باغ لانگے خان لائبریری ملتان۔۔محمد ارشد

ملتان چونکہ زمانہ قدیم سے ایک زندہ اور تابندہ شہر ہے اور اس کے اکثر تاریخی نمایاں آثار اب تک چلے آتے ہیں۔ ملتان کا شمار قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے آرین اقوام کی وادی سندھ میں آنے سے برسوں پہلے ملتان شہر تہذیب و ثقافت کے خزینے اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے موجود تھا۔ ہندوستان کی قدیم ترین رگ وید ملتان کے بعض دریاؤں کے کنارے لکھی گئی جس کے بعض اشلوکوں کا زمانہ چھ سے آٹھ ہزار سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔

ملتان کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں۔ ملتان اپنی ثقافتی، تہذیبی شناخت کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے ملتان میں بے شمار تاریخی مقامات موجود ہیں۔ ملتان میں صدیوں پرانا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ موجود ہے جہاں یہ شہر اپنی قدامت کے حوالے سے مشہور ہے۔۔ رسم و رواج، علاقائی ثقافت کے حوالے سے بھی نمایاں مقام رکھتا ہے جہاں ملتان میں تاریخی آثارِ قدیمہ موجود اور دیکھنے کے لائق ہیں وہاں علمی اور ادبی مراکز بھی اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں ویسے تو ملتان کے بے شمار علمی اور ادبی مراکز ہیں۔ لیکن آج میرا مقصد ملتان شہر کے قریب ساڑھے چار سو سال پرانے کتب خانے کے متعلق آگاہ کرنا ہے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے “قومیں کتب خانوں سے بنتی ہیں” جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا نا ممکن ہے اسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقاء اور ارتقاء محال ہے۔ خدا تعالیٰ نے بھی اپنی حمد و ثناء کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے اور ان انبیاء کرام پر اپنا کلام کتاب ہدایت کی صورت میں نازل فرمایا تاکہ اس کا کلام محفوظ صورت میں اس کے بندوں تک پہنچے اور رہتی دنیا تک اس کے بندے اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارتے رہیں۔ ہمارے پیارے نبی اکرم خدا کے آخری رسول تھے خدا نے ہمارے نبی کریم کے ذریعے اپنا پاک کلام ہم تک پہنچایا۔ ہم اپنے نبی کریم کے امتی ہیں قرآن و حدیث سے محبت کی وجہ سے ہمیں بھی کتب بینی کا بے حد شوق اور لگاؤ پیدا ہوا جس وجہ سے مسلمان کتابوں کے دلدادہ بن گئے۔ حضور اکرم کی پیروی میں انھوں نے مختلف علوم کو کتابی صورت میں محفوظ کر لیا اور یہاں سے مطالعہ کتب کا شوق بھی پروان چڑھنے لگا اور نئے نئے علمی اور ادبی مراکز بھی قائم ہوئے۔۔۔

ملتان کے بے شمار تاریخی کتب خانوں میں ایک قدیمی کتب خانہ پبلک لائبریری باغ لانگے خان بھی ہے۔ ملتان بک سوسائٹی صرف انگریزوں کے تفنن طبع کے واسطے کتابیں فراہم کرتی تھی اور وہ تمام کتابیں بھی انگریزی میں تھیں مقامی خطے کے لوگوں میں شروع میں انگریزی پڑھنے اور سمجھنے والے لوگ بالکل نہ تھے۔۔ کچھ نچلے درجے کے انگریزی جاننے والے ملازم جو ابتدائی نظم و نسق اور معاملات چلانے کے واسطے انگریزوں نے مختلف صوبوں سے متحدہ آگرہ، دہلی اور اودھ کی انتظامیہ سے پنجاب میں منگوائے تھے وہ سیدھے سادے دیسی تھے ایسے لوگ ملتان میں تھوڑی تعداد میں لائے گئے۔ چنانچہ ان شروع کے دنوں میں مولتان بک سوسائٹی سے دیسی لوگوں نے فیض حاصل نہ کیا۔

1856ء میں پہلا انگریزی اسکول قائم ہوا اور آہستہ آہستہ انگریزی پڑھنے والے لوگ ملتان میں بڑھنے لگے۔ کچھ وکلاء لاہور اور دوسرے شہروں سے منتقل ہو کر ملتان میں آ بسے اور جدید تعلیم سے آراستہ لوگ باہر سے ملتان میں ملازمت کے لیے آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ 1857ء کے لگ بھگ بہت سارے پڑھے لکھے انگریز ملتان میں مقیم تھے اور لوگوں کا رجحان جدید تعلیم کے تقاضوں کے زیرِ اثر مطالعہ کتب کی جانب بہت ہی زیادہ تھا۔ اسی طرح اخبارات اور رسائل کی ترسیل سے لوگوں میں دل چسپی کا عنصر نمایاں ہو رہا تھا۔ چنانچہ ان عوام کے زیرِ اثر مولتان بک سوسائٹی کو زیادہ اعلیٰ نوعیت کا ادارہ بنانے کے لیے پبلک لائبریری کی صورت دے کر عوام پر اس کے دروازے کھول دیے گئے اس ادارے کا ابتدائی نام ” پبلک لائبریری باغ لانگے خان ملتان” تھا۔ لیکن جب نومبر 1915ء کو اندرون شہر کُپ بازار میں “ریڈنگ روم” کا افتتاح ہوا تو لائبریری کا نام “پبلک لائبریری اینڈ ریڈنگ روم باغ لانگے خان” رکھا گیا جوکہ آج تک اسی طرح چلا آتا ہے۔

موجودہ لائبریری کی عمارت پر ابتداً میونسپلٹی کے کچھ دفاتر بھی رہے لیکن جب 1886ء میں پبلک لائبریری موجودہ عمارت میں قائم ہوئی تو بلدیہ کے دفاتر باغ لانگے خان میں موجودہ زنانہ کلب کی عمارت میں منتقل ہو گئے۔ لائبریری اس وقت ایک ہال پر مشتمل تھی۔ لائبریری کے باہر کا برآمدہ لکڑی کے ستونوں پر قائم تھا بارہ دری کا فرش سنگ مرمر کا تھا۔ لائبریری کے سامنے موجودہ پلاٹ میں سنگ مرمر کا ایک خوب صورت فوارہ تھا جس پر ایک بڑا سنبل کا درخت تھا جو ہمیشہ سایہ کیے رکھتا تھا اور لائبریری کی عمارت کے چند فٹ بطرف جنوب نالہ ولی محمد خان بہتا تھا۔ اور لائبریری کے شمال اور مشرق میں باغ لانگے خان کے سبزہ اور پھولوں کے تختے تھے۔

چونکہ لائبریری کا نام پبلک لائبریری باغ لانگے خان ملتان ہے اور اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لانگے خان کون تھا؟ اور باغ کی تاریخ کیا تھی؟ باغ کا نام اب چونکہ لائبریری کے نام کا جزو بن چکا ہے اس لیے اس باغ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

لانگے خان خوگانی مغلیہ دور کے آخری دنوں میں ملتان کا ایک امیر رئیس تھا جس نے اٹھائیس بیگھہ اراضی پر یہ باغ ذاتی شوق کی تسکین کے لیے لگایا۔ اس میں پھل دار پھول دار اور نمائشی درخت نصب کیے۔۔ بارہ دری، فوارے اور خوب صورت روشین بنائیں اور باغ کو تفریح کے قابل بنا دیا۔ چوں کہ باغ نالہ ولی محمد خان کے کنارے پر اور فصیلِ شہر سے قریب واقع تھا اس لیے لوگ تفریح کے لیے آتے اور کڑی افغانان کلاں جوکہ باغ مذکور سے ملحق ہے کہ پٹھان جوق در جوق آتے۔ لانگے خان محمد شاہ رنگیلا کا ہم عصر تھا۔ خوگانی لوگوں پر زیادہ سختی نہ کرتا اور عموماً ان کی تفریح میں مخل نہ ہوتا تھا۔ چنانچہ یہ نجی باغ تقریباً عوامی باغ کی حیثیت اختیار کر گیا۔ لانگے خان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا بھی لوگوں کی باغ میں آمدو رفت اور سیر و تفریح پر معترض نہ ہوتا تھا لیکن لا ولد تھا اس نے اخیر عمر میں باغ کا سودا ایک ایسے شخص سے کر لیا جوکہ مستند تھا اور سخت طبیعت کا مالک تھا۔ ملتان کے عوام نے اس عمل کو پسند نہ کیا ان کو خدشہ تھا کہ نیا مالک اس باغ کی عوامی حیثیت اپنی طبیعت کی سختی کی وجہ سے مجروح نہ کر دے۔

چنانچہ ملتان کے کافی لوگ وفد بنا کر نواب زاہد خان سدوزئی کے پاس گئے وہ ان دنوں نائب ناظم ملتان تھے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ مہربانی فرما کر باغ خرید لیں اور عوامی حیثیت مجروح نہ ہونے دیں۔ انھوں نے لانگے خان کے بیٹے کو بلوایا اور اسے آمادہ کر لیا کہ وہ پہلا سودا منسوخ کرے اور باغ زاہد خان کو فروخت کر دے گفت و شنید کے بعد لانگے خان کا لڑکا بارہ ہزار پر باغ فروخت کرنے پر راضی ہو گیا۔ چنانچہ بیع نامہ پچھلی تاریخ کا تحریر کر کے قاضی سے تصدیقی مہر لگوا کر بارہ ہزار روپے دے کر زاہد خان سدوزئی باغ کا مالک ہوا اور باغ پر قبضہ کر کے باغ کو ملتان کے لوگوں کے لیے بطور سیر گاہ وقف کر دیا۔ لانگے خان کے لڑکے نے جس شخص کے ساتھ سودا کیا تھا اس نے بڑی طویل مقدمہ بازی کی اور معاملہ دہلی تک گیا اور وزیر قمرالدین خان اور مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا تک فریاد گئی لیکن زاہد خان نے اپنے رسوخ کی وجہ سے اس کی ایک نہ چلنے دی آخر کئی سال کی مقدمہ بازی کے بعد زاہد خان نے اس خریدار کے پیسے جو اس نے لانگے خان کے بیٹے کو دیے تھے واپس کروا دیے اور یہ تنازع  ختم ہوا وہ دن اور آج کا دن یہ باغ ملتان کے عوام کی سیر گاہ اور تفریح گاہ ہے لیکن انگریز دور میں اس کے نصف حصہ میں سول اسپتال قائم کر دیا گیا باقی ماندہ حصہ میں چناب کلب اور زنانہ کلب قائم ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دورہ پاکستان میں کچھ حصہ گائیڈ ہاؤس اور ایم ڈی اے کے دفاتر اور واٹر ورکس کے لیے مختص کر دیا گیا اور اس طرح یہ باغ معدوم ہونے کے قریب ہے اب چار پانچ پلاٹ باقی رہ گئے ہیں جن کے بارے میں ایم ڈی اے کے خلاف باقاعدہ عدالت دیوانی سے ڈگری حاصل کی گئی ہے کہ پلاٹوں کو باغ کے علاوہ کسی اور صورت میں تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اسی باغ کے جنوب مغربی کونے میں مغلیہ دور کی بارہ دری جو بالکل نالہ ولی محمد کے کنارے واقع تھی۔ اس بارہ دری کی تعمیر شہزادہ مراد بخش وائسرائے ملتان پسر شہنشاہ ہندوستان شاہ جہان نے 1641ء میں تعمیر کرائی اور 1860ء میں اسے پبلک ریڈنگ روم بنا دیا گیا اس عمارت میں بعد میں وقتاً فوقتاً اضافے ہوتے آئے ہیں۔ اس تعلق کی وجہ سے اس ادارہ کا نام پبلک لائبریری باغ لانگے خان ملتان ہے۔ اس لائبریری میں ایک لاکھ سے زائد کتب کا ذخیرہ موجود ہے جہاں ملتان اور اردگرد کے شہروں کے مختلف شعبوں کے طلباء یہاں اپنے تحقیقی مقالوں کے مطابق مواد تلاش کرتے ہیں اور یہ انھیں نہایت مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کتب خانہ انتہائی کشادہ ہے انتظامیہ کا رویہ بھی خوش کن ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply