مبادیات فلسفہ اقبال از اعجاز الحق‬/تبصرہ۔۔مہر سخاوت حسین

پچھلے دنوں مجھے لاہور جانا ہوا وہاں اپنے دوست اعجاز الحق سے ملاقات ان کے گھر پر ہوئی۔جہاں اعجاز صاحب نے پُرتکلف دعوت کا انتظام کیا ہوا تھا۔ ان کی دعوت سے ظاہر ہوا کہ کہیں نا کہیں ڈیرہ سسٹم سے منسلک رہے ہیں ۔ پوچھنے پر انکشاف ہوا کہ ان کا تعلق پیسانوالہ(فیصل آباد) سے ہے۔انہوں نے مجھے اپنی نئی کتاب “مبادیات فلسفہ اقبالؒ” پیش کی ۔اعجاز صاحب سوشل میڈیا کی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔علمی اور ادبی حلقوں میں ان کی ایک خاص پہچان ہے ۔ یوں تو ادب کے میدان میں اعجاز صاحب نے کامیابیوں کے کئی جھنڈے گاڑے ہیں مگر بالخصوص اقبالیات پہ   علم و مطالعہ ان کا خاصہ ہے۔میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ان کے سینے میں اقبالؒ شناسی کا تمام سامان موجود ہے ۔
اعجاز الحق صاحب تدریس جیسے معزز پیشے سے وابستہ ہیں۔
اردو میں پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ اقبالیات میں ایم فل کیا ہوا ہے۔اعجاز صاحب تین کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ جو کہ علمی و ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل کر چکی ہیں ۔ ان کی کتابیں
1.اقبال اور سائنسی تصورات
2.اقبال اور شیکسپیئر
3.مبادیات فلسفہ اقبال ہیں ۔

اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور کے چیئرمین بھی ہیں۔
اس کتاب میں معروف اقبال شناس اعجازالحق اعجاز نے علامہ محمد اقبال کے فلسفے کے نقوش کو اچھوتے انداز میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس اہم کتاب میں اقبال کے بنیادی فلسفیانہ تصورات و افکار مثلاً  خدا ، کائنات ، خودی ، حیات ، بقائے دوام ، عشق ، حسن و حمال اور اخلاق کو موضوع بحث بناتے ہوئے نا  صرف ان پر مشرقی و مغربی فلاسفہ کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے بلکہ یہ دیکھنے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ علامہ صاحب کی اپنی اوریجنل فکر کیا ہے اور انھوں نے فلسفے کے باب میں کیا کیا اضافے کیے ہیں۔ مصنف نے فلسفہ اقبال کے خدو خال متعین کرتے ہوئے بہت عمیق     نگہی اور وسیع فلسفیانہ مطالعے کا ثبوت دیا ہے۔ یہ کتاب یقینی طور پر اقبالیاتی ادب میں ممتاز اہمیت کی حامل ہے۔

کتاب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے فلسفہ کے میدان میں کافی ریسرچ کر رکھی ہے۔ کتاب کے صفحہ 7 پر نظر دوڑائیں تو مغربی فلسفہ دان ڈیکارٹ کا نام نظر آتا ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے مصنف نے کتاب لکھتے وقت بہت محنت کی ہے۔ڈیکارٹ جس کا تعلق فرانس سے تھا۔ڈیکارٹ کو فلسفہ تشکیک کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔ فلسفے میں ڈیکارٹ کی شہرت مسلمہ ہے۔ مصنف واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ڈیکارٹ کی طرح علامہ اقبال بھی حقیقت کو پارہ پارہ کرنے کے حق میں نہیں۔وہ اس کا موازنہ غزالی اور کانٹ سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مصنف  قران مجید کا حوالہ بھی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
“قران مجید نے بھی تو حقیقت مطلقہ کو انسان کی رگ ِ جاناں سے قریب تر ٹھہرایا ہے ۔۔۔۔۔”صفحہ 9

آپ آج سے سو سال پہلے کے بر صغیر کا تصور کریں، اس وقت مذہبی رجعت پسندی , تفرقہ بندی اور فرقہ پرستی عروج پر تھی۔ بات بات پر کفر کے فتوے لگائے جاتے تھے۔ ان حالات میں راتوں رات تبدیلی کا تصور بیکار تھا ۔ تبدیلی ایک مسلسل اور بتدریج عمل ہےاور یہ کسی خلا میں واقع نہیں ہوتی ۔اسکے لئے مناسب معاشی، سائنسی اور علمی فضا کا ہونا بھی ضروری ہے۔ لیکن مذہبی تشکیل نو ایک اہم کام تھا۔ اس کو وقت کے دھارے پر نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے مسلمانوں کی مذہبی سوچ کی تعمیر نو کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ۔ اقبال نے تصور خدا کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کو مصنف نے یوں بیان کیا ہے ۔
اقبال اور ابن عربی کے درمیان کشش و گریز کے بہت سے سلسلے پائے جاتے ہیں۔ اقبال ان کے بعض تصورات و افکار کو سراہتے ہیں اور کچھ سے اختلاف کا اظہار کرتے ہیں۔
ابن عربی کا قول ہے ” الحق محسوس و الخلق معقول” یعنی خدا ایک percept ہے اور یہ کائنات ایک concept-

عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ عالم محسوس ہے یعنی ہم اپنے حسی ادراک کی مدد سے اسے جانتے ہیں یعنی یہ نظر آتا ہے ہمارے سامنے موجود ہے مگر خدا محسوس نہیں بلکہ معقول ہے یعنی خدا کو ہم حواس کی مدد سے نہیں جان سکتے ۔ کانٹ نے بھی عالم حقیقت اور عالم مظاہر کو الگ الگ جانا اور کہا کہ عالم حقیقت عقل محض کی رسائی سے باہر ہے اور ہماری عقل کی حد عالم محسوس یعنی اس دنیا اور اس کے مظاہر تک ہی ہے شے فی نفسہ تک نہیں۔ جب کہ ابن عربی اس کے بالکل الٹ موقف رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک خدا تو محسوس ہے یعنی ایک روز روشن کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے کہ وجود تو دراصل اسی کا ہے اور یہ دنیا معقول ہے یعنی ہم اس کے بارے میں عقلی اندازے قائم کرتے ہیں مگر اس کی حقیقت ویسے ہمارے سامنے نہیں جیسے خدا کی ہے۔دنیا تو محض ایک خیال اور وہم و گماں ہے۔ اپنی کتاب فصوص الحکم کی فصل ہودیہ میں انھوں نے اس کی وضاحت کی ہے۔ اقبال نے بھی اس کی تائید کی ہے۔اور کہا ہے کہ
بہ بزم ما تجلی ہاست بنگر
جہاں ناپید و او پیداست بنگر
یعنی جہاں پوشیدہ اور خدا ظاہر ہے۔ اقبال نے جو خیال پیش کیا ہے وہ ابن عربی کے تصور کی تائید کرتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ کائنات تو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے اور خدا ظاہری حقیقت ہے ۔ ابن عربی اور اقبال دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ شعور کے بہت سے مدارج ہیں اور جس حقیقت کی طرف انھوں نے اشارہ کیا ہے وہ شعور کے بلند تر درجے ہی پہ جانی جا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مصنف نے اقبالؒ کے تمام تصورات کائنات، خودی، حیات، بقائے دوام، عشق، حسن و جمال اور تصور اخلاق کو خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ اعجاز الحق کی کتاب “مبادیات فلسفہ اقبال ” عکس پبلیکنز نے شائع کیا ہے ۔یہ کتاب 140 صفحات پر مشتمل ہے ۔جس کے ہر ورق پر علامہ اقبال کے نظریات بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
مصنف نے جابجا مستند حوالے دیئے ہیں ۔

Facebook Comments