مرگ مفاجات یا مکافات۔۔۔۔محمد خان چوہدری

غربت ایک ایسا ناسور ہے کہ بندہ ایک دفعہ غریب ہو جائے پھر غریبی سے جان چھڑا بھی لے، تو بھی غربت کا ٹیکا اس کے ماتھے سے چمٹا رہتا ہے،
تقسیم سے پہلے خلیل خان جالندھر اور امرتسر کے علاقے میں مویشیوں کا کاروبار کرتا تھا، خاندانی قصاب تھا، گائے بیل بکری بھینس جو بھی ناکارہ ہوتی خرید لاتا، دوسرے رشتہ دار اس سے خرید لیتے، کبھی کبھار خود بھی ایک آدھ جانور ذبح کر کے گوشت بیچتا تھا، اس کا باڑ ہ بہت بڑا تھا۔

جب تقسیم ہند ہوئی  تو اسے بھی نقل مکانی کرنی پڑی اور وہ اس قصبے میں پناہ گزین ہوا، جہاں سے اس کے جاننے والے بھارت منتقل ہوئے تھے کہ یہاں اس کا آنا جانا رہتا تھا اور جان پہچان بھی تھی،
اس کے ساتھ ایک عورت بھی تھی جسے وہ اپنی بیوی ہی ظاہر کرتا تھا، وہ اچھے نُک سُک کی عورت تھی۔
یہ قصبہ درجن بھر دیگر گاؤں کے وسط میں ہے، ان سب دیہات کا مشترکہ ریلوے سٹیشن اس کے شمال میں تھا، جنوب میں پولیس چوکی تھی۔
پٹوار خانہ، آڑھت اور ہول سیل کی دکانیں بازار میں تھیں جو افقی رخ پے قصبے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا، غربی جانب ریلوے لائن کی طرف ہندؤوں کا محلہ تھا جہاں دو منزلہ پکے مکان ، لڑکوں کا ہائی  اور لڑکیوں کا مڈل سکول تھے، جن کے درمیان پکا تالاب اور مندر بھی تھا۔شرقی جانب مسلمان اور سکھ آباد تھے جن کی رہائش گاہیں زمینداری طرز کی تھیں۔
پاکستان بنتے وقت جذبہ حب الوطنی عروج پر  تھا، ہندو اور سکھ تو چلے گئے اور مسلمانوں نے فرض کے طور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا آگ لگائی  گئی  جو پورا مہینہ جلتی رہی، ہندوؤں کا محلہ پورا جل گیا، بس سکول بچ گئے۔جن میں سرحد بننے کے بعد اس پار سے آئے لوگ ٹھہرے۔

خلیل خان نے لڑکیوں کے سکول سے ملحق خالی جگہ پہ  ملبہ جمع کر کے دو کمرے اینٹ کے ٹوٹے اور گارے سے چھت لئے،اس کے سامنے کھوکھا بنا کے اس میں قصاب کی دکان بنا لی،سکول دوبار ہ شروع ہوئے تو اس کی بیوی مائی  بھرتی ہو گئی،پھر کلیم داخل کئے گئے، اور حاطے الاٹ ہونے لگے،خلیل کا نہ کوئی کلیم بنا اور وہ اسی جگہ مقیم رہا۔
راجہ انصر پٹواری تھا، اس نے کلیم کے لین دین میں دو کنال جگہ خرید کے حویلی بنائی  جس کی نکڑ پے خلیل کا کوٹھا تھا، جسے اس نے ویسے ہی رہنے دیا۔
اس عرصے میں خلیل خان کھلو قصائی  بن گیا، اس کی بیوی مائی  ملکاں بن گئی اور ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی  جس کا نام عذرا رکھا گیا۔
راجہ عنصر کا بڑا بیٹا نذر عذرا سے چار سال بڑا تھا، پڑوسی ہونے اور ملکاں کے راجہ کے گھر کام کاج کرنے کے سبب یہ دونوں ساتھ ہی پلے۔
راجہ انصر نے کھلو کے مکان سمیت چار کنال جگہ جو سکول سے ملحق تھی وہ بھی اپنے نام کرا لی،عذرا سکول ساتھ ہونے اور ماں کی نوکری کی وجہ سے پڑھتی رہی،اس کے میٹرک تک پہنچنے سے پہلے ہی سکول کا درجہ بھی ہائی  سکول ہو گیا۔۔
اس دوران نذر نے عذرا کے ساتھ کافی بے تکلفی کر لی،کھلو بیمار ہوا اور اسے ملکاں کا بھائی  جو پنڈی رہتا تھا، علاج کے لئے لے تو گیا لیکن کھلو مرض کی تشخیص سے پہلے ہی فوت ہو گیا۔
ملکاں جہاں دیدہ عورت تھی ، لیکن اب عذرا اور نذر کی نوجوانی کے بیچ بند باندھنے سے قاصر تھی، بس اتنا سد باب کر سکی کہ ضرورت کی چند چیزوں کے علاوہ سب کچھ بیچ کے اور سکول سے اپنے واجبات وصول کر کے کچھ پیسے جمع کر لئے۔
اور ایک رات جب راجہ انصر کے گھر مہمان آئے ہوئے تھے، اور وہ رات گئے باورچی خانہ سمیٹ کے آئی تو عذرا اور نذر بند کمرے کے اندر تھے۔
نذر تو کپڑے پہنتے نکل گیا لیکن عذرا چارپائی سے نہ اٹھ سکی،
ملکاں نے راجہ انصر سے اگلے دن علیحدگی میں بات کی تو اس نے اسے بری طرح دھتکار دیا، اور عذرا پر اور لڑکوں سے دوستی کا الزام لگایا ساتھ دھمکی دی کہ وہ اس کی زمین پر بیٹھی ہے اگر بات باہر نکلی تو وہ بھی وہاں سے نکلے گی۔
اس وقت ریل گاڑی آدھی رات کے قریب پنڈی جاتی تھی، اسی رات ملکاں بغیر کسی کو بتائے عذرا کو لے  کر ریلوے سٹیشن پہنچی اور ٹرین پر  پنڈی آ گئی۔۔
قصبے میں دو چار دن ان کے جانے کی بات چلی، اس سے آگے نہ کسی نے کوئی  کاروائی  کی کہ کسی کو اس سے غرض نہ تھی اور لوگ بھول گئے کہ کوئی  کھلو قصائی  تھا یا اس کی بیوی اور بیٹی کہاں غائب ہو گئیں۔
ملکاں کا بھائی  تعلیمی بورڈ میں چپڑاسی تھا، اس نے بھاگ دوڑ کر کے عذرا کی میٹرک کی سند بنوا لی جس پے اس کا نام عذرا تبسم درج کرا لیا، اور اسے پی ٹی سی کا کورس کروا کے پرائمری سکول میں ٹیچر بھرتی کروا دیا۔
اسی سکول میں ملکاں نے کینٹین لے لی، بھائی  پہ  وہ بوجھ نہ رہی
عذرا نے ایف اے اور سی ٹی کا کورس کیا، پھر بی اے، بی ایڈ اور ایم اے پرائیویٹ امتحان دے کے پاس کئے اور ماہر مضمون کی گریڈ سترہ پہ  پروموشن لی اور ہائر سیکنڈری سکول میں پہنچ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملکاں کے بھائی  کی دونوں بیٹیوں کی شادی ہو گئی، عذرا نے شادی کرنے سے انکار کر دیا، اور پھر اس کی گریڈ بیس میں ترقی اور ہیڈ مسٹریس لگنے کا مرحلہ آ گیا، جس کے لئے پنڈی میں کوئی  سیٹ خالی نہ تھی۔
وہ گریڈ نہ لینے کا سوچ رہی تھی کہ ایک دن ڈائریکٹر کے دفتر میں میٹنگ کے بعد اسے ڈویژن میں ہیڈ کی خالی پوسٹس کی لسٹ دیکھنے کو ملی اور اس میں اسی قصبے کا سکول بھی شامل تھا، اور یہ اطلاع بھی تھی کہ وہاں سکول میں ہیڈ کی رہائش کے لئے پراپر گھر بھی ہے، اب نوکری کا سال بھی آخری تھا جس کے بعد ساٹھ سال کی عمر پہ  اس نے ریٹائر ہونا تھا۔۔
تو یوں چالیس سال کے بعد جب میڈیم اے تبسم اپنی کار خود چلا کے اس سکول چارج لینے پہنچی تو اس کی انتظامی سخت مزاجی کی خبریں اس سے پہلے پہنچ چکی تھیں۔
کالج بننے سے سکول کی ہیئت بدل چکی تھی، سائنس بلاک نیا بنا تھا جس میں راجہ انصر کی عطیہ کردہ زمین بھی شامل تھی اور اس کی فیملی قصبے کے باہر مین روڈ پہ اپنے فارم ہاؤس میں رہتی تھی۔
رئیس شاہ لیب اسسٹنٹ بھی ابھی پوسٹ ہوا تھا اچھا خوش شکل نوجوان تھا۔
ایک دن میڈیم نے اچانک لیب کو چیک کیا، تو سائیڈ روم میں سیکنڈ ایئر پری میڈیکل کی لڑکی راشدہ اور رئیس شاہ انتہائی قابل اعتراض حالت میں تھے۔۔۔۔
میڈیم خاموشی سے راشدہ کو دفتر لے آئیں۔
اسے فون کر کے گھر سے اپنے والد کو بلانے کا کہا تو راشدہ نے بڑے فخر سے جواب دیا کہ اس کے والد دبئی  ہوتے ہیں اور وہ نذر کی پوتی ہے۔جن کے والد راجہ انصر نے یہ زمین دے کے کالج بنوایا تھا۔
میڈیم نے تحمل اور حیرانی سے اسے دادا کو بلانے کا کہا۔۔
اور پھر کچھ ہی دیر بعد نذر اور عذرا بلمقابل تھے، راشدہ کو کلاس میں بھیجنے کے بعد عذرا نے کہا کہ کیا وہ وہی فیصلہ کرے جو راجہ انصر نے چالیس سال پہلے کیا تھا یا پھر کھلو قصائی  کی بیٹی بن کہ  کرے۔۔۔۔۔؟
نذر کی حالت غیر ہو گئی، کافی دیر کے بعد وہ بولا،
کہ اس وقت اس کا کوئی  قصور نہ تھا، وہ کہاں اور کیسے ڈھونڈتا، کوئی  اتہ پتہ نہ تھا، کوٹھا بھی گر گیا جہاں بیٹھ کے وہ اسے یاد کرتا تھا کچھ نہیں  تھا سوائے چاچے کھلو کی قبر کے جہاں وہ اب بھی باقاعدگی سے جاتا ہے۔۔۔
دفتر میں سکوت طاری رہا، جب کلرک نے رئیس شاہ کے ٹرانسفر آرڈر میڈیم کے سامنے دستخط کے لئے رکھے۔
اس شام ، خلیل خان کے کتبے والی قبر پہ  پھولوں کی چادر ایسے چڑھائی  گئی۔۔۔جیسے عذرا کی ڈولی اٹھائی جانی ہو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply