ریاست ماں ہوتی ہے؟/آغر ندیم سحر

اگر ریاست ماں ہوتی ہے تو کیا ماں کا رویہ اس قدر خوف ناک اور تکلیف دہ ہوسکتا ہے؟اگر ریاست اپنے شہریوں کے حقوق کی ضامن ہوتی ہے توپھرجو گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہوا،کیا یہ سب ہونا چاہیے تھا؟

اگر ریاست اپنے شہریوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہے اور اپنے لوگوں کو زندہ رہنے کا حق دیتی ہے تو پھر جمہوریت،انصاف اور قانون کے نام پر گزشتہ ڈیڑھ سال میں جو کچھ ہوا،کیا اس سے ریاست کا چہرہ مجروح نہیں ہوا؟۔اگر ریاست اپنے عوام کا تحفظ نہیں کرپا رہی اوراپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لوگوں کو زندہ درگور ہوتے دیکھ رہی ہے تو پھر ہمیں بتایا جائے کہ ہم کس سے انصاف مانگیں اور کسے ماں کہیں؟مائیں تو بہت شفیق اور رحم دل ہوتی ہیں،مائیں تو خود بھوکی رہ کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں،مائیں تو اپنے منہ سے نوالہ نکال کر اپنے بچوں کو کھلاتی ہیں،کیا کوئی ماں اتنی بے رحم بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے بچے بھوک پیاس سے مر رہے ہوں،خود کشی کر رہے ہوں،فٹ پاتھ پر بِک رہے ہوںاور ماں سکون کی نیند سو رہی ہو۔ماں کا لفظ ہی اتنا خوبصورت اور محبت بھرا ہے کہ لب پہ آتا جائے توادب سے آنکھیں جھک جاتی ہیں مگر تکلیف کی بات تو یہ ہے کہ جس ریاست کو ہم واقعی ماں سمجھتے ہیں،اس نے اپنے بچوں کو ایسے وقت پر اکیلا چھوڑ دیا،جب انھیں سب سے زیادہ اس کی ضرورت تھی۔

کل مال روڈ سے گزرتے ہوئے ایک ساٹھ سالہ بزرگ کے ہاتھ میں اشتہار دیکھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا کہ’’ اگر ریاست ماں ہوتی ہے تو مجھے بتائیں میں بجلی کا بل کیسے جمع کروائوں،میں اپنے بچوں کی فیس کیسے ادا کروں‘‘۔یہ وہ سوال ہے جو اس ملک کا ہر شہری اپنی ریاست اور حکومت سے کر رہا ہے،اس ملک کے چوبیس کروڑ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے عاجز ہیں،والدین اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں سے نکلوا رہے ہیں،وہ انھیں پڑھانے کی بجائے مزدوری کی طرف لا رہے ہیں،وہ اس خوفناک مہنگائی میں اپنے بچوں کی تعلیم تک برداشت نہیں پا رہے،کیا ریاست یہ سب نہیں دیکھ رہی؟گزشتہ سات ماہ میں آٹھ لاکھ سے زائد پڑھے لکھے نوجوان ریاست کو خیر باد کہہ چکے،اگر ریاست ماں ہوتی ہے تو کیا کوئی اپنی ماں کو بھی چھوڑ کر جا سکتا ہے،کیا کوئی اپنی ماں کو برے حالات میں اکیلا کر سکتا ہے؟میں نے اپنے ایک عزیز شاگرد سے کہا کہ بیٹا تم سافٹ ویئر انجینئر ہو،تمہیں اپنے وطن کی خدمت کرنی چاہیے،آخر وطن اور ریاست ماں ہوتی ہے،اس کے جواب نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے،کہنے لگا سر جب ماں ایک بچے کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور دوسرے کو پانی پر ٹرخا دے تو بتائیں کیا میرے دل میں اس ماں کی محبت رہے گی؟میں اس سوال پر خاموش ہو گیا،میرے آنسو نکل آئے کیوں کہ میں جتنی پاکستان سے محبت کرتا ہوں،شاید کوئی دوسرا نہ کرتا ہو،میں کبھی پاکستان نہیں چھوڑنا چاہتا ،میں اس وطن کی خدمت کرنا چاہتا ہوں مگر کیا کروں ،گزشتہ چند سال میں ملک دشمن عناصر نے اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا،ناقابلِ بیان بھی ہے اور قابلِ افسوس بھی۔

ابھی کل کا واقعہ ہے،ڈیرہ غازی خاں کے مہنگائی سے مجبور والد نے اپنے تین بچوں کو زہر دے کر خود کشی کر لی۔قصور میں ایک بیوہ نے دو بچے فروخت کرنے کا اشتہار گھر سے باہر چسپاں کر رکھا ہے۔گجرات میں ایک شوہر نے اپنے بچوں کو مارا پیٹا کیوں کہ وہ دو وقت کی روٹی کا تقاضا کر رہے تھے۔ ملتان،کراچی،پشاور اور لاہور میں بھی ایسے واقعات کی تعداد دو درجن سے زائد ہے۔کیا ان واقعات کی روک تھام کے لیے ریاست نے کوئی کردار ادا کیا،کیا وطن عزیز کی بے رحم اشرافیہ سے کوئی پوچھنے کی زحمت کرے گا کہ پاکستان کو جس تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے،اس کا قصور وار کسے ٹھہرایا جائے؟ریاست سے سوال کرتے ہیں تو گنہ گار ٹھہرتے ہیں،حکومت سے سوال کرتے ہیں تو وزیر اعظم کہتے ہیں’’مہنگائی اس قدر نہیں کہ احتجاج کیا جائے‘‘۔آپ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ پاکستان کے عوام چیخ رہے ہیں، بلک رہے ہیں،روٹی اور پانی کو ترس رہے ہیں اور اشرافیہ اور جاگیردار اپنی شہ خرچیوں میں مصروف ہے۔لندن میں بیٹھی گزشتہ کابینہ اب بھی اس ساری تباہی اور جنگ و جدل کا ذمہ دار گزشتہ حکومت کو ٹھہرا رہی ہے،ریلیف کی بات کی گئی تو نگران حکومت نے سارا ملبہ پی ڈی ایم پہ ڈال دیا،پی ڈی ایم سے پوچھتے ہیں تو وہ اس سارے معاملے سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی لیے میں نے شروع میں گزارش کی کہ ریاست تو ماں ہوتی ہے،ماں اپنے بچوں کے حقوق سے کیسے لاتعلق رہ سکتی ہے۔ماں دیکھ رہی ہے کہ اس کے شہریوں کو اس قدر مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ خودکشیاں کر رہے ہیں،اپنے اولاد کو فروخت کر رہے ہیں،انتشار اور فساد پر اتر آئے ہیں،کیا ایک ماں یہ سب برادشت کر سکتی ہے۔ میں تو یہ سوچ سوچ کر خوف زدہ ہوں کہ کہیں سول نافرمانی کی تحریکیں نہ سر اٹھانے لگیں،کہیں انتشار اور فساد کی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے،یہ لوگ جس قدر تنگ ہو چکے ہیں،یہ کچھ بڑا نقصان نہ کر دیں۔ہماری ریاست اور ریاستی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،ملک پرکڑا وقت ہے،لوگ بے رحم اشرافیہ اور سیاست دانوں سے بے زار ہو چکے،کرپشن کی دیمک نے ریاستی سسٹم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے،ایسے میں ہمارے بڑوں کو مل بیٹھ کر کوئی حل تلاشنا ہوگا۔اگر اب بھی ریاست نے اپنے شہریوں کے حقوق کے لیے آواز نہ ااٹھائی،کوئی عملی قدم نہ اٹھایا تو نفرت کی یہ آگ پورے سسٹم کو بھسم کر دے گی۔لوگ جس قدر غصے سے بھرے ہوئے ہیں، یہ کوئی انتہائی قدم اٹھا دیں گے،سول نافرمانی یا بغاوت جیسے عناصر بھی کوئی چال چل سکتے ہیں،ایسے میں اداروں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔عدالتیں بھی اپنا کردار ادا کریں اور مقننہ ادارے بھی۔فوج بھی اپنا کردار ادا کرے اور نیب و پولیس بھی۔مہنگائی سے تنگ عوام سڑکوں پر ہیں،یہ احتجاج کر رہے ہیں اور احتجاج ان کا بنیادی حق ہے، ریاست ان کی آواز سنے،ان کے حقوق کو یقینی بنائے تاکہ ریاست سے خوف زدہ لوگ،محبت کی طرف لوٹ سکیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply