عشق ممنوع۔۔۔۔۔رخشندہ بتول/افسانہ

ناظرین ابھی آپ کوئل کی مدھر  آواز میں خوبصورت گیت سن رہے تھے جس نے یقیناً  آپ کی سماعتوں کو گدگدایا ہوگا۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج حشرات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس خوبصورت دن کی مناسبت سے ہمارے جنگل میں تمام حشرات الارض اور پرند چرند کو مدعو کیا گیا ہے۔ آپ سب نے اپنی آمد سے محفل کی رونق کو چار چاند لگا دیے آپ سب کا بہت شکریہ۔
اب آخر میں پرائیڈ آف پرفارمنس دینے کے لئے میں دعوت دوں گا ہمارے جنگل کے بادشاہ عزت ماب شیر اور ہواؤں کے بے تاج بادشاہ عقاب کو کہ وہ یہ ایوارڈ دینے کے لیے اسٹیج پر تشریف لائیں۔۔۔ اور اب آپ سب کی بھرپور تالیوں میں اس ایوارڈ کے حقدار کو اسٹیج پر بلاؤں گا۔۔۔ تو تشریف لاتے ہیں سائنسی دنیا کے آرڈر Lepedopetrea کی سپیشی insect کا رکن “پتنگا” جسے انگریزی میں moth ادبی اصطلاح میں “پروانہ” یعنی (شمع کا دیوانہ) کہتے ہیں۔ انہیں اس ایوارڈ سے اس لئے نوازا جارہا ہے کہ انہوں نے پروانوں کی لمبی زندگی کے لیے ایک نیا فارمولا تیار کیا۔ جس کے لئے انہوں نے صدیوں پرانی فرسودہ روایات سے انحراف کیا۔ اپنے آباؤ اجداد کی شمع پر مر مٹنے کی خصلت سے بغاوت کی۔ جس کی وجہ سے انھیں ان کے خاندان نے ‏عاق کر دیا، وطن بدر ہوئے مگر انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ جدید دنیا کے باسی ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد کسی شمع کے عشق میں موت کو گلے لگانا نہیں۔ تو اب میں مائیک اپنے بہترین پرفارمر کو دوں گا تاکہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔
“جی آپ سب کی محبت کا بہت شکریہ۔ میں اپنے خاندان سے کسی حد تک شرمندہ بھی ہوں کہ میں نے ان کی روایات کے خلاف آواز اٹھائی مگر صاحبِ صدر میرا خیال ہے کہ جدید دنیا میں اپنا نام بنانے کا سب سے آسان طریقہ بغاوت ہی ہے۔۔۔۔ اچھا یا برا کچھ بھی نیا کرتے رہنا ہی آج کے دور میں زندگی کی علامت ہے۔ مجھے ذاتی طور پر روایت شکن ہونے کا دکھ نہیں۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی صاحب ِصدر اور ہم نسل در نسل اسی شمع پہ قربان ہوتے رہے جس کی مغرور لو ہماری موت پر ملول تک نہیں ہوتی۔ شمع جو ہم جیسے پروانوں کے دم سے جانِ محفل بنی رہی کبھی آپ نے سنا کہ وہ بھی ہمارے موت کے غم میں بجھ گئی ہو ؟
جناب صدر یہ عاشقی کا دور نہیں ہے۔ اب تخلیق کا مقصد فقط بندگی نہیں رہا۔ نئی دنیا میں چاک گریباں بزرگی کی علامت نہیں ہے۔ زندگی کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ میں نے بھی اپنی فطرت میں صدیوں سے خون کی طرح بہنے والے عشق کو سلا دیا ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے نئے اصول وضع کیے ہیں۔ میں رنگ برنگے پھولوں کے نیکٹر کو pollinate کروں گا۔ نئے بیجوں کی تخلیق کا باعث بنوں گا ۔ میرے وجود سے ماحول میں نت نئی خوبصورتیاں متعارف ہوں گی۔ میں یہاں ہال میں موجود تتلیوں اور بلبل کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ چمن سے باہر نکل کے دیکھیں ۔فطری نہ سہی مگر رنگ و بو کے کئی جہان آباد ہیں۔ کئی ایسے قفس ہیں جن میں قید ہونا آپ کو باعث فخر لگے گا۔ اس حیرت کدے میں آپ یوں کھو جائیں گے کہ اپنی محبت کے جذبے کو مار دینے پر آپ کو شرمندہ ہونے کا وقت تک نہیں ملے گا۔”
“قطع کلامی معاف مگر کیا آپ وہ گُر بتا سکتے ہیں جس کی وجہ سے آپ اس قدر کامیاب ہیں ؟ خود کو راغب کرنے کا کوئی حل بھی تو ہو ۔۔۔”
“جی بالکل! ایک ہی اصول ہے………… اندر کے جہان کی بجائے باہر کی دنیا پر فوکس کریں۔حالت شعور سے حالت وجد میں آ جانے کو عشق کہتے ہیں۔ اپنے شعور کو وجدان سے دور رکھیں۔ مانا کہ آپ کچھ کھوکھلے ہو جائیں گے مگر آپ دیکھیں گے کہ اس دنیا سے آپ کی مطابقت کس قدر بڑھ جائے گی۔ اور اس میں نقصان ہی کیا ہے؟ شمع کے عاشق ہزاروں ہیں اس کا جی بہلتا رہے گا۔ کاروبار دنیا چلتا رہے گا اور پروانے بھی بے موت نہیں مارے جائیں گے۔ تتلیاں بھی نئے جہان دیکھیں گی اور گل کو سراہنے والے بھی بہت۔۔ بلبل بھی رنگ رنگ کے چمن دیکھے گی اور چمن کی رونق تو ویسے بھی بلبل کی محتاج نہیں۔۔۔۔ صرف ایک ہی چیز تو اپنے اپنے اندر سے ختم کرنی ہے بس۔۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors

“وہ کیا ؟”
پروانے نے اپنی شیلڈ کو ہوا میں بلند کر کے اونچی آواز میں کہا ۔۔۔”عشق”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply