ولن کون ہے

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کے چار موسموں کی طرح سے چار بڑی فصلیں کپاس, گنا, گندم اور چاول ہیں جنہیں کیش کراپس یا نقد آور فصل کہا جاتا ہے لیکن ہر فصل کے اپنے مسائل اور فوائد ہیں۔ انگریز دور میں جب فصلوں کی مینجمنٹ شروع ہوئی تو حقوق اور فرائض کو مدنظر رکھتے ہوئے مارکیٹ کمیٹی کا نظام بھی بنایا گیا جس کا ایک حصہ آڑھت کا قیام بھی تھا اور اس کے لیے قوانین و ضوابط وضع کئے گئے تھے اور کچھ کا ذمہ دار حکومت اور کچھ کا ذمہ آڑھتی حضرات پر ڈالا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مارکیٹ کمیٹی کا نظام اور محکمہ خوراک کا نظام چلانے کے لئے لائسنس جاری کرنے کا اختیار محکمہ فوڈ کے حوالے کردیا گیا چونکہ پاکستان اپنی ضرورت کے لئے درکار گندم پیدا نہیں کرتا تھا، حکومت نے آڑھتی حضرات کو گندم کی خرید پر کمیشن دینا شروع کیا اور چونکہ اس وقت گندم کی ذخیرہ کاری کے لیے حکومت کے پاس اتنے گودام میسر نہیں تھے تو محکمہ کے اربابِ اختیار آڑھتی حضرات کو گندم کی قیمت ادا کر دیتے تھے اور آڑھتی حضرات گندم اپنے گودام یا کسان کے گھر پر ہی ذخیرہ کرلیتے تھے جو کہ ڈیمانڈ پر گندم آڑھتی حضرات سے اٹھا لیتے تھے جس کے عوض محکمہ خوراک انہیں مقرر کردہ کمیشن دیتا تھا، اس کے نتیجے میں تقریباً اٹھانوے فیصد کسانوں کو فصل کی امدادی قیمت کا ننانوے فیصد تک مل جاتا تھا اور پھر پاکستان میں جمہوریت آئی اور عوامی لیڈروں کو خیال آیا کہ انگریز کا نظام بدلنا چاہیے اور کسان کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملنا چاہیے اور مڈل مین کو درمیان سے نکالنا ہو گا، لہذا کسی نوبل پرائز کے لائق دماغ نے مشورہ دیا کہ گندم براہ راست کسان سے خریدی جائے، وہی مڈل مین یا آڑھتی جو زراعت کے پیشے کی ریڑھ کی ہڈی تھا اس کو سب سے بڑا ولن بنا دیا۔ تاہم گزشتہ دس سال سے سب یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ گندم تو نوے فیصد بیوپاری حضرات فروخت کرتے ہیں مگر نام کسان کا ہوتا ہے۔ ہر آڑھتی اپنے کسان کو کہتا ہے کہ اپنے نام کی گرداوری پر محکمہ خوراک سے باردانہ لا کر دو ورنہ ریٹ سے سو روپے من اور بعض اوقات تو دو سو سے اڑھائی سو روپے کم قیمت پر گندم خریدتا ہے اور محکمہ کے راشی افسران کے ساتھ مل کے ناجائز منافع حاصل کرتا ہے جبکہ سابقہ دور میں کسان کو امدادی قیمت کا ننانوے فیصد مل جاتا تھا لیکن2001سے لے کر آج تک جب سے کسان سے خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کسان کو ایک سال بھی امدادی قیمت کا اسی فیصد سے زیادہ نہیں مل سکا مگر محکمہ خوراک کے کرپٹ افسروں کی جائیدادوں میں بے پناہ اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اگر کوئی ادارہ اس بات کا کھوج لگائے تو یہ انکشاف قطعاً حیران کن نہیں ہوگا، نئی لگنے والی فلورملز کی ایک بڑی تعداد محکمہ خوراک کے افسران کی ملکیت ہے اور یہ گندم اور گندم اگانے والے کسان کے استحصال کی برکت سے ممکن ہوا ہے ۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اکثر فوڈ انسپکٹر سیاسی دباؤ سے تقرریاں اور تبادلے کرواتے ہیں اور اس کے بدلے کرپشن کی بہتی گنگا میں خوب نہاتے ہیں اور متعلقہ حکام سب جانتے ہوئے بھی چپ سادھ رکھتے ہیں کیونکہ اس میں اوپر سے نیچے تک حصہ پوری ایمانداری سے پہنچایا جاتا ہے اور حکمران اس بات کا خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہم نے کسان کو خوشحال بنا دیا ہے جبکہ اگر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو صرف پچھلے سال جو گندم حکومت پنجاب نے خریدی اس کی مقدار تقریباً چالیس لاکھ میٹرک ٹن تھی جبکہ کسان کو مارکیٹ میں اوسط تقریباً بارہ سو روپے فی چالیس کلو گرام کی قیمت ملی۔ اب چالیس لاکھ میٹرک ٹن گندم کی دو سو پچاس روپے فی ٹن کے حساب سے کسان کو ہونے والے نقصان کی جمع تفریق کر لیں۔۔ یہ سارا پیسہ کس کی جیب میں گیا ہے ؟؟؟؟
اگر تو حکومت کسان کو اس کی محنت کا صلہ دینا چاہتی ہے تو پھر اس کو سابقہ نظام کی طرح آڑھتی حضرات کو اپنا بازو بنانا چاہیے نہ کہ اسے ولن سمجھے۔ پہلے صرف اس میں دو فریق تھے مگر اب پٹواری اور پھر ان پر کوآرڈینیٹر لگا دیئے گئے ہیں اوراب لگتا ہے ان پر اینٹی کرپشن کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ میری خادم اعلیٰ سے التماس ہے کہ جناب جوتے مارنے والے نہ بڑھائیں بلکہ کسانوں پر مہربانی کر تے ہوئے آڑھتی حضرات کے بس میں ہی رہنے دیں کہ ایک بندے کا خرچہ کم ہوتا ہے جبکہ جتنے چیک آپ بڑھاتے جائیں گے اتنی ہی کسان کی امدادی قیمت میں کمی آتی جائے گی کیونکہ رشوت لینے والے جتنے بڑھیں گے تو سارا بوجھ کسان پر آئے گا لہذا اگر آپ واقعی ہی کسان کے ہمدرد ہیں تو انہیں ایک بندے کے ہاتھوں استحصال کروانے دیں نا کہ ان پہ بوجھ بڑھائیں ۔

Facebook Comments

ممتاز ناظر
مطالعہ اور سیروتفریح کا شوق ہے ۔اور اپنا زمینداری پرگزر بسرہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply