• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انسانی جانوں پر مسلک اور مفاد پرستی (حلب جل رہا ہے!)

انسانی جانوں پر مسلک اور مفاد پرستی (حلب جل رہا ہے!)

اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی انسانی جانوں کی اہمیت میں جس تیزی سے کمی آئی ہے شائد ہی اس سے پہلے کبھی آئی ہو۔ وہ لوگ جو کسی پرندے کی جان سے متعلق حساس تھے وہ آج خاموش نظر آتے ہیں۔ حلب، سیریا میں انسانی جانوں کا کھلواڑ بہت عرصے سے جاری ہے۔ معرکۃ حلب دو ہزار بارہ سے ابھی تک جاری ہے، اور ابھی یہ جنگ جاری ہے۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق مشرقی علاقہ جات کو روس اور شیعہ کی اتحادی فورس نے قریب قریب خالی کروا لیا ہے۔ وہ لوگ جو اسکی بھینٹ چڑھ گئے جنکے لاشے کاٹ ڈالے گئے، جنکے حلق خون سے تر کردئے گئے ان سے ضرور بہ ضرور سوال ہوگا بائی ذنب قتلت؟ اے قتل کردی جانے والی جان، ذرا بتا تو تیرا جرم کیا تھا؟ کیوں تجھے قتل کردیا گیا؟

آئیے چند ٹسوے بہانے سے پہلے، چند جذباتی باتیں کرنے سے پہلے، حقیقت کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور کوشش کرکے آنکھیں کھولتے ہیں۔

یہ پورا علاقہ جسمیں یمن، سعودیہ، عراق اور سیریا شامل ہے۔ اس سارے علاقے میں روس اور امریکہ کے ذاتی مفادات ہیں، یہ علاقہ دو بڑی نعمتوں سے مالا مال ہے، یہ نعمتیں کسی بھی ملک کے دنیا میں راج کرنے کے لئے بہت ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو شائد شدت سے محسوس ہوتا ہو کہ یہ ساری سازش اسلام کے خلاف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک کو تیل اور گرم پانی کی نعمت سے نوازا گیا ہے۔ آپ گرم پانی کی اہمیت کا اندازہ افغان جنگ سے لگا سکتے ہیں سوویت یونین نے جیسے ہی افغان جنگ کی طرف قدم بڑھایا، امریکہ نے فوراََ پاکستان کے ساتھ اتحاد کرلیا کیونکہ دونوں جانتے تھے کہ گرم پانی کا مطلب تجارت اور تیل ہے اور اسکا مطلب دنیا پر راج ہے۔ گرم پانیٓ تیل کی آمد و رفت کے لئے بہت سستا ذریعہ ہے۔ اس سے سفر اور خرچ آدھے سے بھی کم ہوجاتا ہے۔ آپ پاک چین اقتصادی راہ داری سے چین کو صرف تیل میں مد میں ہونے والے فائدے کا اندازہ لگائیں تو آپکو اندازہ ہوجائے گا اصل کھیل کیا ہے۔

یمن میں امریکہ اور روس آپس میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں کیونکہ امریکہ کو سعودی شہزادوں اور یمنی کٹ پتلی حکومت کے ہاتھوں بہت سستا تیل اور اسکے بدلے میں سعودی شہزادوں کے لئے مراعات اور یمنی حکومت کے لئے اسلحہ کا صحت مند بجٹ، یہ وہ مفاد ہیں جس پر یمن کے معصوموں کا سودا کیا گیا ہے۔ امریکہ کے اثر رسوخ کا اندازہ کرنے کے لئے اگر آپ یمن کی تاریخ پڑھیں تو حوثیوں نے ایک بار تیل پر مراعات ختم کرنے کی وجہ سے یمنی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا اور بہت شدید احتجاج کیا تھا۔ کسی بھی حکومت کی مراعات کم کرنے کا مطلب اس چیز کی قیمت میں اضافہ کرنا اور اسکی کھپت کم کرنا ہے۔ سوال ہے یمن تیل کی نعمت سے مالامال ایک ملک ہے اسے کیا مصیبت پڑی کہ وہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اسکی کھپت کم کرے؟
اسکی ایک اہی وجہ ہوسکتی ہے، اور وہ امریکہ کا مفاد ہے، وہ سستا تیل چاہتا ہے، کیونکہ جتنا تیل کم یا ملک میں اسکی کھپت میں اضافہ ہوتا جائے گا اتنا مہنگا بھی ہوتا جائے گا۔ تیل ویسے بھی ختم ہوتا جا رہا ہے، اوباما کے دور میں اوباما نے بہت رسک لئے کہ شائد تیل کے متبادل سے انڈسٹری لگائی جاسکے لیکن ابھی تک کوئی ایسا کام نہ کیا جاسکا، مشہور بزنس مین، ایلان مسک کو باقاعدہ طور پر باوجود اسکے کہ اسکے پراجیکٹس بری طرح فیل ہو رہے تھے حکومت نے بھاری قرضہ جاری کیا کیونکہ وہ سولر انرجی پر کام کر رہا تھا۔ امریکہ یمن میں اپنی مرضی حکومت چاہتا ہے تاکہ وہ اپنا مفاد لیتا رہے اور روس ایسا بلکل نہی چاہتا۔

یہی مسئلہ عراق میں تھا، لیکن عراق سے زیادہ اہمیت کا حامل بلکہ بلکل یمن جتنی اہمیت کا حامل ملک سیریا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ملک کافی لمبی ساحلی پٹی رکھتے ہیں جہاں سے تیل کی آمد و رفت سب سے آسان اور سستا کام ہے۔ اب وہاں بھی ضروری تھا کہ اپنی مرضی کی حکومت لائی جائے اسلئے وہاں پہلے ماحول اس مطابق کا کرنا ضروری تھا ۔ آئی ایس آئی ایس اور اس سے متعلق بہت ساری جماعتیں پیدا کی گئیں۔خانہ جنگی ہوئی، اب معاملہ پھر وہی یمن والا ہے امریکہ چاہتا ہے کہ یہاں وہ اپنا اثر رسوخ قائم رکھے اور روس یہ ہونے نہی دینا چاہتا۔ یہ عرب ممالک، خصوصاََ عراق اور یمن کی صورتحال ہے۔
نتیالایہ ناروچنسکایا، ولدمیر پیوٹن کی سیکرٹری ہیں، ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ بشار کو روسں کیوں سپورٹ کرتا ہے تو وہ کہتی ہیں تاکہ علاقے میں طاقت کا بیلنس قائم کیا جاسکے۔ روس کسی طور پر امریکہ کو اس پورے علاقے میں کھل کھیلنے کی آزادی نہی دینا چاہتا اور وہ کسی طور پر بھی امریکہ کا اثر رسوخ قبول کرنے کو تیار نہی ہے۔

اس ساری صورتحال میں امریکہ اور روس جو افغان جنگ میں اسلامی شدت پسندوں سے متعلق بہت کچھ سیکھ چکے تھے۔ اس بار پوری تیاری سے ایک دوسرے کے مقابل آ کھڑے ہوئے، انہوں نے بجائے ایک نئی عالمی جنگ چھیڑنے کے ایک نیا طریق اپنایا جس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ اس پورے علاقے میں دو طاقتیں موجود رہی ہیں۔ یہ دو طاقتیں بدقسمتی سے مسلمان کہلاتی ہیں۔ لیکن مسلمان کہلانے والی یہ طاقتیں ایک دوسرے کے لئے خاصی نفرت رکھتی ہیں۔ اس نفرت کو استعمال کرنا کچھ زیادہ مشکل نہی ہوتا، اور اسکے استعمال کا تجربہ جاسوس جماعتوں کو تھا۔ امریکہ نے یہ ووٹ سنی مسلمانوں کے حق میں دیا اور سعودیہ کو آگے کردیا، اس سارے معاملے میں روس تھوڑی دیر سے آیا، یا شائد اسے ہوش دیر بعد آیا، خیر اس نے اسکے مقابل شیعہ مسلمانوں کو لا کھڑا کیا اور ایران کو استعمال کیا۔

سعودیہ اور ایران کچھ مفاد پرستی، کچھ مسلک پرستی اور کچھ اقتدار کے شوق میں امریکہ اور روس کے ہاتھوں کٹ پتلی بن گئے اور انہوں نے خوب کھل کھیلا۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور اشتعال انگریزی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو نہ ختم ہونا تھا جو نہ ہوا۔ اور یمن کے بعد اب حلب میں یہ صورتحال ہے کہ مرنے والا معصوم مسلمان ہے اور وہ مسلمانوں کی بیوقوفی اور عالمی طاقتوں کی انا اور مفاد کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ اسمیں ہمارے ویک اینڈ مجاہدین نے سوشل میڈیا پر دماغ چاٹ رکھا ہے، دو سو پچپن میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہونے والی پوسٹنگ صرف اور صرف موسمی ہے۔ اسکا کسی انسانی جان سے کوئی لینا دینا نہی ہے اسکا بھی لینا دینا صرف اور صرف مسلک ہے۔

سنی حلقہ جات میں اگر شیعہ مرے تو کسی بلا سے جہاں مرضی مرے اور شیعہ حلقہ جات میں مرنے والا سنی ہے تو انکی بلا سے جو مرضی ہو۔ لیکن اصل بات ہے کہ حلب کے جو حالات ہیں اسکے ذمہ دار مسلمان ہیں۔ امریکہ کی تاریخ رہی ہے، بلکہ امریکہ کی یہ اوقات ہی نہی کہ وہ کسی ملک پر براہ راست حملہ کرے اور جنگ جیت لے۔ امریکہ آج تک زمینی پیش قدمی سے کسی ملک پر فتح نہ پاسکا۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اگر حملہ امریکہ نے کیا تو مدد کرنے والے ہم تھے۔ مارگریٹ تھیجر کے ساتھ نعرے بلند کرنے والی ہم لوگ ہی تو تھے۔ عراق، یمن اور اسکے علاوہ جہاں بھی اس نے حملہ کیا زمینی پیش قدمی کرنے والے ہم تھے۔ تو یہ آگ ہم نے ہی بھڑکائی ہے۔

جب یہ سب ہم نے کیا ہے، تو پھر رونا پیٹنا کس بات کا؟

ہاں اگر درد ہوتا ہے، لاشے گرنے سے فرق پڑتا ہے، ٹیس اٹھتی ہے تو کچھ عملی کرو، اٹھو اور دست و بازو بنو ایک دوسرے کے، شیعہ سنی کو گلے لگا لے، سنی شیعہ کو گلے لگا لے۔ پھر دیکھئے کس میں جرات ہے کہ وہ آپکو ایک زخم بھی دے جائے۔ لیکن ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہزارہ کمیوینٹی ساری کی ساری کاٹ دی جاتی ہے کسی سنی کی آنکھ سے ایک اشک نہی گرتا اور جھنگ میں کسی فلاں جھنگوی کے زخم بھی آجائے تو مسلمانی غیرت کا جاگنا ضروری ہوجاتا ہے۔ کسی سنی کے کٹ گرنے پر کسی شیعہ کی آنکھ اشک بار نہی ہوتی لیکن اگر کسی نقوی کے وارنٹ جاری ہوجاتے ہیں تو جو طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے اسکے کیا کہنے۔ تو پھر ٹھیک ہے ایسے ہی حلب جلتے رہینگے، ایسے ہی مسلمان مرتے رہینگے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور ہم جذبات کی رو میں پاگلوں کی طرح کبھی کسی کی عبادت گاہ پر حملہ آور ہو کر فلسطینوں کی شہادت پر آنسو بہا لینگے اور خدا سے رحم کی دعائیں کرینگے اور لبرلز کو طعن کرینگے۔ ذرا ایسا کیجئے، یاد کیجئے، اگر ذہن اقدس میں مسلک پرستی اور اکابر پرستی کے علاوہ کچھ اور بھی موجود ہے تو سوچئیے ایک بار عیسائیوں کی بستی صرف قران جلانے کے الزام پر جلا دی گئی تھی؟ یاد آیا؟ نہی آیا؟ کیسے آئے گا، ابھی تو آنکھیں حلب والوں کی لاشوں کے دکھ میں اشک بار ہیں۔ ذرا دھند ہٹے تو سوچنا بلکہ ایسا کرنا ایک ڈاکومنٹری دیکھ لینا "Stepmother Land" کے نام سے۔ اور یاد رکھنا جو رحم نہی کرتا اس پر رحم نہی کیا جاتا۔ واللہ اعلم

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply