ادھورا خواب/علی عبداللہ

یہ ایک ویران اور وسیع و عریض ریگستان تھا۔ رات کا آخری پہر تھا اور چودھویں کا چاند سامنے افق پر ہمیشہ کی طرح ساحرانہ کیفیات لیے روشن تھا۔ چاند جب مکمل روشن ہو تو ستاروں کی جانب نگاہیں کم ہی جایا کرتی ہیں؛ یہاں بھی کچھ ایسا ہی منظر تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

 

 

ستارے چاند کی اوٹ میں چھپے ہوئے تھے۔ وہ مٹیالے رنگ کے اونٹ پر سوار، ریت کے ٹیلوں سے گزرتا ہوا کسی اپنی منزل کی جانب گامزن تھا۔ وہ بہت دیر تک اونٹ پر بیٹھا یونہی محو سفر رہا اور پھر اچانک اونٹ سے اتر آیا۔ ننگے پاؤں، سر پر ایک رومال اوڑھے وہ اونٹ کی نکیل تھامے خراماں خراماں ریت پر چلنے لگا۔ پورے چاند کی اس رات ریگستان ایک مسحور کن نظارے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ کبھی کبھار ایک ادھ ٹوٹا ہوا ستارہ اچانک افق پر نمودار ہوتا اور پھر فوری آسمان کی وسعتوں میں کہیں غائب ہو جاتا۔ اس نے سنا تھا کہ یہ ٹوٹے ہوئے ستارے شہاب ثاقب کہلاتے ہیں جو آسمان پر ٹوہ لگانے والوں کا پیچھا کر کے اسے بھسم کر دیا کرتے ہیں۔
رات کے اس پہر خاموشی کے ساز پر اس کا اونٹ بولتا تو پورے ریگستان میں جیسے ہلچل سی مچ جاتی۔ اس کے اباؤ اجداد کا تعلق براہ راست صحراؤں اور ریگستانوں سے نہیں تھا، البتہ وہ کبھی کبھار ریگستان کے اس پار واقع ساحل سمندر پر ماہی گیروں سے ملنے جاتا اور ان سے سمندروں کی پراسرار کہانیاں سنتا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان ماہی گیروں کو سمندر سے زیادہ ریگستان پراسرار محسوس ہوتا تھا اور وہ اسے ریگستان کی کہانیاں سنانے پر مجبور کیا کرتے تھے۔ وہ یونہی چلتا رہا اور پھر اونٹ کے گلے میں بندھی گھنٹی، خاموشی اور چاندنی رات اسے حدی خوانی پر مجبور کرنے لگی۔ مگر وہ گا نہیں سکتا تھا۔ اسے ریگستان پار کرتے ہوئے اکثر یہ حسرت ہوتی کہ کاش وہ کوئی قدیم عرب ساربان ہوتا اور حدی خوانی سے اونٹ کو مست، ستاروں کو مسحور اور ریگستان کو تڑپا دیتا۔ مگر وہ نہ تو نجد میں تھا، نہ یہاں کوئی لیلی تھی اور نہ ہی وہ کوئی مجنوں تھا کہ جس بارے کسی نے کہا تھا،
“وادئ نجد میں کیا منتظرِ لیلیٰ ہے
کان مجنوں کے ہیں آواز حدی خواں کی”
یہ سوچتے ہوئے اسے اپنی دادی کا خیال آیا جس نے اسے بتایا تھا کہ ان کے پڑوس میں ساربان رہا کرتے تھے اور جب کبھی وہ رات کے کسی پہر سفر کو نکلتے تو ان کی حدی خوانی آس پاس کے گھروں کے مکینوں کو جگا دیا کرتی تھی۔ اس کی دادی نے ایک مرتبہ اسے کچھ ٹوٹا پھوٹا سنایا بھی تھا جو اب اسے یاد نہیں آ رہا تھا۔ اس نے کوشش کی کہ کوئی لوک گیت گائے تاکہ اس کا اونٹ رفتار پکڑ سکے اور سفر جلد کٹ جائے۔ اسے ایک قدیم لوک گیت “ڈورو” کا خیال آنے لگا۔ گو کہ اس میں شادی بیاہ اور رخصتی کا ذکر تھا مگر اس گیت میں آبائی گاؤں چھوڑنے کا درد بھی موجود تھا۔ پھر اسے قدیم عرب شاعروں کا خیال آیا جن کے کلام میں اونٹوں اور صحراؤں کا ذکر ہے، لیکن المیہ یہ تھا کہ عربی زبان سے وہ تقریباً ناواقف تھا، ڈورو اسے ایک ادھ مصرعے سے زیادہ معلوم نہیں تھا۔ اس لمحے اسے احساس ہوا کہ لوک اور قدیم شاعری انسان کو لازماً یاد ہونی چاہیے یہ کیفیات کا ایک جہان لیے ہوتی ہے اور انسان کو اپنی اصل سے جوڑے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
حدی خوانی کا ارادہ ترک کرنے پر اسے رات بہت طویل محسوس ہونے لگی تھی یا شاید ریگستان کی راتیں طویل ہی ہوا کرتی ہیں۔ وہ بہت دیر تک یونہی ریت پر اپنے قدموں کے نشان پیچھے چھوڑتا ہوا چلتا رہا، شب کی یہ طوالت اسے عرب کے ایک قدیم شعر کی یاد دلا رہی تھی جو اس نے بہت مشکل سے یاد کیا تھا، جس کا مفہوم کچھ یوں تھا،
“میں نے اس شب سے کہا، اے ہجر کی شبِ دراز صبح بن کر روشن ہو جا، اور صبح بھی تجھ سے کچھ بہتر نہیں ہے۔
اے رات تجھ پر تعجب ہے، گویا کہ اس کے ستارے نسر کے رسوں کے ذریعہ ٹھوس پتھروں سے باندھ دیے گئے ہیں۔”
اس نے شعر پڑھا ہی تھا کہ اچانک اس کا اونٹ کچھ بے قرار سا ہوا اور اس کی رفتار بڑھنے لگی۔ وہ جو بہت دیر سے نکیل پکڑے چل رہا تھا، اب کی بار اونٹ نے رفتار پکڑی تو وہ فوری اس پہ سوار ہو گیا۔ ریگستان میں مکمل سکوت تھا۔ ہوا اب ساکت ہو چکی تھی اور چاند گدلانے لگا تھا۔ وہ جانتا تھا طوفان سے پہلے گردوپیش پر مکمل سکوت چھا جایا کرتا ہے، اور یہاں بھی کچھ یہی حال تھا۔ اچانک سامنے سے ریت کا ایک غبار اٹھا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان و زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کا اونٹ بدکنے لگا اور ریت اسے اندھا کرنے لگی۔ یہ ریت کا ایسا طوفان تھا کہ اس کا سانس تنگ ہونے لگی، آنکھیں سرخ ہو گئیں اور ہونٹ مکمل خشک۔ اس کا اونٹ کبھی گھبرا کر دوڑنے لگتا اور کبھی رک کر بے چین آوازیں نکالنے لگتا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ صدیوں سے ریگستان میں سفر کرنے والے اونٹ نے اس طوفان کو پہچان لیا تھا جیسے باد سموم کہتے ہیں۔ اسی لیے وہ اب اپنی گردن کو ریت میں چھپانے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ اسی دوران اس نے کچھ فاصلے پر ایک بڑے پتھر کو دیکھا جس کے نیچے کچھ وقت کے لیے چھپا جا سکتا تھا۔ جیسے ہی اس نے دوڑ کر اس بڑے پتھر کے نیچے پناہ لی، اس کا اونٹ بھی کہیں پاس ریت میں خود کو چھپانے کی کوشش کرنے لگا۔ اونٹوں کا اس طوفان میں چھپنا، ریگستانوں کو پار کرنا اور پانی کی خوشبو بہت دور سے ہی سونگھ لینا قدرت کا کیا ہی عجیب معجزہ ہے۔
طوفان تھا کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا اور پھر وہ اپنے حواس کھونے لگا۔ اچانک ریت کا ایک ایسا تیز جھونکا آیا کہ اس کی آنکھیں دیکھنے سے مکمل قاصر ہو گئیں اور اونٹ گھبرا کر کہیں دور گم ہو گیا۔ یہ ریگستانی طوفان یعنی باد سموم بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا، وہ بہت دیر تک رومال سے خود کو لپیٹے بیٹھا رہا۔ نجانے کتنے وقت یہ طوفان برپا رہا اور پھر اچانک سکوت چھا گیا۔ ریت کا طوفان تھم گیا اور وہ دیکھنے کے قابل ہوا تو ٹیلے اپنے مقامات بدل چکے تھے، وہ جس ریگستان میں نکلا تھا اس کا نقشہ ہی جیسے بدل چکا تھا۔ جن ٹیلوں کو وہ نشانیاں سمجھ بیٹھا تھا وہ سب مکمل طور پر اپنا وجود کھو چکے تھے۔ اچانک اسے سامنے ایک ٹمٹماتی روشنی دکھائی دی، جیسے ہی وہ اس روشنی کی جانب بڑھا اک ناگوار سی بو اس کے نتھنوں میں گھسی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔
رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا اور باہر شہر کی میونسپل کمیٹی کا کوڑا کرکٹ اٹھانے والا ٹرک گزر رہا تھا جس کی بو سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ اس نے پاس رکھی عریبین سینڈز نامی کتاب کو ایک طرف رکھا اور پھر کروٹ بدل کر اپنے ادھورے خواب کو سوچنے لگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply