خدا پاکستان پر رحم کرے۔۔ملک اکبر اقبال

پاکستان اگست 1947 میں آزاد ہوا، تاریخ 14تھی کہ 15 ،اس میں اختلاف ضرور ہے لیکن قوم ہر سال اگست کی 14تاریخ ہی کو جشن آزادی مناتی ہے۔ پاکستان کا نام جس شخص نے رکھا وہ قیام پاکستان کے بعد دو مرتبہ پاکستان آئے، لیکن نامناسب حالات اور رویوں کے باعث دلبرداشتہ ہو کر واپس برطانیہ چلے گئے اور وہیں  انتقال کر گئے۔ پاکستان کے اس مجاہد کی میت 17 روز تک کولڈ سٹوریج میں اپنے ہم وطنوں کے انتظار میں پڑی رہی ،بلاآخر 20 فروری 1951 کو دو مصری طلبہ کے ہاتھوں اس غریب الوطن چودھری رحمت علی کے جسدِ خاکی کو کیمبرج کے قبرستان میں لاوارث میت  کے طور پر امانتاً دفن کر دیا گیا۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے جبکہ قومی ترانہ فارسی میں ہے لیکن قوم پھر بھی جالندھری صاحب کی احسان مند ہے کہ پورے ترانے میں ایک لفظ (کا) اردو کا بھی ہے۔ اگرچہ قومی زبان اردو ہے لیکن یہاں اردو بولنے والوں کو مہاجر کہا جاتا ہے۔ ویسے تو پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن ریاست نے پورے 26 سال بعد کلمہ پڑھا تھا یعنی 1973 کے آئین میں پہلی بار ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا تھا، جسے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اور ان کے ہم عصر علما  نے ریاست کے کلمہ پڑھنے سے تعبیر کیا تھا۔

قارئین! خدا کے بعد انگریز نے بھی پاکستان کو بہت نوازا تھا اور ملک کے طول وعرض میں انگریز جو ریل کی پٹڑی  چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ زیادہ تر ہم اکھاڑ کر کھا چکے ہیں۔ روس نے جو سٹیل مل پاکستان کے لیے لگوائی  تھی، وہ آج حالتِ  نزع میں ہے۔ اور ہم نے جو اپنے بل بوتے پر پی آئی اے چلایا تھا وہ آج خسارے کے سوا کچھ نہیں دے رہا۔ اگر چہ پورا ملک عوام کے ٹیکسوں سے چلتا ہے لیکن ہمارے ہاں سرکاری املاک کے نام کچھ یوں ہوتے ہیں، مثلاً قائد اعظم یونیورسٹی، علامہ اقبال ایکسپریس، بےنظیر ائیرپورٹ، نواز شریف پارک، شہباز شریف انڈر پاس، مفتی محمود فلائی اوور، جنرل ایوب بریج، باچا خان یونیورسٹی اور جہانزیب کالج وغیرہ۔ ہماری مسجدیں کہنے کو تو خدا کا گھر ہے لیکن وہ بھی فیصل مسجد اور ضیاء مسجد وغیرہ جیسے ناموں سے موسوم ہوتی ہیں، اور آج کل کے حالات کے تناظر میں تو میری رائے یہ ہے، کہ پاکستان آرمی کا نام باجوہ آرمی، سپریم کورٹ کا نام آئی ایس آئی کورٹ اور نیب یعنی قومی احتساب بیورو کا نام عمران نیازی احتساب بیورو ہونے چاہئیں۔ کیوں کہ مذکورہ ادارے ان ہی کے زیر ِاثر ہے۔ بہر حال عوامی پیسوں سے جو بھی املاک بنائے جاتے ہیں ان پر ان لوگوں کے نام چسپاں کر دیے جاتے ہیں جنہوں نے اس پر اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا ہوتا۔ اور کیا کسی نے آج تک یہ سنا ہے کہ رائیونڈ کے محلات ہوں ، بنی گالا کا محل ہو یا بلاول ہاؤس ہو اور یا کسی جرنیل، جج، چودھری یا کسی شیخ کے فارم ہاؤس میں کوئی ایک کمرہ عوام کے لیے یا عوام کے نام پر ہو؟ عوام تو ان کے محلات اور فارم ہاؤسز کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

قارئین جنوبی کوریا نے اپنا سٹیل مل دو سال بنا کر اور چلا کر دنیا کو دکھا دیا تھا لیکن ہمارا سٹیل مل بھٹو دور میں شروع ہوا اور ضیاء کے دور میں مکمل ہوا لیکن آج تک سٹیل مل نے سوائے خسارے کے پاکستان کو کچھ نہیں دیا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ہر منصوبہ تاخیر کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ اگر صرف موجودہ اور پچھلے حکومت کے شروع کیے ہوئے چند منصوبوں کو دیکھا جائے مثلاً اورنج ٹرین منصوبہ تاخیر کا شکار، کراچی گرین لائن بس منصوبہ تاخیر کا شکار پشاور بی آر ٹی تاخیر کا شکار آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی سنا کہ شریفوں ، زرداریوں اور جرنیلوں کے محلات یا فارم ہاؤسز تاخیر کا شکار ہوئے ہو؟ ایسا کبھی نہیں ہوتا کیوں کہ اس سے ان کا نقصان ہوتا ہے اور عوامی منصوبوں کے تاخیر پر ان کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اور یہ اپنے فائدے کے لیے کچھ بھی کرتے ہیں ہر حد پار کرتے ہیں اور ریاست کی  سالمیت تک کو یہ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ ریاستی اداروں نے مل کر اکیلے نواز شریف کے خلاف جی ہاں صرف نواز شریف کے خلاف تحریک لبیک جیسی دہشت گرد جماعت بنائی تھی اور اس کی بھرپور سپورٹ کی تھی۔ لیکن جب اس کا اصل چہرہ بے نقاب ہونے لگا تو اس کے گلے میں پٹہ ڈال کر کالعدم قرار دیا گیا۔ اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو جس کے لیے راستے میں گڑھا کھودتا ہے اسے بھی تو اسی راستے سے گزرنا پڑتا ہے۔ مجبوراً ان سے کالعدم کا لیبل ہٹانا پڑا۔ جس کے بعد پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ اس دہشتگرد جھتے نے صرف الزام لگے ہوئے غیر ملکی کو تشدد کرکے قتل کر دیا اور اس کی لاش تک کو جلا دیا۔ اور ریاست صرف تماشا دیکھتی رہی اور اس پر طرّہ یہ کہ نیازی صاحب ان کو دہشت گرد بھی نہیں کہہ سکا حکومت نے ان دہشت گردوں کو جنونی جتھہ  قرار دے دیا۔ آپ حکومت کی سنجیدگی ملاحظہ فرمائیں ،پاکستان آج تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے آج پاکستان کو جو ریاستی مسائل درپیش ہیں حکومت اسے مذاق سمجھ رہی ہے اور اس کا انجام انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر ہم حکومتی مسائل سے صرف نظر کر بھی لیں مثلاً ڈوبتی معیشت، مہنگائی، لاقانونیت وغیرہ لیکن ہم ریاستی مسائل کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پاکستان کو درپیش سب سے بڑا ریاستی مسئلہ امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ کیوں کہ امریکہ اور چین کی سرد جنگ اب گرم جنگ بنتی جارہی ہے۔ امریکہ نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینیشیٹیو کے خلاف اپنے ساتھ نیٹو ممالک کو صف آرا کردیا ہے اور کھل کر یہ اعلان کیا ہے کہ ہم چین کا راستہ روکیں گے۔ اس پس منظر میں پاکستان دو راہے پر کھڑا ہے اور جیسا کہ پاکستان معاشی طور پر آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑا جا چکا ہے اب اگر پاکستان چین سے منہ  موڑتا ہے تو اسے سی پیک کو الوداع کہنا ہوگا ،جو تاریخ کا سب سے بڑا نقصان ہوگا اور اگر پاکستان امریکہ کی نافرمانی کرتاہے تو مغرب کے معاشی توپوں کے آگے پاکستان کو اپنا سینہ پیش کرنا ہوگا اور شاید پاکستان ان زخموں کی تاب نہ لا سکے گا۔ اس کے علاوہ ریاستی مسائل میں کشمیر ایشو کے ہوتے ہوئے انڈیا کے ساتھ تعلقات، افغانستان اور ٹی ٹی پی کا مسئلہ، بلوچستان کے مختلف تحریکوں سے نمٹنے کا مسئلہ اور اس سے بڑھ کر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، سپاہ صحابہ اور لشکر طیبہ وغیرہ جیسی کالعدم تنظیموں کو کنٹرول کرنے کا مسئلہ ہے۔ کیوں کہ تحریک لبیک کے ساتھ جو معاملہ موجودہ حکومت نے کیا یہ تنظیمیں بھی اپنے حق میں اسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو ترکی سعودی عرب، ایران سعودی عرب اور روس اور سنٹرل ایشیا کے ممالک کے درمیان خود کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔ لیکن افسوس موجودہ حکومت کو ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی ان میں اتنی اہلیت ہے کہ ان ریاستی مسائل کو ہینڈل کرسکیں۔ یہ مسائل موجودہ حکومت ہی کے غلط پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور ان سارے مسائل کے ہوتے ہوئے بھی ریاست کے ذمہ داران ایک اور سنگین غلطی کرنے جارہے ہیں، وہ یہ کہ اس مسائل سے بھری گاڑی کے ڈرائیونگ سیٹ پر بلاول جیسے ناتجربہ کار کو بٹھانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اب ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ خدا پاکستان پر رحم کرے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply