پیٹ۔ مریم مجید

 

وہ شہر کی سب سے مصروف اور پرہجوم سڑک پر تب سے بھیک مانگتی چلی آ رہی تھی، جب اسے الفاظ سے مدعا بیان کرنا بھی نہیں آتا تھا۔
ان دنوں اس کی مجسم فریاد صورت ، پولیو زدہ سوکھی ہوئی ٹانگ اور منہ پر بھنبھناتی مکھیاں اس کی زبان ہوا کرتی تھیں اور اس کی کھچڑی بالوں اور کلونسی ہوئی رنگت والی ماں زرد کپڑے کے ایک غلیظ ٹکڑے میں اسے لپیٹے ہوئے شاہراہ پر دنیا کی سب سے پراثر فریاد کرنے کے لئیے لٹائے رکھتی تھی۔
“دے جا سخیا راہ مولا” سنتے سنتے جب اس نے ٹانگ گھسیٹ گھسیٹ کر چلنا شروع کیا تو اس کی ماں کو بس ایک ہی فکر لاحق رہتی کہ کہیں وہ گھسٹتی ہوئی فٹ پاتھ سے سڑک پر نہ اتر آئے اور کسی گاڑی کے پہیئے سے چپک کر فرار ہو جائے، لہذا اس نے نائیلون کی سبز ڈوری سے اس کی پولیو زدہ ٹانگ کو لیمپ پوسٹ کے ساتھ باندھنا شروع کر دیا اور فریاد کی اثر پزیری میں تیس فیصد اضافہ ہو گیا۔
یوں تو اس کے تین بہن بھائی اور بھی تھے مگر
ان کی چالاک صورتیں اور صحت مند ٹانگیں ان کی فریاد بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں اور وہ ماں پر اک ان چاہے بوجھ کی مانند تھے۔ کئی بار بخشش دینے والوں کا دامن میلے کچیلے ہاتھوں سے تھامنے پر خود بھی لات کھاتے اور ماں کا دھندا بھی ماٹھا کرتے۔ “مر جاو منحوسو! کمبختو!” وہ انہیں دو دو دھموکے رسید کرکے اپنی سب سے پراثر فریاد، یعنی اسے سامنے لٹا لیتی اور “دے جا سخیا۔” کے کھوٹے سکے فٹ پاتھ سے سڑک تک بکھر کے گول گول گھومنے لگتے اور ماں تیز رفتار گاڑیوں اور ٹریفک کے پاگل ہجوم میں کسی اندھے سپاہی کی طرح بھاگتی ہوئی ان سکوں کا پیچھا کرتی رہتی۔
زندگی، سکے، روٹی، دائرے، وہ سب اس گول چکر سے کبھی نکل ہی نہ پاتے تھے۔ صبح سے شام اور شام سے پھر صبح تک دائرے میں بھاگنے والے زندہ اور متنفس تماشے!
ان ہی تماشوں بھرے دائروں میں گھومتی ہوئی جب وہ سیان پن کی عمر کو پہنچی تو اب اسے علم ہوا کہ اس کی پھٹکار زدہ صورت اور لنگڑی ٹانگ اس کی فریاد کی اثر پزیری کو دوگنا کرنے کی صیلاحیت سے مالا مال ہیں اور اسی خوبی کی بنیاد پر اس کے آگے بچھے کپڑے میں کھنکھناتے شرارتی سکے دیگر بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ اس خوبی کی بنا پر اترائی رہتی ۔ ماں اس پر خاص مہربانی کرتی جب شام میں وہ سکے سمیٹ کر بدرنگی قمیض تلے پہنی بہت سے چیتھڑوں والی بنیان میں محفوظ کرتی تو عموما باقیوں سے نظر بچا کر کوئی گلا سڑا پھل یا باسی بن اسے تھما دیتی جو وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ لیٹے ہوئے کروٹ بدل کر ایسی مہارت سے کھاتی کہ جانوروں کی مانند خوراک کی بو پر پلے بڑھے اس کے چالاک ماں جایوں کو خبر تک نہ ہو پاتی اور یہ مہارت کوئی بیٹھے بٹھائے تو نہیں آ گئی تھی۔
شروع میں وہ سب اس پر بھوکے چوہوں کی مانند ٹوٹ پڑتے تھے اور میلے بڑھے ہوئے ناخنوں سے ایک دوسرے کے سیاہ چہروں پر خون آلود خراشیں چھوڑتے ہوئے جس کے ہاتھ جتنا ٹکڑا آتا، وہ منہ میں بھر لیتا اور وہ بھاگ دوڑ کی صیلاحیت سے محروم شکنجے میں پھنسے چوہے کی سی بے بسی سے ان کو دیکھتی رہتی جو اپنے اپنے نوالے غلیظ دانتوں سے چباتے فٹ پاتھ کے مختلف کونوں میں بکھر جاتے تھے۔
لیکن وقت استاد ہے تو پیٹ استادوں کا بھی استاد ہے۔ مہا گرو ہے ! زندگی کے جو سبق دنیا کی کوئی درسگاہ پڑھانے سے قاصر ہے ، وہ اس چھوٹے سے خلا کی بدولت بہت اچھے سے سیکھ لئیے جاتے ہیں۔ چوری چکاری ہو یا گداگری، جسم فروشی ہو یا ایمان فروشی ، سب کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں اسی پیٹ سے جا ملتے ہیں ۔ سارے دریا اسی چھوٹے سے خلا میں سماتے ہیں۔سو وہ بھی پیٹ کو گرو بنائے سیکھنے لگی اور آہستہ آہستہ ماہر ہو گئی۔
زندگی جو آسودہ حال انسان گزارتے تھے، وہ اپنا انتقام لینے اسے اور اس کے خاندان کو اپنے آگے جوتے ہوئے قہقہے لگا کر بھوک، دھوپ، بارش، سردی اور گرمی کے چھانٹے برساتی تھی ۔ گرمیوں میں وہ پلاسٹک کی شیٹ یا شاہراہ سے اتارے ہوئے مختلف وعدوں پر مبنی بینر کو دو کھمبوں سے باندھ کر سائبان سا تان لیتے تھے اور بارش میں بھیگنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ رہی سردی تو وہ ایک دوسرے سے لپٹ کر کاٹ لی جاتی۔ ان کے لئیے مسلہ پیٹ تھا، چمڑی نہیں لہذا زندگی کے آگے بخوشی جتے رہنے کو تیار تھے جو اگر انہیں نوالہ دستیاب رہتا تو!۔
ایک ایسی ہی سرد اور تاریک رات تھی۔ وہ اپنی بہن اور بھائی کے درمیان گھسی ہاتھ رانوں میں دبائے سردی سے بچنے کے لئیے تقریبا ساکت ہوئی پڑی تھی۔ اس کی پولیو زدہ ٹانگ میں رہ رہ کر درد کی کاٹ دار لہر اٹھ رہی تھی ۔ ماں ان سے کچھ فاصلے پر ایک میلے ٹاٹ کے ٹکڑے میں لپٹی پڑی تھی ۔ رات دھیرے دھیرے بھیگ رہی تھی ۔ وہ بھی آہستہ آہستہ نیند کی آغوش میں جانے کو تھی جب اس کے کانوں میں کسی گاڑی کی بریک کی آواز پڑی اور روشنی کے جھماکوں سے گبھرا کر اس نے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لئیے۔ لمحے بھر کی روشنی کے بعد تاریکی چھا گئی۔
” دو سو روپے بہت ہیں! اور خوشبو والے صابن سے نہا لینا ! کیسی بو آ رہی ہے”۔اس کے کانوں میں کسی آدمی کی آواز گونجی اور پھر خاموشی چھا گئی۔
صبح ٹریفک کے شور نے سڑکوں کو جگانا شروع کیا تو کسی آٹھ پیروں والی بلا کی مانند ایک دوسرے میں پیوست وہ سوکھے سڑے جسم الگ الگ ہونا شروع ہوئے۔
اس نے دیکھا ، ٹاٹ کا ٹکڑا خالی پڑا تھا۔ ماں نہیں تھی۔ “شاید کسی لنگر سے کھانا لینے گئی ہو” اس نے سوچا۔ اس کے بہن بھائی منہ کھول کر جمائیاں لینے کے بعد نزدیکی کچرے کے ڈھیر پر باری باری فراغت حاصل کر رہے تھے۔ اسے ہمیشہ ماں لیجایا کرتی تھی مگر آج وہ کہیں نہیں تھی۔
وہ پیٹ دبائے دہری پڑی رہی۔ آہستہ آہستہ سورج بلند ہوتا گیا۔ دکانیں کھلنے لگیں اور ٹریفک کا شور بڑھتا گیا مگر ماں نہ آئی۔ باقی تینوں ماں سے مایوس ہو کر اپنی اپنی بھوک کے جبڑوں میں رزق دھکیلنے خود سے نکل پڑے اور وہ دہری ہوئی، پیٹ بھینچے وہیں فٹ پاتھ پر پڑی رہ گئی۔
وقت رینگ رینگ کر گزرنے لگا۔ ماں کو نہ آنا تھا ، نہ آئی ۔ کچھ دیر پہلے اس کے جسم نے ہار مان کر جو کچھ اس میں تھا ، وہ خارج کر دیا تھا اور مکھیوں اور بدبو میں بے بس پڑی وہ خاموشی سے آسمان کو تک رہی تھی۔
قریب سے گزرتے لوگ تعفن کی وجہ سے ناک ڈھانپ لیتے اور اس مکروہ نظارے پر نظر پڑتے ہی ان کی طبعیت مکدر ہو جاتی۔ زیرلب بڑبڑاتے اور حکومت کو کوستے کہ ان منحوسوں کو آخر کیوں عوام کی زندگی اجیرن کرنے کے لئیے فٹ پاتھوں پر چھوڑ رکھا ہے؟ خلق خدا گزرتی رہی اور وہ غلاظت میں لتھڑی اپنی ٹانگ کو گھسیٹنے کی ناکام سعی کرتی رہی۔
دن ڈھل گیا اور اس کے حساب سے جب زندگی کی آخری شام آئی تو اس نے ماں کو آتے دیکھا۔ وہ بوجھل قدموں سے چلتی ہوئی آ رہی تھی۔ ہاتھ میں ایک نیلا تھیلا تھا اور چہرہ چٹخا ہوا لگتا تھا۔ جیسے کوئی سیب گاڑی کے پہئے تلے کچلا جائے، وہ کچلی ہوئی روٹی لگتی تھی۔
اس نے پہلے تو اسے کوسا، پھر قریب رکھی گھٹڑی سے کچھ چھیتھڑے نکال کر اسے پونچھ دیا۔
“اماں بھوک لگی ہے” وہ کمزور آواز میں منمنائی تو اس نے نیلے تھیلے سے تندروی روٹی نکال کر اسے تھما دی۔ اس پہ کہیں کہیں سالن کے دھبے تھے۔ وہ بے تابی سے کھانے لگی۔
ایک مکھی بار بار اس کی ناک پر بھنبھنا رہی تھی۔ اس نے روٹی کا بچا ہوا حصہ جلدی سے نگلا اور مکھی کو اپنی دانست میں ٹھینگا دکھا کر مطمئن ہو گئی۔
“تم کہاں گئی تھی اماں”؟ پیٹ میں کچھ جانے کے بعد اسے تھوڑا سکون نصیب ہوا تو ماں کی گمشدگی کا خیال سوال بن کر زبان پہ آ گیا۔
“تجھے کیا”؟ وہ غرائی” ماں لگے ہے تو میری”؟؟
وہ سہم کر خاموش ہو گئی ۔
کچھ دیر بعد ماں نے اپنے ہاتھ میں موجود نیلے تھیلے سے ایک اور روٹی نکالی اور اسے کھانے لگی۔
“دیکھ لڑکی! میری بات غور سے سن” وہ اب نسبتا اچھے لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی۔”مجھے کام مل گیا ہے ایک جگہ۔۔ پیسہ اچھا ملے گا تو میں وہ سڑک پار جھگی ڈال لوں گی۔”اس نے حسرت سے سڑک کے دوسری جانب کچھ فاصلے پر ایستادہ دو چار جھگیوں پر نگاہ ڈالی۔ “اپنی جھگی ہو گی تو پالا اور گرمی اچھے کٹ جائیں گے! ” آواز میں سکوں کی جھنکار آ گئی اور وہ نیم وا آنکھوں سے سڑک پار ان جھگیوں کو دیکھنے لگی جو بانسوں، پھونس اور گارے سے بنی تھیں اور مختلف بوریوں، کپڑے کے پرانے ٹکڑوں اور بینرز سے انہیں مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ چھت اور چار دیواروں کے تصور نے اسے ایسا انوکھا سرور بخشا کہ فٹ پاتھ پر لیٹے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
بھیک کے سکے اور نوٹ سمیٹ کر ماں نے میلی بنیان میں روپوش کئیے اور وہ سب نیلے تھیلے میں موجود آخری روٹیاں نگل کر ٹاٹ کے ٹکڑے پر آٹھ پیروں والی بلا کی مانند آپس میں الجھ کر سو گئے۔
گہری ہوتی رات میں کار کی روشن آنکھیں فٹ پاتھ پر پڑیں اور ان کی روشنی سے بندھی ماں کار میں جا بیٹھی۔
اس نے سوئی جاگی آنکھوں سے اسے جاتے دیکھا اور بازو دھر لیا۔ “بتا تو رہی تھی کہ نیا دھندا مل گیا ہے” ۔ ماں کا سایہ لمبا ہو کر فٹ پاتھ پر گر رہا تھا۔
اس کے بعد تو یہ جیسے معمول بن گیا تھا۔ وہ روز رات کو جاتی اور اگلے دن کے کسی پہر لوٹتی تو ہاتھ میں کھانے کا سامان ہوتا اور اب تو اکثر پرانا مگر صاف ستھرا لباس بھی پہنے ہوتی۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا کہ جھگی میں جا رہنے کا خواب پورا ہونے کو ہی ہے ۔ مگر اس قدر اچھے دھندے کے باوجود یہ اسکا چہرہ تھا جو دن بہ دن چٹختا جاتا تھا۔ جیسے گھٹیا میلے کانچ کو کوئی یوں ٹھوکر پہنچائے کہ وہ بکھر کر الگ تو نہ ہو مگر اس کا ریزہ ریزہ شکستہ ہو جائے۔
سکوں اور روٹیوں کے گول دائروں میں بھاگتی زندگی فٹ پاتھ کے ان مکینوں پر یوں تاک لگائے رہتی تھی جیسے چالاک کوا جانور کی آنکھ میں موت کی دھندلاہٹ دیکھ کر اس کے سرہانے جا بیٹھے اور مرنے کا انتظار کئیے بنا ہی چونچ کو لہو رنگ کرنا شروع کر دے۔ مگر وہ ہشیار تھے کوے کی کھلی چونچ کو سانس کے بھبکے سے ہرا دیتے تھے۔
ایک صبح جب وہ واپس آئی اور اپنے سب بچوں سے بھیک کے سکے اور کوئی کوئی چھوٹا نوٹ سمیٹ کر ایک طرف جا بیٹھی تو اس نے دیکھا کہ اس کی ماں کے چہرے سے کچھ جھڑ جانے کو ہے۔ وہ لیمپ پوسٹ کی روشنیوں جیسی زرد تھی اور سانس اس کی پسلیوں میں آتا جاتا بخوبی معلوم ہوتا تھا۔ “شاید کام زیادہ کرتی ہے” اس نے سوچا اور پھر سامنے سے آتے ایک جوڑے کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگنے لگی۔
اب ماں نے نئے دھندے پہ جانا چھوڑ دیا تھا اور دن بھر بس وہیں ٹاٹ پر بیٹھی خیرات مانگتی رہتی ۔ اس نے سڑک کے پار والی زمین پر جھگی بنانے کے لئیے زمین کے کرائے کے طور پر کچھ رقم بھی پلاٹ کے مالک کے حوالے کر دی تھی اور اب آہستہ آہستہ وہ مختلف لکڑیاں، بانس کی پتلی ڈنڈیاں اور مختلف بینرز جمع کرتی رہتی۔ اپنی قیمتی متاع کو اس نے بہت منت سماجت سے دوسری جھگیوں والوں کے آس پاس رکھوا دیا تھا۔
آہستہ آہستہ سامان پورا ہونے لگا اور ایک دن ماں اور دونوں بھائی پورا دن زمین ہموار کرنے کے بعد ابتدائی ڈھانچہ نصب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
وہ تمام دن بھیک مانگتے ہوئے انہیں کام کرتے دیکھ کر خوش ہوتی رہی اور جھگی کی تکمیل کا سنہرا خواب اس کی میلی آنکھوں میں آئینے کے عکس کی مانند لشکتا تھا۔
گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ گھاس پھونس ملے گارے نے جھگی کے ڈھانچے کو دیواروں کی شکل دینا شروع کر دی۔ ماں اب مزید چٹخ گئی تھی ۔ روٹی بھی کم ہی کھاتی مگر پیٹ مانو بھرا بھرا محسوس ہوتا جیسے کتنی ہی روٹیاں ہضم کر بیٹھی ہو۔ پورا دن وہ مٹیالا سا پانی اگلتی رہتی اور سر لپیٹ کر تھوڑا تھوڑا کام کرتی رہتی۔
جھگی کی شکل نکلنے لگی اور اس کا پیٹ بھی ۔”ضرور کچھ چھپا کر کھاتی ہے ” وہ کھوجتی نظروں سے اس کا پیٹ دیکھتی “قیمے والا نان کھایا ہو گا! یا بوٹی والے چاول۔” وہ تصوراتی خوراکوں کی اشتہا سے بے حال ہوتی اندازے لگائے جاتی اور بھیک کے سکے میلی قمیض کے پلو میں سمیٹتی رہتی۔
جاڑے کے جاتے دن تھے جب آخرکار انہوں نے جھگی کے دروازے پر ٹاٹ لگایا ۔ اب ماں کی قمیض پیٹ سے کچھ اوپر اٹھی رہتی تھی اور صورت پر پھٹکار برستی تھی ۔ “آخر کھاتی کیا ہے “؟؟ وہ سوچ سوچ کر پاگل ہونے کو تھی کہ آخر کار ایسی کیا شے ہے جسے کھانے سے پیٹ اس قدر بھر جاتا ہے۔؟
یہ فٹ پاتھ پر انکی آخری رات تھی اور گارا سوکھ جانے پر صبح انہیں جھگی میں منتقل ہو جانا تھا۔وہ خوشی سے بے حال ٹھیک سے سوئی بھی نہیں اور وقفے وقفے سے گزرتی گاڑیوں کی روشنی کے جھماکے میں اس کی نظر جھگی پر پڑتی تو صبح کا انتظار اسے محال لگنے لگتا۔
مگر ماں کیوں اس قدر بے چین تھی؟ وہ بھی پوری رات کمبھے سے ٹیک لگائے، پیٹ پر ہاتھ دھرے مریل کتیا کی مانند چوں چوں کرتی رہی تھی۔ “پیٹ خراب ہے شاید اسکا” اس نے سوچا “اور کھائے چھپا چھپا کر”۔
سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ انہوں نے دو چار گٹھڑیاں اٹھائیں اور برسوں کے ٹھکانے کو چھوڑ کر جھگی کی نئی نئی عافیت میں داخل ہو گئے۔
ماں سب سے آخر میں آئی تھی۔ کچھ دیر کے شور و غل کے بعد وہ سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر چل دئیے اور جھگی میں وہ اور ماں رہ گئیں۔
وہ زندگی میں پہلی بار کسی چار دیواری میں عجیب سی گھٹن محسوس کر رہی تھی۔ نہ آسمان، نہ سڑک اور نہ ہی آتے جاتے لوگ۔ گیلی دیواروں کی مہک میں قریبی بہتے گندے نالے کی بو بھی رچی تھی۔
ماں نڈھال سی ایک دیوار سے ٹیک لگائے پڑی تھی۔ دروازے پر لٹکے ٹاٹ کے سوراخوں سے چھن کر آتی دھوپ سے زمین پر روشنی کی ٹکڑیاں سی بچھی تھیں۔
“آہ! ہائے! ” اس کے کانوں میں ماں کی کرب میں ڈوبی آواز پڑی۔ “اماں پیٹ دکھتا ہے تیرا” ؟ وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
ماں نے اسکی بات کا جواب نہیں دیا اور کراہوں کے درمیان بولی” منہ دوجے پاسے کر” ۔ وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی تو ماں نے قریب رکھا سلور کا میلا سا کشکول اسے دے مارا “دوجے پاسے ہو” وہ چلائی تو اس نے ڈر کر رخ بدل لیا۔
اب وہ صرف سن سکتی تھی۔ کراہیں، آہیں اور ہچکیاں! ایسی دردناک مانو بکرا حلال ہو رہا ہو۔ وہ کانپتی اور لرزتی دیوار میں گھس جانے کے قریب ہو گئی۔
اور تبھی کراہوں اور آہوں میں ایک ننھی سی چیخ بھی شامل ہو گئی ۔ اس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا تو حیرت سے دیدے پھٹنے کو آئے۔
ایک چھوٹا سا انسان خون میں بھیگا ماں کے قریب پڑا رو رہا تھا۔ خوف کی سرد لہر نے اسے ٹھٹھرا دیا۔
“اماں ! تو بچے کھاتی ہے ! ڈائن ہے تو”؟؟ وہ خوف سے چیختی ہوئی دیوار کھرچنے لگی اور نیا پیٹ روتے ہوئے مری ہوئی ڈائن کو پکارتا رہا۔
سڑک پر “دے جا سخیا” کے سکے چیخوں میں لپٹے ہوئے دور دور تک  گول گول گھومتے ہوئے ناچتے رہے۔

 

Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پیٹ۔ مریم مجید

Leave a Reply