• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جسٹس مار کنڈے کاٹجو سے !مسلمانوں کی سچی تصویر کشی کریں۔۔۔ابھے کمار

جسٹس مار کنڈے کاٹجو سے !مسلمانوں کی سچی تصویر کشی کریں۔۔۔ابھے کمار

جسٹس مارکنڈے کاٹجو صاحب کا ایک متنازعہ مضمون (’’انقلاب‘‘ 6 جولائی شمارہ) قارئین کرام کی نظروں سے گزرا ہوگا۔ اس مضمون میں انہوں نے مسلمانوں کی پسماندگی اور اس کی وجوہات کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی اور اس سے نجات پانے کی تدابیر بھی پیش کیں۔ مضمون کا پس منظر 2019 کے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ بھاجپا کو ملی زبردست انتخابی کامیابی کے بعد سیکولر خیمے میں تذبذب وبے دلی کی کیفیات پائی جا رہی ہیں۔ خاص کر مسلم اقلیت کے حالات اور ان کے مستقبل کو لے کر بہت سارے مضامین شائع کئے جا رہے ہیں۔ جسٹس کاٹجو صاحب کا مذکورہ مضمون اسی سباق میں منظرعام پر آیا ہے۔آئیے سب سے پہلے مذکورہ مضمون کے چند اہم نکات کو پھر سے یاد کر لیں۔ انہوں نے ‘’’بنیاد پرست علماء اور ‘موقع پر سیاست دانوں‘‘ کو مسلمانوں کی بد حالی اور پسماندگی کے لیے قصوروار ٹھہرایا۔ ساتھ ہی ساتھ ہندوستانی مسلمانوں سے ایپل کی کہ وہ ان کے چنگل سے آزاد ہو جائیں۔

میری رائے میں کاٹجو صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کہی بلکہ جانے انجانے ایک خاص قسم کے ذہنی تعصب کو دہرایا۔ یہ تعصّب غیر مسلم معاشرے کو ترقی یافتہ دکھاتا ہے جہاں کب کی ا صلاح ہو چکی ہے اور وہاں سائنٹفک سوچ سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس مسلم معاشرے کا امیج مسخ کر کے پیش کیا جاتاہے اور مسلمانوں کی بدحالی اور پسماندگی کے لیے ان کے مذہب اور ثقافت کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ برسوں کی  مغربی محققین اور مستشرقین کی متعصبانہ اسکالرشپ نے مشرق کو مغرب کا بگاڑ دکھایا ہے اور بہت سارے ہمارے اپنے دانشور بھی اسے جانے انجانے میں اپنے ذہنوں میں بٹھا چکے ہیں۔
ُمیری دانست میں کاٹجو صاحب بھی اس تعصّب وتنگ نظری کے زیراثر لکھتے اور بولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مضمون میں وہ اصل سوال کو اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔اسی متعصبانہ سوچ کا اثر یہ ہے کہ بنیاد پرستی اور جاگیردارانہ سوچ کو ایک خاص ملّت اور مذہب سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ اگر ایسی منفی سوچ کام نہ کرتی تو مسلمانوں اور اُن کی تاریخ کو مسخ کرنے کی مسلسل کوشش صدیوں سے نہ ہوتی۔
کاٹجو صاحب کی طرح ہمارے معاشرے میں بہت سارے ایسے روشن خیال انٹلیکچوئل ہیں جن کو لگتا ہے کہ مذہب اور مذہبی قیادت کو تنقیدکانشانہ بنا کر اُن کو پوری دنیا میں پذیرائی حاصل ہو جائےگی۔ میں مذہب یا پھر مذہبی قیادت کی تنقید کرنے سے کسی کو نہیں روک رہا ہوں، مگر یہ تنقید کسی فیشن کا حصہ بن جائے تو کسی غیر جانب دار مبصر کے لئے یہ کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے؟ جو لوگ دن رات مذہب اور علماء کی برائی کرتے نہیں تھکتے ،وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مذہب پرسیاسی، معاشی اور استعماری محرکات بھی اثر ڈالتے ہیں؟ بنیاد پرستی اور جاگیردارانہ سوچ کے خلاف لمبی لمبی تقریر کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ محروم طبقات کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ  اقتدارسے اُن کی محرومی بھی ہے؟
جن’’ بنیاد پرست علماء‘‘ کو کاٹجو صاحب اتنا بڑا خطرہ بنا کر پیش کر رہے ہیں، اُن سے کوئی پوچھے کہ کیا واقعی یہ علماء اتنے طاقت ور ہیں؟ مسلم آبادی کا کتنا حصہ مدرسہ میں پڑھنے جاتا ہے؟ کتنے علماء سیاست کو اثر انداز کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ کتنے علماء کی رسائی سیاست کی گلیاروں میں ہے اور کتنے علماء کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق سیاسی اُتار چڑھاؤ کو موڑدیں؟ کتنے مدرسے ملک میں ہیں جہاں بنیاد پرستی سکھلائی جاتی ہے؟ کیا کوئی مستند تحقیق ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ بنیاد پرستی مدرسوں میں پنپتی ہے؟ کیا بنیاد پرستی سے سیکولر ادارے پوری طرح پاک ہیں؟ اپنامضمون قلم بند کرتے وقت، کاٹجو صاحب ان سارے اہم سوالات اور نکات کو کیوں بھلا دیتے ہیں؟انہوں نے موقع پر سب سیاست دانوں کو بھی ٹارگٹ کیا ہے، مگر انہوں نے یہ نہیں بتلایا کہ یہ ’’ موقع پرست سیاست دان ‘‘ ہیں کون ؟ بار بار بعض مسلم سیاست دانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اُن پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہیں، مگر اس حقیقت پر زیادہ بات نہیں ہوتی کہ مسلمانوں نے ہمیشہ غیر مسلم لیڈروں کو اپنا لیڈر مانا اور فرقہ پرستی کے خلاف اُنہوں نے ہمیشہ قربانیاں دیہیں مگر آزاد بھارت کی ٹاپ لیڈرشپ نے اُن کی قربانیوں کو بھلا دیا اور اُن کے ساتھ کبھی بھی انصاف نہیں کیا۔
کوئی بھی غیر جانبدار محقق اس بات سے انکار نہیں کر سکتا ہے کہ آزاد بھارت میں مسلمانوں کے خلاف لگاتار ناانصافیاں کی گئیں۔اس طرح کا تعصّب نظام کا حصہ بن چکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آزادی کے فوراً بعد دلت، مسلمان اور عیسائیوں کو ایس سی کے درجے سے اچانک محروم نہ کر دیا جاتا! اگر سیاسی قیادت کے دل میں بے ایمانی نہ ہوتی تو مسلمانوں کی حالت آج کئی معنوں میں دلتوں سے بدتر نہ ہوتی۔ اگر مسلمانوں کی ترقی کی فکر ٹاپ قومی لیڈروں کو ہوتی تو اُن کو نوکریوں میں ریزرویشن سے محروم نہ رکھاجاتا۔سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کیوں گرتی چلی گئی اور جب کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ دینے کی بات ہوتی بھی تو اُن کو کشن گنج، رامپور اور مرادآباد سےہی انتخاب لڑنے کو کیوں کہا جاتا ہے؟ آخر کیوں مسلمانوں کی گرتی ہوئی ساکھ اور  سیاسی نمائندوں کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس سیاسی اقدام نہیں کیاگیا ہے؟ آج مسلمانوں کی حالت اس قدر خراب ہوگئی ہے کہ اُن کے حق میں بات کرنے کو ہندوؤں کے مفاد کے خلاف تعبیر کیا جا رہا ہے۔ آخر کیوں پولیس، فوج اور دیگر نوکریوں سے مسلمان باہر ہوتے جا رہے ہیں؟ درد اور بھی بڑھ جاتا ہے جب مغربی بنگال جہاں روشن خیال کامریڈ ایک لمبے وقت تک اقتدار میں رہیں، مگر وہاں بھی مسلمان رکشا چلا تے رہیں اور مزدوری کر کےکسی طرح پیٹ پالتےہیں، جب کہ بڑے بڑے منصبوں پربیٹھے اعلیٰ ذات کے کامریڈ سیکولر ازم کا نعرہ بلند کرتے ر ہےہیں۔ آخر ان ساری باتوں پر غور کئے بغیرمسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب اور تدبیر پر بات پوری ہو سکتی ہے کیا؟گزشتہ سات دہائیوں سے ملک کے ہزاروں مقامات مسلمانوں کے خون سے لال زار ہوتے گئے۔ لاکھوں مسلمان دنگوں میں کٹتے رہے۔پولیس اور انتظامیہ یا تو دنگا کرنے والوں  کا ساتھ دیتی رہی یا  پھر خاموش تماشائی بنی رہی۔یہی نہیں بلکہ بابری مسجد کو شہید کر کے مسلمانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ آپ کے مذہبی مقامات اب کہیں محفوظ نہیں ،مگراس سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ بابری مسجد شہید کرنے والے اور معصوموں کا خون بہانے والوں کا بال بھی قانون بیکا نہ کر سکا۔ کیا ان پہلوؤں کو چھوئے بغیر مسلمانوں کی پسماندگی اور ترقی کی بات مکمل ہو سکتی ہے؟

اسی فکری تعصّب کے زیرِ اثر دہشت گردی اور تشدد کو صرف مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان یا شدت پسندتنظیم دہشت گردی کے واقعات میں ملوث بتائی جاتی ہے تو ساتھ ہی یہ کیوں نہیں خلاصہ کیا جاتا ہےکہ ان دہشت گردوں کو ہتھیار اور وسائل کون مہیا کرتا ہے؟ اس کے بجائے لگاتار مسلمان اور اسلام کے خلاف یہ کہہ کر زہر اُگلا جارہا ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا لیکن ہر دہشت گرد مسلم ضرور ہوتا ہے۔ جب کہ اس تلخ حقیقت کو دبا دیا جاتا ہے کہ جہاں جو طاقت ور ہے اور اقتدار کے نشے میں ہے ، وہاں وہ اقلیت کو دبا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں ہندو مظلوم ہے تو کہیں مسلمان۔ آپ پچھلے سو سال کی تاریخ ہی دیکھ  لیجئے۔ کیا خون کا دریا مذہب کے لیے بہایا گیا؟ ہرگز نہیں۔ سرمایہ بڑھانے کی خاطر گردنیں نہیں کاٹی گئیں؟ جنگ کا فتنہ کس نے بویا؟ کیا یہ سچائی نہیں ہے کہ استعماری طاقتوں کی وجہ سے لاکھوں لوگ جنگ کے میدان میں ہلاک ہوئے؟ کیا پہلی اور دوسری عالمی جنگیں اسلام کے لئے لڑی گئیں؟ ہرگز نہیں۔ کیا دنیا بھر میں اسلحہ اور ایٹمی ہتھیار ’’بنیاد پرست علماء‘‘ کے کہنے پر بنائے جا رہے ہیں؟ ہرگز نہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کو دیکھنے میں جسٹس کاٹجو صاحب نےبھی سادہ لوحی اور سنی سنائی سے کام لیا ہے اور ہر برائی کے لیے علماء اور مسلمانوں کے سیاسی نمائندے کو ملزم ٹھہرایا ہے ، جب کہ مسئلے سے جڑے سیاسی، اقتصادی اور استعماری پہلوؤں کو پوری طرح سے نظر انداز کر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ :مضمون نگار ’’جواہر لال نہرو یونیورسٹی‘‘ نئی دہلی میں شعبہ ٔتاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply