بھارتی ہرزہ سرائی،خطے کا امن خطرے میں ہے

بھارتی ہرزہ سرائی،خطے کا امن خطرے میں ہے
طاہر یاسین طاہر
بھارتی دھمکیاں اور پاکستان کو خدانخواستہ ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی خواہشات انشا اللہ کبھی بھی پوری نہ ہوں گی مگر زمینی حقائق فراموش کرنا بھی کسی طور درست امر نہیں ہے۔یہ امر تو واقعی ہے کہ اپنی تقسیم کے اول دن سے ہی دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنا ازلی دشمن تصور کرتے ہیں۔اول دن سے ہی بھارتی لیڈروں نے اپنی قوم اور دنیا کو یہ خواب دکھانا شروع کر دیا تھا کہ پاکستان چند برسوں بعد ختم ہوجائے گا،مگر اللہ کے فضل سے پاکستان قائم و دائم بھی ہے اور اب ایک ایٹمی قوت بھی۔یہ ایک پہلو ہے ۔ہمیں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت پاکستان کو کمزور اور تقسیم کرنے کے لیے تمام تر حربے استعمال کرتا آرہا ہے اور اس میں اسے کامیابی بھی ہوئی ہے۔مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان سے الگ کر کے بنگلہ دیش بنوانے میں بھارتی کردار پوشیدہ نہیں، بلکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس کا بر ملا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ بھارت نے بنگلہ دیش بنوانے میں کردار ادا کیا۔ بے شک بھارت کا یہ کردار منفی تھا اور ہمسایہ ممالک میں مداخلت کا واضح ثبوت بھی۔ پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتوں کے پیچھے شواہد ہیں کہ بھارت اور اسرائیل و افغان ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔حالانکہ بھارت واویلا کرتا رہتا ہے کہ اسے ہمسایہ ملک پاکستان کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کا سامنا ہے،مگر ہمیشہ بھارت ہی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں کرتا ہے اور اس امر کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ بھارتی حکومت بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی حمایت اور مدد کرتی آ رہی ہے۔
یہ ایسے حقائق ہیں جو بھارتی وزیراعظم نے اپنی تقریروں میں بھی بیان کیے ہیں۔بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کو بھی پیش کیے جا چکے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے مصر میں شرم الشیخ کا دورہ کیا تھا تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت دیے گئے تھے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو مزاحمت کا سامنا نہیں،بے شک ہے اور کشمیری مجاہدین کی پاکستان مدد بھی کرتا ہے۔پاکستان بھارتی مظالم کے خلاف کشمیری عوام کے ساتھ ہے اور ان کی اخلاقی و سفارتی مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ مدد جسے بھارت دہشت گردی سے جوڑتا ہے در اصل ،مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان کی سفارتی،سیاسی و اخلاقی مدد ہے۔دنیا کے سارے ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحت ایک دوسرے کی سیاسی حمایت و مخالفت بھی کرتے ہیں ،مگر جس طرح بھارت اپنے پڑوسی ممالک کو دھمکیاں دیتا اور انھیں توڑنے اور ٹکڑے کرنے کی بات کرتا ہے ایسا رویہ سیاسی کے بجائے عسکری ہے جس کا لازمی نتیجہ کسی نہ کسی وقت جنگ کی صورت نکل سکتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان اس سے پہلے بھی چار جنگیں ہو چکی ہیں مگر یہ سب غیر روایتی جنگیں تھیں۔اگر خدانخواستہ اب کی بار جنگ ہوتی ہے تو اس کے اثرات دنیا کے امن اور تباہی پر منفی اور دور رس ہوں گے۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں اور اگر بھارت اپنی خواہشات کے مطابق پاکستانی فوج کو افغانستان کے ساتھ مل کر مشرقی و مغربی دونوں سرحدوں پر مصروف رکھنے کے لیے کوئی جنگی ایڈونچر کرتا ہے تو یہ جنگ ممکن ہے روایتی نہ رہے۔
پاکستان کے خلاف بھارت کی حالیہ جارحانہ بیان بازیاں اور لائن آف کنٹرول پر عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں، جن میں سے جولائی میں مقبوضہ کشمیر میں برہان الدین وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت،اور پھر مقبوضہ کشمیر میں جاری کرفیوں،کشمیریوں کا بڑھتا ہوا احتجاج،پاکستان کی کشمیری آزادی کی جدوجہد کی سفارتی و اخلاقی مدد،اس کے علاوہ بھارتی اضطراب کی ایک وجہ دفاعی تجزیہ کار سی پیک کو بھی قرار دے رہے ہیں۔بھارتی حکومت اس حوالے سے اپنے تحفظات کا شکوہ چینی حکومت سے بھی کر چکی ہے۔ملکوں کے تعلقات کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے خلاف چڑھائی کا ارادہ کرتا ہے یا اسے اپنا دست نگر یا اس کے اندر اضطرابی کیفیت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اس ملک کی معیشت کو پروان نہیں چڑھنے دیتا۔اپنے جاسوسوں اور ایجنٹوں کے ذریعے تخرینی کارروائیاں کراتا ہے اور دشمن ملک کے داخلی استحکام کو اپنے نشانے پر رکھتا ہے۔ بھارت یہ سارے حربے آزما ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان کے خلاف سفارتی سطح پر جارحانہ پروپیگنڈا بھی شروع کر رکھا ہے اور نفسیاتی جنگ بھی لڑ رہا ہے۔بھارتی وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ پاکستان اگر اپنی پالیسیوں سے باز نہ آیا تو 10ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا،بھارتی خواہشات کے ساتھ ساتھ پاکستان پر نفسیاتی حملہ بھی ہے،جس کا جواب پاکستان کے وزیر دفاع اور وزیر داخلہ نے بھر پور دیا ہے۔بھارتی رویہ بے شک خطے اور دنیا کے امن کے لیے ایک خطرہ ہے، مگر ہمیں عالمی برادری کے سفارتی حلقوں میں اپنی سفارت کاری کو بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ افسوس کہ ہم خارجہ تعلقات ایک عمر رسیدہ مشیر خارجہ کے ذریعے چلا رہے ہیں۔جب دشمن ملک،پاکستان کو ٹکڑے کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہو، تو ایسے میں سیاسی و سفارتی حرکیات تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔عالمی برادری کے فیصلہ ساز ممالک کو یہ باور کرنا ضروری ہے کہ مودی حکومت کا رویہ دنیا کے کروڑوں انسانوں کی زندگیوںکو خطرے میں ڈال دے گا۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply