایسا کر بھی دیتی،لیکن اتفاق سے پروفیسر صاحب گھر پر موجود تھے۔وہ مانے کے باپ کی اونچی آواز سن کر باہر آگئے اور سخت لہجے میں کہا۔

جاؤ اپنے بچے کو لے جاؤ اور دوبارہ اسے یہاں مت آنے دینا۔

ہمیں بچہ خریدنے کا کوئی شوق نہیں ہے اور ہاں،اس سے کام کراتے ہو تو پیٹ بھر کر کھلایا کرو،بھوکے بچے سے کام کراتے شرم نہیں آتی تمہیں۔ ؟

مانا اس ساری کاروائی کے دوران دم بخود کھڑا کبھی اپنے باپ کو اور کبھی مجھے دیکھتا تھا۔۔۔وہ سہم گیا تھا۔

پروفیسر صاحب کی آمد پر اسکے باپ کا غصہ دھیما پڑا اور وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا مانے کو گھسیٹتا ہوا گیٹ سے باہر نکل گیا۔

باپ کے پیچے گھسٹتے ہوئے مانے نے مجھے بےبسی سے دیکھا۔۔۔اسکی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے۔ مانا با آواز رو رہا تھا اور میرا دل رو رہا تھا ،میری ممتا رو رہی تھی،لیکن وہ بھی مجبور تھا اور میں بھی مجبور تھی۔ اسے جانا ہی تھا۔۔یہ میں بھی جانتی تھی اور مانا بھی جانتا تھا۔

اس دن کے بعد میرے گھر کا آنگن اس گھونسلے کی طرح سونا ہو گیا جس سے آخری پرندہ بھی اڑ گیا ہو۔ مانا کئی ہفتے نہیں آیا،لیکن میرا دل اسکا منتظر رہا،اسکے کھلونے،لوڈو، پراٹھے اور آملیٹ بھی اسکے منتظر رہے۔

پھر ایک دن وہ آیا اور ہمیشہ کی طرح میں نے گیٹ کی جھریوں سے اسکے گندے میلے پاؤں دیکھے۔ انھیں دیکھ کر مجھے ایسی خوشی ہوئی جیسے کوئی میرے لئیے پھولوں کا گلدستہ رکھ گیا ہو۔

میں نے گیٹ کھولا اور وہ اندر آکر مجھ سے لپٹ گیا۔

وہ آنسوؤں سے رو رہا تھا اور میں بغیر آنسوؤں کے رو رہی تھی۔ وہ پہلے سے بھی کمزور ہو گیا تھا،زرد ہو رہا تھا۔

میں نے پوچھا۔

تم ٹھیک تو ہو؟ ابا کو پتہ لگ گیا کہ تم یہاں آئے ہو تو وہ تمہیں مارے گا۔۔۔چلے جاؤ واپس مانے ۔

اس نے ہچکیوں کے درمیان مجھ سے جو کچھ کہا وہ میری اور اسکی منفرد دوستی کا حاصل تھا اور رہے گا۔

اس نے کہا۔ ۔

میں روز کاغذ کٹھے کرونگا۔ پیسے جوڑوں گا،جب دو لاکھ پورا ہو جائے گا،تو میں ابا کو دے کر آپ کے پاس آجاؤں گا،پھر کبھی نہیں جاؤں گا، آپ مجھے رکھ لو گی اپنے پاس۔ ؟

مجھے کسی کے سامنے آنسو بہانا پسند نہیں ہے لیکن اس دن میں اپنے آنسوؤں پر پہرہ نہیں  لگا سکی۔ وہ آنسو جو زندگی کے مشکل ترین وقت میں اپنوں کے سامنے نہیں بہے تھے وہ اس چھے سال کے بچے کے سامنے شکست کھا گئے۔۔۔بہہ نکلے۔۔۔بہتے رہے۔

ہاں۔ ۔پھر تم میرے پاس رہنا،ہمیشہ کے لئیے،میرے بیٹے بن کرِمیرا مانا بن کر ۔

میں نے آخری مرتبہ اسے اپنے ہاتھ سے اسکا پسندیدہ انڈہ پراٹھا کھلایا۔۔۔۔اسکے کھلونے اسے دینے چاہے جو اس نے نہیں لئیے۔۔۔۔۔اور پھر وہ مڑ کے دیکھے بغیر گیٹ سے نکل گیا۔۔۔میری زندگی سے بھی نکل گیا۔۔۔۔شاید ہمیشہ کے لئیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن وہ چھے سال کا بچہ میرا سچا دوست تھا اور ہمیشہ رہے گا،کیونکہ اس نے میرا اور میں نے اسکا درد سمجھا تھا، بانٹا تھا ۔دوستی اسی کو تو کہتے ہیں اور ایسی دوستی عمر،سٹیٹس،ذات پات اور ڈگریوں کی محتاج نہیں ہوتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply