نگران وزیراعظم کے نام مکتوب/علی نقوی

نگران وزیراعظم کے نام مکتوب:

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور۔۔

ابھی وہ منظر باسی نہیں ہوا کہ عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر بجلی کا بل جلایا تھا کہ اس قیمت پر ہم بجلی کا بل نہیں ادا کریں گے، جب فی یونٹ بجلی کی قیمت نو روپے کے آس پاس تھی، ابھی وہ منظر بھی تازے ہیں کہ جب مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو مہنگائی کے خلاف اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہے تھے اور انکے خیال میں انکے مارچ سے اسٌ وقت کے حکمرانوں کی “کانپیں ٹانگ” رہی تھیں…..
ابھی وہ منظر تازہ ہیں کہ بی بی مریم شہباز شریف کی حکومت کے شروع دنوں میں ٹوئٹر پر موصول کردہ عوامی شکایات پر متعلقہ وزراء کی توجہ دلا رہی تھیں…

لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ کوئی سیاسی رہنما اپنی جگہ سے ہل نہیں پا رہا عمران خان جیل میں ہیں لیکن جو باہر ہیں آزادی انکے لیے بھی خواب بنتا جا رہا ہے، صدر صاحب اپنا ایک آئینی اختیار (کہ وہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیں) استعمال کرنے کی شدید خواہش کے باوجود کسی اہم ملاقات کے بعد رک جاتے ہیں، چیف جسٹس کسی پیارے کو اپنی مدتِ ملازمت کے دوران ہی ریلیف دینے کو بیتاب ہیں لیکن سسک سسک جاتے ہیں، آئی ایس پی آر خاموش ہے، مولانا نہ جانے کہاں ہیں، زرداری صاحب لاہور کے لیے کمر باندھ رہے ہیں، میاں صاحبان اپنے تمام لاؤ لشکر کے ساتھ لندن میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں اور لشکر ملک کی درست سمت کے تعین کے بعد نڈھال ہے خصوصاً اسحاق ڈار صاحب، مخدوم المخادیم موجودہ چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کی کوئی خاص اطلاع نہیں ہے ہاں جو اطلاع ہے وہ یہ کہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کی درگاہ میں رکھی ملتانی پیر کی گدی ڈگمگا رہی ہے، جو کچھ عرس پر زین قریشی کے ساتھ جنابِ مرید حسین نے کیا اس نے بڑے شاہ کے گھر میں کئی الارم ایک ساتھ بجائے ہونگے، حسنِ ظن رکھوں تو یہ کہ سکتا ہوں کہ آخر میں کی گئی تقریر نے شاید شاہ محمود اور زین کی کچھ ڈھارس بندھائی ہو لیکن آخری تقریر چالیس ڈول والے معاملے سے زیادہ کچھ نہیں، پھر زین قریشی کو دبئی جانے سے جس طرح سے روکا گیا ظاہر ہے کہ ہوا کے رخ کا تعین تو کرتا ہے….

نگران کابینہ آ چکی ہے، نہ جانے کب تک ملک میں یہی نگران نگرانی کریں گے، جس طرح اب کسی کو یاد بھی نہیں کہ محسن نقوی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں اسی طرح شاید کل کو ہم بھول جائیں کہ انوار الحق کاکڑ ایک نگران وزیراعظم ہیں، جن کا سب سے اہم کام آئینی دورانیے میں الیکشن کی انعقاد ہونا چاہیے، لیکن اس ایک کام کو چھوڑ کر وہ سب کر رہے ہیں، مسئلہ ایک یہ ہو گیا ہے کہ صدر پی ٹی آئی کا ہے، پنجاب کا نگران سیٹ اپ مسلم لیگ نواز کا ہے، وفاقی نگران بڑے گھر سے ہیں اور ملک کے فیصلے آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہیں تو اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سب سے نکلا جا سکتا ہے تو وہ اسی طرح صدارتی ایوارڈ کا مستحق ہے جیسے ابھی کچھ ادیبوں اور شاعروں کو صدارتی تمغے عطا ہوئے ہیں……

ملک کی خود مختاری کا عالم یہ ہے کہ بجلی کے بل کی اقساط بھی آئی ایم ایف نے منظور نہیں کیں تو نگران وزیراعظم نے فرمایا کہ” بل تو دینے ہونگے اور ایسی بھی کوئی قیامت نہیں آ گئی جتنا شور کیا جا رہا ہے ”

جنابِ وزیراعظم قیامت تو اس ملک میں تب بھی نہیں آئی تھی جب بابائے قوم کو کراچی ائیرپورٹ پر خراب ایمبولینس لینے گئی تھی، قیامت تو تب بھی نہیں آئی جب چھ یا ساڑھے چھ سالوں میں سات وزراء اعظم تبدیل ہوئے تھے، قیامت تو تب بھی نہیں آئی کہ جب اسکندر مرزا پہلے صدر اور ایوب خان اس ملک کے مطلق العنان بادشاہ بنے، جنابِ وزیراعظم قیامت تو فاطمہ جناح پر لگنے والے الزامات اور انکی “مبینہ” جھولتی ہوئی لاش کو دیکھنے کے بعد بھی نہیں آئی تھی، قیامت تو 25 مارچ 1970 کو بھی نہیں آئی کہ جب جنرل یحیٰی خان نے جنرل ٹکا خان کو ڈھاکہ ڈھانے کا حکم یہ کہہ کر دیا کہ
Sort these bastards out
قیامت تو تب بھی نہیں آئی کہ جب مغربی پاکستان کے جنرل نے مشرقی پاکستان کے ساتھ وہ کیا کہ جو دشمن کے ساتھ بھی نہیں ہونا چاہیے “آپریشن سرچ لائٹ” قیامت تو تب بھی نہیں آئی کہ جب اسی جنرل ٹکا خان کو قائد عوام نے مشرقی پاکستان کے عوام کی عقل ٹھکانے لگانے کے انعام میں مغربی پاکستان کی فوج کی سپہ سالاری عطا کی، اس فاتح بنگال ٹکا خان کی وجہ سے بھوکے بنگالیوں کی عقل وہ ٹھکانے لگی کہ وہ ہم سے الگ ہوگئے اور وہاں پہنچ گئے جہاں مغربی پاکستان کے کسی عزت مآب کی ٹکے کی عزت نہیں ہے، قیامت تو تب بھی نہیں آئی کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے بنائے آئین نے لوگوں کی ایمان کی پرکھ کی، تب کہ جب ایک چاپلوس جنرل نے بھٹو کو خوش کرنے کے لیے انکے بوٹ صاف کیے، تب کہ جب جلتا ہوا سگریٹ اپنی خاکی پتلون کی جیب میں ڈال لیا، قیامت تب بھی نہیں آئی کہ جب وہ بوٹ پالشیا اسی بھٹو کی گردن پر پشت سے سوار ہوا اور اسکا سر کاٹ کر اٹھا، قیامت تب بھی نہیں آئی کہ جب وہ بھٹو کی لاش بھمبھوڑنے کے بعد اس ملک کی گردن پر ایک ہاتھ میں بھٹو کا سر اور دوسرے میں امریکی اسلام کا پرچم لے کر چڑھ دوڑا، قیامت تو تب نہ آئی کہ جب ایک نہتی لڑکی کہ جس نے گیارہ جماعتوں کو ہرا کر جمہوریت جیتی تھی لیکن اسکو کسی آرمی چیف کو تمغہ جمہوریت دینا پڑا، قیامت تو تب نہ آئی کہ جب نوے کی دہائی میں جج دو پارٹیوں کے درمیان میوزیکل چیئر کھیل رہے تھے، جنابِ وزیراعظم قیامت تو تب بھی نہیں آئی کہ جب ایم کیو ایم بنائی جا رہی تھی، جب سپاہ صحابہ ، جیش محمد، لشکرِ طیبہ اور نہ جانے کس کس پر عوام کی آبرو حلال کر دی گئی تھی، جب روشنیوں کے شہر کراچی پر وہی تاریخ دوہرائی جا رہی تھی کہ جو ابھی بیس سال پہلے ہم نے بنگلہ دیش المعروف مشرقی پاکستان میں رقم کی تھی….

ریکارڈ کی درستی کے لیے قیامت 12 اکتوبر 1999 کو بھی نہیں آئی کہ جب ہوا میں معلق ایک آرمی چیف نے زمین پر موجود حاضر سروس وزیراعظم کو معزول کر دیا جو عہدے میں اس کا باس تھا، اور نو سال اس ملک کو درست سمت کی جانب ہانکتا رہا اور اس ہانکنے میں اتنا مگن رہا کہ ایک یونٹ بجلی کا نہ بنایا، قیامت اس دن بھی نہیں آئی کہ جب اپنے آپ کو جمہوریت کے چیمپیئن بتانے والے وہ کہ جن کے والد کے نام سے لاہور میں سڑکیں منسوب ہیں یہ کہتے تھے کہ اگر سو بار وردی میں صدر منتخب کرانا پڑا تو کرائیں گے، لیکن آئے کاش اس دن قیامت آ جاتی کہ جب اسی وردی پوش کا جنازہ اسلام آباد کے کسی گراؤنڈ میں پڑھایا جا رہا تھا تو وہ کہ جو سو بار منتخب کرانے پر تٌلے ہوئے تھے وہاں جنازہ تک پڑھنے نہ آئے…..

اس دن قیامت نہ جانے کیوں نہ آئی کہ جب ایک عورت کو سڑک پر گولی ماری گئی، لوگ اسکی موت کی خبر سٌن کر بیہوش ہوتے رہے، گاڑیاں جلتی رہیں، ماتم ہوتا رہا، فضا سوگواری سے آگے بڑھ کر دہشت ناک ہوتی گئی لیکن جنابِ وزیراعظم قیامت نہیں آئی، قیامت 16 دسمبر 2014 کو بھی نہیں آئی کہ جب پشاور کے ایک فوجی سکول میں بچوں سے انکی شناخت پوچھ پوچھ کر انکو گولیوں سے بھون دیا گیا 132 بچے جو سکول پڑھنے گئے تھے جن کی ماں باپ اس انتظار میں تھے کہ شام میں کے ایف سی جائیں گے اور وہ اسٌ شام سے پہلے مسخ شدہ لاشوں کے انبار کے بیچ اپنا بچہ ڈھونڈتے رہے لیکن قیامت نہیں آئی، ہم نے امریکہ کی جنگ لڑی ایک لاکھ پاکستانی مارے گئے جن کو نہ یہ معلوم تھا کہ انکا قصور کیا ہے، وہ کس کی جنگ کیوں لڑ رہے ہیں، دشمن کون ہے، کیونکہ اسکے ہمسائے کا وہ بچہ جس کی پیدائش پر اس نے ایک رات اپنے ہمسائے کے ساتھ ہسپتال گزاری تھی آج دین کا محافظ ہے اور اس کو صرف اسکے مسلک کی وجہ سے واجب القتل سمجھتا ہے لیکن یہ کیسے اس گود کے پالے کو دشمن مان لے….

قیامت اس دن نہ آئی کہ جب زینب نام کی بچی کو ایک رشتہ دار نے ریپ کر کے مار دیا اور اسکی لاش گند کے ڈھیر سے ملی، قیامت اس رات نہ آئی کہ جب سیالکوٹ موٹر وے پر ایک عورت کا ریپ اسکے بچوں کے سامنے ہوتا رہا اور اسکو مرنے تک کی مہلت نہ ملی، قیامت تب بھی نہ آئی جب لاہور کے ڈی پی او نے کہا کہ اس عورت کو رات میں نکلنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟؟؟ جب ایک وزیراعظم نے کہا مرد کون سا کوئی روبوٹ ہوتا ہے ، جب اسی وزیراعظم جن کے پاس ریاستِ مدینہ بنانے کا ٹھیکہ بھی تھا یہ کہتے تھے کہ مجھے لاشوں سے بلیک میل نہیں کیا جاسکتا….

نگران وزیراعظم بلکل درست فرماتے ہیں کہ جب اتنے بڑے سانحات پر قیامت نہیں آئی تو یہ تو صرف بجلی کا بل ہےاور آئی ایم ایف کے سامنے ہم بے بس ہیں….

کاش آئی ایم ایف آپکو اس بات پر بھی مجبور کرے کہ آپ نوے دن کی آئینی مدت میں انتخابات کرائیں، کاش آئی ایم ایف کبھی محسن نقوی صاحب کی اس موجودہ حکومت کا نوٹس بھی لے، کاش آئی ایم ایف پاکستان میں سرکاری افسران کو میسر پروٹوکول کو بھی قابلِ گفتگو سمجھے، ہم سن رہے تھے کہ میاں صاحب نے مشکل فیصلے لیے ہیں مشکل فیصلے کیا تھے کہ بجلی مہنگی کر دی جائے، پیٹرول مہنگا کر دیا جائے، ٹیکس دو اور تین اور چار گنا کر دئیے جائیں، سوال صرف یہ ہے کہ اس سے مشکل کس کے لیے ہوئی؟؟ کیونکہ میاں صاحب کو پھر لندن میں ہیں عوام ہی ہیں جو خود کٌشی جیسے مشکل فیصلے کر رہے ہیں….

Advertisements
julia rana solicitors london

جنابِ وزیراعظم میں آپکو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس کی کل آمدن پندرہ ہزار ہو اور اسکا صرف بجلی کا بل بائیس ہزار آ گیا ہو اور اس کے چار یا پانچ بچے ہوں، ایک بیمار ماں ہو، تو اسکے گھر بجلی کا بل نہیں قیامت آئی ہے آپ تو نور کی جمع انوار ہیں آپکو کیا معلوم کہ بجلی کا بل دیکھ کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ جانا کیا ہوتا ہے؟؟ آپ ایک لے پالک، معزور، مجبور، sold out, Expired وزیراعظم ہیں، آپ ایک ریاستی سرپرائز ہیں، جو اس بجلی کے بل کی طرح عوام پر گرا ہے کہ جس سے کسی طرح کی خیر برآمد نہیں ہو سکتی، آپ کا کرایا الیکشن بھی آپکے اس بیان کی ہی طرح ہوگا عوام دشمن، آپ جیسے لوگ قوموں کی بربادی کی منادی ہیں آپ وزیراعظم نہیں ایک اطلاع ہیں ہمارے ایک قوم کے طور پر ڈھے جانے کی، آپ جیسا حکمران اس بات کا ثبوت ہے کہ قوم اپنے کردار ، اپنی سیاسی سمجھ بوجھ، اور اپنے اجتماعی ضمیر کی موت کا اعلان کر چکی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply