لگ بھگ 6 برس قبل جب یہ تحریر شائع ہوئی تو احباب اور قارین نے تائیدکی موجودہ حالات میں 6 برس قبل لکھی گئی تحریر بارِدیگر پڑھنے والوں کے سامنے رکھ رہا ہوں آپ اسے پڑھ لیجے پھر ٹھنڈے دل سے غور کیجے کہ ہم ارتقا کی بجائے مسلسل تنزلی کا شکار کیوں ہیں۔
چھ برس قبل عرض کیا تھا کہ ناہموار سماج میں تقسیم کی ایک نئی لکیر نے سماج کے ساتھ ہمارے نظام حکومت کے بھی بہت سارے کج عیاں کردئیے ہیں۔ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں۔ خود سے بڑھ رہے ہیں یا ہمارا ہانکا ہورہا ہے؟
یہ کہ اس کا انت کیا ہوگا۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سارے سوالات منہ چڑھا رہے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ درسی کتب کی تاریخ و معاشرت پر ایمان رکھنے والے سماج میں جس بوزنے کا دل چاہتا ہے وہ مذہب کے نام پر اپنا سودا بیچنے کے لئے دوکان کھول لیتا ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ دستور، قانون کیا ہوئے؟ ، دستور میں اداروں کی حدود اور طے شدہ کردار کے ہوتے ہوئے وقفے وقفے سے سب کچھ اتھل پتھل کیوں ہوجاتا ہے؟
کبھی ٹھنڈے دل سے غور ضرور کیجئے گا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سوالوں سے آنکھیں چراتے سماج تاریخ کے کوڑے دان کا رزق ہوئے۔ ہمارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔
یاد کیجئے کہ ہم نے اپنے ان رہنمائوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جو انسانی سماج میں فہم کی آبیاری کرسکتے تھے اور ان کی جگہ جن کو کاندھوں پر اٹھایا انہوں نے ہم سے کیا سلوک کیا؟
درسی کتب کی تاریخ میں بڑے بڑے تار یک ہول ہیں۔ کیا محض تاریخ کو ڈھنگ سے لکھ لینے سے سمت درست ہوسکتی ہے؟ بہت ادب سے کہوں یہاں پھر ایک سوال ہوگا تاریخ شروع کب سے کی جائے؟ زیادہ مناسب یہ ہے کہ ہم مذہب و عقیدے اور وطنی ملکی اور قومی شناختوں کو الگ الگ کرکے سوچنے کی عادت ڈالیں۔
ہم صدیوں اور کچھ تو کئی ہزار یوں سے اس سر زمین پر آباد ہیں یہی حقیقت ہے۔ جغرافیہ وسیع اور کم ہوتا ہے۔ ریاستوں کی حدود کبھی فیڈریشنوں کے اتحاد میں بدلتی ہیں اور کبھی خود مختار ریاستوں کی صورت میں ابھرتی ہیں۔
بہتر کی تلاش میں ارتقا کا سفر جاری رہتا ہے۔ مذاہب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ لوگوں، قبیلوں یا قوموں کا نیا مذہب قبول کرلینا حیرانی والی بات ہر گز نہیں۔ حیرانی تب ہوتی ہے جب لوگ، قبیلہ یا قوم مذہب تبدیل کرکے وطنی و قومی شناخت اور اپنی تاریخ پر شرمندہ ہوں۔
ایک سادہ سا سوال ہے۔ اسلام کا ظہور بلاد عرب میں ہوا کیا عربوں نے اپنی قدیم وطنی قومی شناخت ترک کردی؟
جی نہیں وہ آج بھی عرب ہیں۔ اپنے قدیم ورثے پر فخر کرتے ہیں۔ اپنی تاریخ اور ثقافت پر بھی۔ قدیم عربی ادب آج بھی معتبر حوالہ ہے۔
کسی عرب سے کہہ کر دیکھئے کہ وہ امرا والقیس، ولید اور سامت سے انکار کردے۔ یہاں ہم ہیں کہ اپنی زمین و تاریخ دونوں سے کٹ کر جینے کا ثواب کماتے تیتر رہے نا بٹیر۔
کامل وضاحت کے ساتھ عرض ہے تبدیلی مذہب آپ ہم یا کسی سے بھی اس کی قدیم شناختوں کی قربانی نہیں مانگتی۔ پھر جو ہمارے چار اٙور ہو رہا ہے یہ سب کیا ہے۔
عقل کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑنے کے جنون کو زندہ رکھنے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اندھی تقلید کا مال فروخت ہوتا رہے۔
معاف کیجئے یہ شعوری طور پر اور تاریخی طور پر درست نہیں۔ ہمیں اپنے اصل کے ساتھ تاریخی “قومی” ثقافتی حوالوں سے ثابت قدمی سے کھڑا ہونا ہوگا۔
ہاں مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب ایک ایسا ریاستی نظام موجود ہو جو فرد کے انفرادی معاملات میں مداخلت نہ کرے اور اس کے مذہب و عقیدے میں تانک جھانک کرنے کی بجائے ایسی قانون سازی کرے جو فرد کی ذاتی شناخت، اس کی گروہی ثقافت و تاریخ کے احترام کے ساتھ بلا امتیاز زندہ رہنے کا حق دے۔
ایسا نظام حکومت قائم کیسے ہوگا۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر بندہ خدا بننے سے باز رہے تو ریاست بھی اپنی حدود میں رہتی ہے۔
اصولی طور پر ریاست کو اپنی جغرافیائی حدود میں آباد تمام لوگوں کے لئے مادر مہربان ہی نہیں بلکہ شفیق باپ کا کردار بھی ادا کرنا چاہئے۔
مگر بدقسمتی سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری ریاست نے پچھلے 70 (اب پچھتر ہو گِے) برسوں میں یہی ایک کام نہیں کیا اور نہ کرنے کے سارے کام کئے۔
پچھلے 70 (اب پچھتر) برس میں اور پھر خصوصاً پچھلے 45 سے 50 برسوں کے دوران جو ہوا اس سے صرف نظر کرنے کی بجائے ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جس گھٹن اور حبس زدہ ماحول میں پچھلی نسلیں رہیں یا ہم لکیر کے فقیر کی طرح جی رہے ہیں اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔
علم، اخوت، مکالمہ، برداشت، انصاف اور مساوات یہ چھ اصول مد نظر رکھنا ہوں گے۔ یہی ہماری ضرورت ہیں اور آئندہ نسلوں کی بھی۔ ان کے بغیر ارتقا ممکن نہیں۔ ہاں اگر خوئے غلامی راس آ چکی ہے تو الگ بات ہے۔ ویسے کبھی غور کیجئے گا غلام پیدا ہونے سے غلام کے طور پر زندہ رہنا زیادہ ذلت آمیز ہے۔ آزاد مائوں کے جنے جب غلامی کا طوق گلے میں ڈالے مطمئن ہو جائیں تو آسمان رونا بند کردیتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں ہم فیصلے کرنے، جرأت فکر کا علم اٹھانے اور اپنے عصر کے لوگوں کی رہنمائی سے ڈرتے ہیں۔ فتوئوں کی چاند ماری کب اور کس پر نہیں ہوئی۔
مجھ طالب علم کی دانست میں اب وقت آگیا ہے کہ چپ کا روزہ توڑا جائے۔ غلامی کا طوق گلوں سے اتار پھینکا جائے۔ زندگی کے ہونے کا ثبوت دیا جائے اس کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ایک صاف ستھرا سماج، نظام اور تاریخ و ثقافت کے قابل فخر ورثے دینے پر آمادہ ہوں۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ایک وقت کی روٹی کے حصول کے لئے بھی محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہی حقیقت ہے تو پھر کیوں نہ ایک نئے سماج اور نظام کی تعمیر میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے لئے اہم ترین شرط یہ ہے کہ آدمیوں کے جنگل کو انسانی سماج میں تبدیل کرنے کی شروعات کے تقاضے پورے کئے جائیں۔
فضیل بن عیاض نے کہا تھا “وائے ہو تم پر کہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ حق بندگی تب اداہوتا ہے جب حق تخلیق ادا ہو”۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں