کلیڈو سکوپ(1)۔۔شاہین کمال

آدم اپنی کامیابی کی میٹھائی لینے چورنگی تک گیا ہے اور میں آدم کا رزلٹ ہاتھوں میں تھامے ساکت بیٹھا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ مجھے اپنے آپ سے کیا گیا وعدہ بھی تو نبھانا ہے اور اب مجھے شدید غصہ آ رہا ہے کہ میں نے اپنے آپ سے ایسا مہلک وعدہ کیا ہی کیوں؟ پر اب بندہ اتنا تھڑدلا اور پلپلا بھی نہ ہو کہ کیا گیا وعدہ بھی نہ نبھا سکے۔ وہ وقت جس سے میں عرصے سے شعوری طور خائف تھا آج میرے سامنے مجسم ہے اورمیرے کانوں میں بھولی بسری آوازیں گونج رہی ہیں۔

یہ تم نے کیا کیا؟
جرنیلی میڈم اب تیری کھال میں بھس بھروا چھوڑے تو بھی کم ہے۔ کمبخت مارے تو بات کیوں  نہیں سنتا؟
اب جو باقی کے تین نگینے ہیں نا ان پر تو کمیشن تم بھول ہی جاؤ۔ خود مرتا ہے تو مر مرن جوگے ،مجھے کیوں پھنساتا ہے؟
راگنی غصے سے تن فن کرتی کمرے میں چکراتی پھر رہی تھی۔

لے آ گئی کال جرنیلی کی۔ میں نے کان سے ٹیلی فون لگاتے ہوئے   غضب ناک نظروں سے مختارے کو گھورا۔ ویسے مجھے کان سے فون لگانے کی قطعاً ضرورت نہ تھی کہ جرنیلی کی دھاڑ آٹھ بائی چھ کے حبس بھرے کمرے میں ہر طرف گونج رہی تھی۔ یہ بھی شکر کہ ابھی فون سے کود کر باہر نکلنے کا آپشن نہیں تھا ورنہ آج جرنیلی یہ بھی کر گزرتی۔

“تیرے سمجھ میں ایک دفعہ کی کہی ہوئی بات نہیں آتی کیا؟ میں نے کتنی بار بولا ہے کہ مجھے بچے والی کا ٹنٹا نہیں چاہیے۔ صرف کم عمر لڑکیوں کی ڈیمانڈ ہے، گاہک فریش گوشت مانگتا ہے۔ اگر مختارے سٹھیا گیا ہے تو اسے لات مار کر باہر نکالو ۔ مجھے کام چاہیے کام، سمجھی  !
اگر تم لوگوں سے کام نہیں ہوسکتا تو مجھے بھی حرام  خوروں کی فوج اکٹھی کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ مختارے کو بولو کہ یہ اس کا آخری چانس ہے کسی بھی طرح بچے کا قصہ پاک کرے۔ ”

میں نے پسینے پسینے ہوتے ہوئے فون بند کر کے ٹیبل پر پھینکتے ہوئے مختارے کو دیکھا، جو بجائے پریشان ہونے کے کمینگی سے مسکرا رہا تھا۔
ابے مسکرا کیوں رہا ہے بھڑوے سنا نہیں تم نے جرنیلی کیا بھونک رہی تھی؟

میں نے غصے سے دانت پیستے ہوئے اسے گھورا کیونکہ مجھے اپنا کمیشن ڈوبتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ میں سجیلی کے علاج کے لیے پیسے ویسے ہی نہیں جوڑ پا رہی اور جو رہا سہا اس کمیشن کا آسرا تھا وہ اس بدذات مختارے نے خواہ مخواہ میں بچے کا پخ پال کر سرے ہی سے ڈبو دیا۔
کائے کو ٹینشن لیتی رے راگنی!
چھٹانک بھر کا تو چھوکرا ہے پھڑکا دوں گا۔

جرنیلی تو کتنی لڑکیوں کا قتل بے آواز ڈکار گئی ہے، سالے پلے کو کون پوچھتا ہے؟ ارے کم عقلی یہ حسینہ بچے کی وجہ سے ہی تو سستی ملی ہے، جرنیلی خسیس دمڑی خرچنے کو تیار نہیں اور مال  چاچاہیے کھرا۔ آج کل نیلامی منڈی میں ریٹ بہت اونچا چل رہا ہے، سارا اچھا مال باہر اسمگل ہوتا ہے۔ یہ چاروں تو مجھے بہت مناسب داموں مل گئی ہیں۔ جرنیلی نے تو ویسے بھی ان کا ماس، ہڈی سب ہی بیچ دینا ہے مگر پھر بھی چھوکری مفت چاہیے۔
ہونہہ مختارے نے بھری ہوئی سگریٹ سلگاتے ہوئے مجھے مزید سلگایا۔
۔۔۔۔
جو میں سچ بولوں راگنی تو جرنیلی سٹھیا گئی  ہے۔ میرا اس کا تیس پینتیس سال کا ساتھ رہا ہے۔ پہلے میں  اس کا طبلچی تھا، حادثے میں میری دو انگلیاں کٹی تو طبلہ بھی گیا اور میرا رول بھی بدل گیا۔ پاپی پیٹ کو روٹی تو ہر حال میں چاہیے، بچپن سے ادھر ہی رہا، یہ سب ہی دیکھا سنا اور جرنیلی کا مزاج آشنا بھی تھا، بس پھر اسی دھندے میں لگ گیا۔ مجبوری بڑی کڑوی اور نوکیلی ہوتی ہے اور دنیا کی منڈی میں سب سے سستا انسان۔ اس بیوپار میں کوئی کسی کا نہیں۔ میں  نے اس دھندے میں رشتوں کو غرض ہو یا مجبوری دولت میں تُلتے دیکھا ہے اور وہ چاہے باپ ہو ، بھائی یا میاں، انہیں اس منڈی میں رشتوں کو سکوں میں ڈھالتے بھی دیکھا کہ یہاں رشتوں کا کوئی تقدس نہیں۔ تم مجھے اس سالی دنیا کا ایکو ایک رشتہ بتا دو راگنی جو اس دھندے میں ملوث نہیں  ، قسم سے میں  اپنی مونچھیں منڈوا دوں جو تم مجھے ایک بھی اعتبار کا رشتہ گنا سکو۔ سب سے سستی تو مجھے وہ چھوکریاں پڑتی  ہیں جو ٹرین اسٹیشن اور بس اڈے پہ خالی پیلی پھوکھٹ میں محبت کے نام پر گھر کی دہلیز الانگتی ہیں اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برباد ہو جاتی ہیں۔ میرا یقین کرو راگنی یہ سالی محبت وحبت کی جو راس لیلیٰ رچائی جاتی ہے نا یہ سب محض زبانی کارتوس ہے، ایسے ہی بوم مارتے ہیں یہ سالے لونڈے حرام خور۔

ارے!! تم عورتوں کے کھوپڑیاں میں کیا دماغ و  ماغ بالکل ہے ہی نہیں کہ اماں حوا کے وقت سے ابھی تک تم لوگ اسی سال خوردہ محبت کے پھندے میں پھنستی آ رہی ہو؟
مختارے نے طنزیہ انداز میں مجھے دیکھا۔

تم مجھے دنیا کا بتاؤ گے مختارے، مجھے ؟
مجھے تو خود میرا گھر والا یہاں بیچ کر گیا تھا۔

میں نہ وہاں اس کے ساتھ خوش تھی نہ یہاں مزے میں ہوں۔ وہاں بھوکے پیٹ نشئی میاں کے ہاتھوں پِٹتی رہی اور بلآخر اسی نشے کی  نذر ہوئی اور یہاں دھندے سے انکاری پر بجلی کے تار سے پٹی بھی اور بجلی کے جھٹکے بھی سہے۔ شکر کہ جوانی ڈھلی تو اس دھندے سے جان چھوٹی مگر اب یہ نئی مشقت ہے۔ سچ مختارے میرا بس چلے نا تو میں شہر کے سارے اڈے بند کروا دوں مگر جب میں کم سن بچوں کی ادھڑی ہوئی لاشیں دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں طوائف اور کبسی کا دم بھی غنیمت ہے ورنہ شاید دنیا کی کوئی مادہ بھی محفوظ نہ رہے۔ جانے کیسی ہوا چلی ہے ؟ لگتا ہے بیشتر بشر ہی چاک سے اتر گئے ہیں۔
کہتی تو تم ٹھیک ہو راگنی، شاید یہی کل یُگ ہے۔
ویسے تم نے ڈیرے پر آنے والیوں کو ایسا سدھایا ہے کہ تم جرنیلی کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی  ہو ۔تم لڑکیوں پر پوری چنگیز خان ہو۔ تم کو راگنی کون سالا بولتا؟ تم تو پوری کی پوری چنگیزی ہو۔
میں ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا تھا۔
مختارے تو اب کیا کرے گا اس بچے کا؟

راگنی نے ہولے سے دوبارہ پوچھا۔
میں  ! جانے کیا کروں گا؟ ابھی کچھ سوچا نہیں۔

مجھے تو یہ سالا بھی اپن ہی جیسا دکھائی پڑتا۔ جیسے میری ماں اور مجھے کوئی راجھستان سے خرید کر ادھر لایا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میرے باپ نے مجھے اور میری ماں کو اس دلال کے حوالے کیا تھا تو میں  اپنے باپو کی ٹانگوں سے چمٹ کر چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔ میرے باپ نے جھٹکے سے اپنی ٹانگیں چھڑائیں اور میرے رنگین عدسوں والے کھلونے کیلڈیسکوپ پر پیر رکھتے ہوئے میرے دل کو کچلتا ہوا چلا گیا اور مانو اس کے ٹوٹے ہوئے عدسے آج تک میرے دل میں چبھتے ہیں۔ ویسے ہی میں  بھی تو اسے اور اس کی ماں کو بھاؤ تاؤ کر کے ایک بے جان چیز کی طرح مول لایا ہوں۔ میں ایسا بننا بالکل بھی نہیں چاہتا تھا راگنی پر میں  ایسا ہی بن گیا ہوں۔

تمہیں پتہ ہے راگنی! جرنیلی کی  ماں بخت جہاں بڑی کائیاں تھی۔ وہ ڈیرے پہ اندر کبھی بھی مرد ملازم نہیں رکھتی تھی، ہمیشہ کھسرے ہی زنان خانے کی خدمت پر رکھے جاتے اور باہر خونخوار بندوق بردار گورکھا پہرے دار رہتا۔ میں  جب بہت چھوٹا تھا تو بخت جہاں نے مجھے اندر کے کاموں کے لیے چن کر ختنے کے بہانے مجھے خصی کرا دیا تھا، اس ظالم نے تو میرا کچھ بھی میرا نہیں رہنے دیا حتیٰ کہ میرا اپنا آپ بھی۔ میں  آدھا ادھورا ادھر ہی پان اور پھول لاتے لاتے بڑا ہو گیا۔
تو۔۔ تو۔۔۔ پیدائشی ایسا نہیں تھا؟؟
راگنی نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
نہیں رے !  یہ تو اس کپتی جرنیلی کی ماں حرافہ کا کیا دھرا ہے۔ کیڑے پڑیں منحوس کی قبر میں۔ میں  نے دل سے بد دعا دی۔
جانے جرنیلی کو مجھ میں کیا نظر آیا کہ اپنی ماں سے بھڑ گئی اور مجھے بڑے استاد کے حوالے کر دیا اور میں کم عمری ہی میں طبلہ سیکھنے لگا۔ میں  جرنیلی کا طبلچی اور سکھی تھا۔ وہ اپنا سارا دکھ سکھ مجھ سے کرتی تھی اور جرنیلی کے کتنے راز اس سینے میں دفن ہیں۔ چڑھتی جوانی میں جرنیلی بادام کی گری کی طرح نرم تھی پر بڑھتی عمر اور ناکام محبت کے صدمے نے اس کے دل کو سنگ کر دیا، ایسا سخت پتھر جو کبھی ٹوٹتا ہی نہیں لہذا کبھی چشمہ پھوٹا ہی نہیں ۔ اب تو کوئی مان ہی نہیں سکتا کہ جرنیلی کبھی رسیلی اور سریلی بھی تھی۔ یہ تو اب اپنی ماں سے بھی زیادہ کھڑوس ہے۔

تو بچے کا کیا کرے گا مختارے؟؟؟
راگنی نے پھر ہولے سے پوچھا۔
ارے تیری سوئی بچے پہ کیوں اٹک گئی  ہے؟
کہیں تو اسے گود لینے کا تو نہیں سوچ رئی۔ ؟
نہ بابا نہ !! میں سجیلی کا علاج تو کرا نہیں پا رہی، میں بھلا نیا ٹنٹا کیوں مول لوں؟
بس انسان کا بچہ ہے اس لیے تھوڑا دل دکھ گیا۔
راگنی نے رنجیدگی سے کہا۔
ہیں  ! تیرے پاس دل ہے؟
جب تو بھوک اور ہنٹر سے لڑکیوں کو کمان کی طرح سیدھا کرتی ہے تب تیرا یہ دل کہاں ہوتا ہے؟
وہ تو میری مجبوری ہے مختارے۔ میں ان کی کھال نہ اڈھیڑوں تو جرنیلی میری کھال میں بھس بھروا کر دیوان خانے میں کھڑا کر دے۔ جیسے تو پیٹ کے لیے دلالی کر رہا ہے ویسے ہی میں بھی پیٹ کے لیے حالات کے تھپیڑوں سے پٹ رہی ہوں۔ ہم لوگوں کی بھی کیا زندگی ہے مختارے!!
اتنی بد دعا لیکر ہم لوگوں کا کیا انجام ہو گا؟
بد دعا ! کیسی بد دعا ، کیوں بھلا؟
نہ کبھی کسی کو اغوا کیا، نہ ورغلایا، ہمیشہ نقد سودا کیا ہے، مول لیا ہے۔ بیچنے والے نے بیچا میں  نے خریدا۔ ہاں اسٹیشن اور بس اڈے سے ضرور چھوکریوں کو مفتا لیا، تو بھئ میں  نہ ڈیرے پر لاتا تو کوئی اور اڑا لے جاتا۔ جب ایک دفعہ انہوں نے گھر چھوڑا تو پھر کیا کوٹھا اور کیا ڈیرہ ۔
چلو چھوڑ ہو جائے کا پلے کا بھی کچھ نہ کچھ، تم بےکار میں اس کا غم مت پالو۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply