اسکیپ ٹو پاکستان(Escape to Pakistan)/ڈاکٹر انور سعید(مترجم؛شاہین کمال)چوتھی قسط

ڈاکٹر انور سعید صاحب کا تعلق چٹاگانگ سے ہے،حالیہ کراچی میں مقیم ہیں، جہاں  ماہر اطفال کے طور پر کام کررہے ہیں ۔  عمر کی 73 بہاریں دیکھ چکے ہیں ۔ زیرِ نظر تحریر اُن کے سفر نامے”Escape to Pakistan”کا اردو ترجمہ ہے،اس کے بارے خود ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ “اسے فرار کہہ لیجیے یا کہہ لیجیے کہ زندہ بھاگ۔یہ میری یعنی ڈاکٹر انور سعید کی دلگیر کہانی ہے۔ میرا کٹھن سفر نامہ جو سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بنگلہ دیش سے پاکستان پہنچنے تک کی روداد ہے۔” شاہین کمال صاحبہ نے اس سفرنامے کا خوب ترجمہ کیا ہے۔

 

 

تیسری قسط کا لنک

 

چوتھی قسط

میں نے اگرتلہ کے راستے انڈیا، پھر انڈیا سے نیپال نکلنے کی کوشش کی تھی پر بھارتی سرحد پار کرنے میں ناکام رہا۔
اس صورت حال سے ابا بڑے متوحش تھے کہ ان دنوں غیر بنگالی نوجوانوں کے لیے بنگال کی سرزمین خون آشام تھی۔ ہندوستانی باڈر پر سختی کے باعث ابا اب مجھے براستہ برما، پاکستان بھیجنے کے لیے کوشاں تھے۔ اس سلسلے میں ابا نے ایک دلال سے بات کی۔ اس دلال نے چٹاگانگ کے فشری ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سے معاملہ طے کیا کہ وہ مجھے اپنی، کسی ماہی گیری کشتی میں “اکیاب” ، برما پہنچا دے۔ پندرہ ہزار روپے میں معاملہ طے پایا۔ اس زمانے میں پندرہ ہزار ایک خطیر رقم تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ مچھلی پکڑنے کی کشتی تو محض آڑ تھی، اصل دھندا تو ہتھیاروں کی اسمگلنگ کا تھا۔ ان کشتیوں میں برمیز کمیونسٹ کو ہتھیار سپلائی کیے جاتے تھے اور بدلے میں برما سے چاول اور سپاری بنگلہ دیش لائی جاتی تھی ۔ ہتھیار بھی کون سے؟ وہی ہتھیار جو پاکستان آرمی سرینڈر کے بعد پیچھے چھوڑ گئ تھی۔ مجھ سمیت اس کشتی میں اٹھ لوگ تھے۔ سات تو بظاہر ماہی گیر اور آٹھواں میں تھا پناہ گیر۔
وہ انتہائی پر خطر سفر تھا مگر چارہ کوئی نہیں کہ آگے کنواں پیچھے کھائی۔ وہ تین راتوں اور دو دن کا اعصاب شکن سفر تھا، بلکہ پچھلی رات تو ہم لوگ برمیز کوسٹل گارڈ کی پٹرول بورڈ سے بال بال بچے تھے۔ شکر کہ ہمارا امیر بحر بہت ہشیار اور تجربہ کار بندہ تھا۔ اس نے کشتی کی موٹر بند کر دی اور ہم سب دم سادھے گہری تاریکی میں خاموش پانیوں پر بہاؤ کے رخ سفر کرتے رہے۔ ہماری کشتی پر ہتھیار لدے ہوئے تھے اور پکڑے جانے کی صورت میں موت یقینی تھی۔
خدا خدا کر کے وہ تیسری صبح تھی، جب مجھے لوگوں کی زور زور سے بولنے اور مبارک سلامت کی آوازیں سنائی دی۔ مجھے کشتی رکتی ہوئی محسوس ہوئی اور عرشے پر خاصی چہل پہل بھی۔ یہ احساس پاتے ہی میں جلدی سے اپنی کمین گاہ (کشتی کا زیریں کمرہ جہاں ہتھیار تھے مجھے بھی وہیں رکھا جاتا تھا) سے نکلا۔ اخاہ!! باہر روشن اور چمکیلا دن تھا اور میرے سامنے سفید ریت اور
تا حدِ نظر جنگل ہی جنگل تھے۔ بالآخر تین راتوں اور دو دن خلیج بنگال کے پانیوں پر رواں رہ کر ہم لوگ محفوظ و مامون برما کے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ بلاشبہ یہ جان جوکھم کا سفر تھا۔
میں نے مارے خوشی کے کشتی سے چھلانگ لگائی، سامنے ہی امیر بحر کھڑا تھا، اس نے بنگلہ میں مجھے حالات سے آگاہی دی اور مجھے بتایا کہ کچھ عرصہ مجھے ان برمیز باغیوں کے ساتھ ہی رہنا ہو گا۔ جیسے ہی مناسب موقع ملے گا مجھے روہنگی مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے گا جہاں سے میرا کراچی کا سفر یقینی ہو گا۔ کپتان نے مجھے برما کے باغیوں کےحوالے کیا اور تین دن ٹھہر کر کشتی پر چاول اور سپاری لاد کر بنگلہ دیش روانہ ہو گیا۔
میں دس دن ان باغیوں کا مہمان رہا اور یہ دس دن میری زندگی کے ایسے دس دن تھے جن میں ہر روز کوئی نہ کوئی نیا تجربہ ہوتا۔
چلیے آپ کو ان باغیوں کے بارے میں مختصراً بتلاتا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کس کے پیروکار تھے، بدھا یا کنفیوشس کے۔ خیر اس سے فرق بھی کیا پڑتا ہے؟
بنی آدم تھے بس اتنا ہی کافی ہے۔ وہ دن میں دو بار پیٹ پوجا کا انتظام کرتے ، پہلا دو پہر میں، جس میں ان کا کھاجا ابلے ہوئے بھات کے ساتھ کھولتی ہوئی چائے اور ساتھ میں سوکھی مچھلی۔ رات کے کھانے میں ابلا بھات اور سبزی۔ اگر کوئی خاص موقع یا تہوار ہوتا تو کوفتے قسم کی چیز جیسے یہ” نوپی ” کہتے، بڑی رغبت سے کھاتے تھے۔ میں چوں کہ سردار کا مہمان تھا، اس لے میری ضیافت بھی کی گئی اور بطور خاص ابلے چاول کے ساتھ نوپی بنایا گیا تھا۔ میں نے مزے لے لے کر ابلے بھورے بھات کے ساتھ نوپی تناول کیا۔ یہ تیسرے دن کا قصہ ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد میں کھانا کھا رہا تھا کہ کشتی والے رخصتی لینے آئے اور ایک آدمی مجھے کھاتے دیکھ کر بے ساختہ چلایا۔
او میرے خدا !!! یہ تم کیا کھا رہے ہو؟؟؟
کیوں کیا ہوا؟ کھانا ہی تو کھا رہا ہوں!
میں نے اگلا نوالہ اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
تم کتے کا گوشت کھا رہے ہو لڑکے!!!
کیا!!!
میرا ہاتھ فضا میں معلق اور منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
تو دوستوں یوں میری دعوت، کراہت پر تمام ہوئی۔
میں چوں کہ سردار کا مہمان تھا اس لیے میرے رات کا ٹھکانہ ایک بہت اونچے درخت پر بنا محفوظ مچان تھا۔ جنگلی جانوروں اور حشرات الارض کی کثرت کے سبب کوئی بھی زمین پر نہیں سوتا تھا۔ میرا ٹھکانہ وی آئی پی تھا مگر رسی کی سیڑھی پر ٹارزن کی طرح لٹک لٹک کر چڑھنا بھی جان جوکھم کا کام۔ بلندی پر ہوا کی تیزی کے سبب رسی کی سیڑھی پتے کی طرح ڈولتی اور اس پر پیر جما جما کر چڑھنا الامان الحفیظ۔
ایک مزے کا قصہ تو رہ ہی گیا۔ کشتی کے تین دنوں کے سفر میں لاکھ کم کھاؤ پر حوائج ضروریہ سے کب فرار؟ کشتی پر باتھ روم تو تھا نہیں تو فراغت کی صورت یوں بنتی کہ کشتی کے عرشے کے ساتھ کشتی کے باہر جو سیڑھی لگی ہوتی اس کے آخری پائیدان پر بیٹھ کر اپنا پچھوڑا پانی میں ڈبو کر حوائج ضروریہ سے فارغ ہوا جاتا۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ لہروں پر اچھلتی کودتی کشتی اور بےبس سے آپ۔ جناب اپنی تمام ایکروبیٹک صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر فارغ ہوا جاتا تھا۔
باغیوں کے کیمپ میں میرے پاس انتظار کے سوا اور کچھ تو کرنے کرانے کو تھا نہیں یعنی بیٹھا بنوا کیا کرے، اِس کوٹھی کا دھان اُس کوٹھی۔ سو میں قبیلے کے ایک دو آدمیوں کے ساتھ جنگلوں میں مارا پھرتا۔ ایک رات عجیب ماجرا ہوا۔ وہ اماوس کی رات تھی اور گہرے جنگل کے بیچو بیچ، الاؤ کے گرد گھیرا ڈالے مردوں اور عورتوں کا ایک حلقہ تھا۔ وہ سب آنکھیں بند کیے، ہاتھ جوڑے منتر چاپ میں مشغول تھے۔ ایک عجیب سی پر اسراریت فضا پر طاری تھی۔ ہم لوگ بھی خاموشی سے کچھ فاصلے پر جھاڑیوں کی اوٹ میں بیٹھ گئے۔ میرے ساتھی نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ یہ لوگ روح کو بلا رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے بھی آنکھیں بند کر کے دھیان لگانے کا مشورہ دیا پر میں شاید اونگھ گیا تھا لہزا روح کے دیدار سے محروم ہی رہا۔
میری کوشش تھی کہ برما کے حکومتی کنٹرولڈ علاقے میں مجھے کوئی ایسا قابل اعتماد روہنگنی خاندان مل جائے جو مجھے اس وقت تک اپنے گھر میں پناہ دے جب تک میں
” اکیاب ” نہ پہنچ جاؤں۔
اکیاب میں برما آئل کمپنی کا مہاجر کیمپ تھا، جہاں سے پاکستانی سفارت خانہ پاکستانیوں کو کراچی بھیجا کرتا تھا۔
اس وقت بھلا مجھے کب خبر تھی کہ اگلے دو ہفتوں میں مجھ پر کیسی قیامت گزرنے والی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply