ہتھیلی پر سوالوں کا رقص/حیدر جاویدسیّد

یقیناً اس بات پر غوروفکر کی ضرورت ہے کہ مسلسل ناکامی، معاشی ابتری، عدم مساوات، انصاف سے بلاتکار سمیت دوسری تمام خرابیوں کا ذمہ دار کون ہے۔ سول و ملٹری اشرافیہ، انصاف کا نظام یا سیاسی جماعتیں، کیا ہم جب سیاسی جماعتوں کی بات کرتے ہیں تو اس میں مسلکی بنیادوں پر قائم مذہبی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوتی ہیں یا ان کا الگ سے ذکر لازم ہے؟

یہ ساری باتیں غور طلب ہیں لیکن کیا اس سے قبل “ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار” والی اس صورتحال پر غور نہ کرلیا جائے جو بٹوارے سے معرض وجود میں آئی مملکت میں روز اول سے ہے۔

ہمارے بعض صاحب مطالعہ دوستوں کی رائے یہ ہے کہ ان ساری باتوں سے قبل اس فہم کا تجزیہ ضروری ہے جو سامراجی تسلط سے آزاد ہوئی مملکتوں میں غلامی کے عرصہ میں پروان چڑھی ہو۔ ہوسکتا ہے ان کی بات درست ہو مگر یہ بھی تو دیکھنا ہوگا کہ کیا مقامیت، صدیوں کی اقدار و روایات اور ثقافت و شناختی تاریخ اس قدر بودے تھے کہ محض سو سوا سو سالہ غلامی میں سب کچھ بکھر گیا۔ یا پھر ہم ماضی کی جس شعوری معراج اور ورثے کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے وہ تو بس خواب ہیں۔

بات سے بندھی بات اور سوال سے جنم لیتا سوال سبھی اہم ہیں۔ کالم کے دامن میں دفتر لکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی اس لئے ہم صرف ان 75برسوں کی بات کرلیتے ہیں جو بٹوارے کے بعد کے ہیں۔ ان 75 برسوں کے دوران 4 بار براہ راست مارشل لاء لگا متعدد بار ساجھے داری کا نظام کچھ لولی لنگڑی جمہوری حکومتیں جوطبقاتی جمہوریت کی محافظ ثابت ہوئیں۔

ایک رائے یہ ہے کہ بٹوارے کی بنیادوں میں شامل مذہبی شدت پسندی ایسے سماج اور نظام کی تشکیل میں رکاوٹ بنی جو زندگی کے رنگوں سے عبارت ہوتے۔

یہ رائے رکھنے والے دو باتیں کرتے ہیں پہلی یہ کہ برصغیر میں اپنی آمد اور پھر حکمرانی تک کا اختیار حاصل کرلینے والے مسلمان (ان میں باہر سے آنے اور مقامی طور پر مذہب قبول کرنے والے دونوں شامل ہیں) کیا واقعی ہندوئوں اور سکھوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔

جس معاشی سیاسی اور سماجی استحصال پر بٹوارے کی بنیاد رکھی گئی وہ عین اسی طرح ہوتا جو متحدہ ہندوستان کے مسلم زعما کا ایک طقبہ کہتا لکھتا تھا؟

ثانیاً بٹوارے کو آزادی قرار دینے والوں نے جو خواب برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبوں کے لوگوں کی آنکھوں میں بوئے ان کی تعبیر کیا ہوئی۔ کیوں وہ مثالی مملکت معرض وجود میں نہ آسکی جو کرہ ارض کے انسانوں کو خوشگوار حیرت سے دوچار کردیتی؟ ہمیں ان دو سوالوں پر کڑھنے اور منافقانہ سوچ کا مظاہرہ کرنے کی بجائے انکے جواب تلاش کرنا ہوں گے۔

ایک طالب علم کے طور پر میری رائے یہ ہے کہ ہمارے بعض بزرگوں نے ایک مصنوعی قوم اور تہذیب کا جو راگ الاپا تھا اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ 1920 سے 1940ء کی دہائیوں میں ڈوبتے برطانوی سامراج اور ابھرتے امریکی سامراج کی مرضی سے دنیا کا بالخصوص مقبوضہ جات والی دنیا کا ایک نقسہ بنایا گیا جس کی مملکتیں ایک خاص قسم کے تعصب و نفرت کا شکار ہوں۔

اس خاص قسم کی نفرت اور تعصب کو بہترین غذا مذہبی تعصبات اور مذہب پر تعمیر کردہ قوم کی بنیاد پر مل سکتی تھی۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہمیں یعنی برصغیر کے مسلمانوں میں مقامی مذاہب بارے ایک خاص تعصب کاشت کیا گیا ستم بالائے ستم یہ کہ مقامی سماج کے مختلف طبقات کے جن لوگوں نے نیا مذہب اسلام قبول کیا ان کے دل و دماغ میں بھی یہ بات بیٹھا دی گئی کہ اسلام قبول کرتے ہی مقامیت کے سارے حوالے ان کے لئے غیر ہوئے۔

سادہ لفظوں میں یہ کہ کوئی عربی مصری اور ایرانی تو ان کے بھائی ہوسکتے ہیں لیکن ان کے اپنے ہی پرکھوں کی وہ اولاد جس نے اسلام قبول نہیں کیا اب ان کی اور اسلام کی دشمن ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ ستم بھی ڈھایا گیا کہ مقامی تاریخ ثقافت اقدار سماجی روایات وغیرہ کو بھی ان کے لئے اجنبی بنادیا گیا۔

ایک مصنوعی تفاخر کی پرورش کی گئی۔ عصری شعور سے متصادم اس فہم و روش کے خلاف گزشتہ ایک ہزار سال میں کتنی آوازیں اٹھیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے ہم سبھی آنکھیں چراتے سفر کرکے یہاں تک پہنچے ہیں۔

بار دیگر عرض ہے کہ ہم جب بھی بٹوارے کے بعد کے اب تک کے طے ہوئے سارے سفر کی خوبیوں خامیوں کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کرنے بیٹھیں گے تو ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہم بٹوارے سے قبل بنائی گئی فضا اور اس کے اثرات کو الگ الگ کرکے دیکھیں۔

مجھے یہ رائے درست لگتی ہے کہ جیسے بھی ہوا بٹوارہ ہوگیا اس کے بعد مصنوعی قومیت و تہذیب کے طوق مقامیت کے گلے میں ڈالنے کی بجائے مقامیت کی سچائیوں کو کھل دل سے تسلیم کیا جانا چاہیے تھا ہمیں خود کو مقامی تاریخ و تہذیب سے نہیں کاٹنا چاہیے تھا۔

مقامیت کی مسلمہ تاریخی و تہذیبی شناخت کے حامی کہتے ہیں کہ مصنوعی تاریخ و تہذیب برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبوں کی اشرافیہ کی مجبوری اور ضرورت تھے اسی لئے انہوں نے حملہ آوروں کو نجات دہندہ، مسیحا اور اسلام کی نشاط ثانیہ کے علمبردار کے طور پر پیش کیا۔

بٹوارے کے نتیجے میں بننے والے ملک میں چُن چُن کر مصنوعی چیزوں کو مسلط کیا گیا۔ آپ مسلم قومیت کے تصور سے ابتدا کیجئے اور تاریخ تک چلے آیئے ہر قدم پر آپ کا یہ احساس مزید دوچند ہوگا کہ ہمارے بزرگوں نے اصل میں ہمیں انسانی سماج کا حصہ بننے سے روکنے میں اپنا حصہ ڈالا۔

یہی وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ہاں عوام کے حق حکمرانی کے نعروں سے ابھارے گئے جذبات کا فائدہ بھی بالادست طبقات کو ملا اور مارشل لاء لگے تو بھی یہی بالادست طبقات ساجھے دار کے طور پر مسلط ہوئے۔

اصل میں انہیں ساجھے داری کا کئی نسلوں سے تجربہ تھا کیونکہ ان کے بڑے بھی تو حملہ آوروں کے لشکروں بیوروکریسی اور معاونین کے طورپر ہی برصغیر کے مختلف علاقوں میں آن بسے تھے ان سے بہتر دربار سازی کے دھندوں کو کون سمجھ سکتا تھا یا ہے۔

رہی سہی کسر قرارداد مقاصد، 1956ء اور پھر 1973ء کے دستوروں کی مذہبی شقوں نے پوری کردی یہ شقیں اصل میں خاص فہم کے مسلم تعصب کی بالادستی کو تحفظ دینے کے ساتھ غذا بھی فراہم کرتی ہیں۔

ہمارے لوگوں کی اکثریت اپنے حق حکمرانی اور اگلی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لئے اتنی جذباتی نہیں ہوتی جتنی جذباتیت کا مظاہرہ وہ مسلکی تعصبات سے بھڑکائے الائو کا ایندھن بننے کےلئے ہوجاتی ہے۔

غالباً اس کی وجہ ذہن سازی کا یہ حصہ ہے کہ یہ دنیا برائیوں کا گڑھ ہے۔ کتے کی ہڈی ہے، نفس پرستی ہے، سچی اور حقیقی زندگی تو بعدازت موت ہے وہی زندگی ابدی ہے انسان صرف اُس زندگی کے لئے سرمایہ جمع کرنے کے لئے اس زندگی میں محنت کرتا ہے (یہاں سرمائے سے مراد مال و زر نہیں اعمال صالح ہیں) جب نسلوں کی تعبیر گری ہی زندگی اور دنیا سے بیزاری کے جذبوں اور آخرت سے محبت پر ہوگی تو پھر وہ اس دنیا کی تمعیروترقی میں حصہ کیوں ڈالیں گی؟

کاش ہم اس سوال پر غور کرتے اور پوچھتے بھی ان سے جو ہمیں اور ہمارے بچوں کو یہ پٹی پڑھاتے ہیں کی دنیا کی خواہشیں کوڑھی کے مرض جیسی ہیں۔ اگر واقعی یہ کوڑھی کے مرض جیسی ہے تو یہ لوگ اپنے بچوں اور خود کو اس مرض سے محفوظ کیوں نہیں رکھتے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

پیارے قارئین کچھ بوجھل، تلخ اور روایت سے ہٹ کر لکھی گئی ان سطور میں موجود سوالات پر غور کیجئے اور جواب تلاش کرنے کی سعی بھی یہی لمحہ موجود کی اصل ضرورت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply