طاقت کے اڑتالیس قوانین-حصّہ اوّل/ندا اسحاق

ہندو مذہب کی کتاب بھگود گیتا (Bhagavad Gita) میں ایک سین ہے جس میں مہابھارت (Mahabharata) کے میدان میں شہزادہ ارجن (Arjuna) اپنے سپاہیوں کے ہمراہ کھڑا ہے، سامنے موجود مخالف گروپ پر نظر ڈالتا ہے تو اپنے خونی رشتوں، دوستوں اور عزیزواقارب کو اپنی مخالفت میں پاتا ہے۔ انہیں دیکھ کر ارجن جذباتی ہوجاتا ہے، پریشانی اور اضطراب میں پوچھتا ہے کہ کیا اچھائی ہے اور کیا برائی ہے؟ اس سب کا فیصلہ کون کرتا ہے؟؟ اور کیا میری زندگی کا یہی مقصد ہے؟؟
کرشنا، ارجن کے اضطراب کو دیکھ کر جواب دیتا ہے:
“اس کائنات میں ہر شے (ہر مخلوق) کا ایک منفرد “دھرما” (Dharma) ہوتا ہے، ایک راستہ جس پر اسے چلنا ہوتا ہے اور اسکے فرائض جو اسے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ اگر راستہ معلوم ہوتو چاہے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو تم ہر شک اور شبہ سے آزاد اپنے سفر سے لطف اندوز ہوسکو گے، اور اگر اپنے دھرما یعنی راستے سے ہٹ کر کسی اور کے بتائے رستے پر چلو گے تو کائنات کے بنائے ہوئے توازن کو خراب کردو گے اور کبھی بھی سکون اور مسرت محسوس نہیں کر سکو گے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تمہارا راستہ کیسا ہے اور کیا ہے بس تمہیں اس پر چلنا ہے۔ ایک دھوبن جو اپنے راستے(یعنی اپنے کام سے) سے واقف ہے اور اس پر گامزن ہے اس شہزادے سے ہر لحاظ سے برتر ہے جو بھٹک چکا ہے اور اپنے فرائض کو انجام دینے سے بھاگتا ہے۔”
کرشنا کا جواب سن کر ارجن اپنے جذبات پر قابو پاتا ہے اور سمجھ جاتا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ وہ تلوار اٹھاتا ہے، اپنے خونی رشتوں اور دوستوں کے سر قلم کرتا، ان کی لاشوں پر سے گزر کر “جیت” اور “طاقت” کا تاج اپنے سر پر سجاتا ہے، شہزادہ ارجن، یودھا ارجن کہلاتا ہے اور ہندو مذہب کا ہیرو بن جاتا ہے۔
ایسے ہی حالات کا سامنا حضرت محمدﷺ کو بھی رہا ہوگا جب انکی مخالفت میں سب سے زیادہ پیش پیش انکے اپنے خونی رشتے تھے لیکن محمدﷺ کو فرائض انجام دینے تھے، حق کی آواز بلند کرنی تھی، جذبات سے بالاتر ہوکر فیصلے لینے تھے۔
بیشک “طاقت” کا کھیل خطرناک اور خون خرابے سے لت پت رہا ہے اور اس کھیل میں جذبات کے لیے کوئی جگہ نہیں —— ایسا کہتے ہیں کتاب “فورٹی ایٹ لاز آف پاور” کے لکھاری رابرٹ گرین۔
نظام کوئی بھی ہو یا انسان کوئی بھی ہو، تہہ میں پاور کا حصول ہی ہوتا ہے، پاور اپنے آپ میں “غیر جانبدار” (neutral) ہوتی ہے، اچھائی ہو یا برائی، دونوں کو خود کو منوانے کے لیے “طاقت” کی ضرورت ہوتی ہے ۔ رابرٹ گرین نے قدیم چائنہ اور باقی مختلف ادوار سے دانش (wisdom) کو اکھٹا کرکے پاور کے اڑتالیس اصول پر مبنی کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب پر مختلف جگہوں پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ مجھ جیسی عام اور اوسط درجے کی عورت کو اس کتاب کو پڑھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور میں آپ سب کے ساتھ یہ اصول کیوں شیئر کررہی ہوں؟ مجھے اس کتاب کا ریویو دینے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کتاب میرے نظریات سے میل نہیں کھاتی، میں زندگی کو اس کتاب میں بیان کردہ اصولوں کی نظر سے ہرگز نہیں دیکھتی، لیکن وہ زندگی ہی کیا جس میں آپ مخالف نظریات کو پڑھ کے اپنے ‘صبر’ کو نہ آزمائیں!
مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ کبھی کبھار ہمیں معاملات کا دوسرا رخ دیکھنا اور تلخ(البتہ حقیقت تلخ یا شیریں نہیں ہوتی وہ بس حقیقت ہوتی ہے) باتوں کو بھی پڑھنا اور سننا چاہیے۔ وہ سب سننا چاہیے جسے سن کر ہمارے حوصلے پست ہوتے ہوں، کیونکہ حقیقت جیسی ہے وہ ویسی ہے اور ہمارے سامنے کھڑی ہے، لیکن مسئلہ حقیقت میں نہیں بلکہ ہماری توقعات میں ہوتا ہے، مسئلہ ہمارے دماغ کے بنائے خیالی پلاؤ میں ہوتا ہے جو حقیقت سے میل نہیں کھاتا۔ یہ کتاب بیشک سو فیصد حقیقت پر مبنی نہ ہو لیکن یہ کتاب پڑھ کر ہمیں کسی حد تک اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ‘دنیا کیسی ہے ‘ نہ کہ ‘دنیا کیسی ہونی چاہیے’۔
رابرٹ گرین کو اس کتاب کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے، لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ اس سے شر اور شیطانیت پھیلا رہے ہیں۔ لیکن رابرٹ کہتے ہیں کہ جو حسین اور متوازن دنیا اکثر مثبت کتابوں میں دکھائی جاتی ہے وہ انہیں زندگی کے ساٹھ سالوں میں کبھی دیکھنے کو نہ ملی۔ رابرٹ نے ہر قسم کی جاب کی ہے، یہاں تک کہ مزدوری (construction worker) بھی کی ہے اور بقول رابرٹ کے کہ لوگ ہمارے معاشرے، لوگوں اور دنیا میں چل رہے نظام کی اصلیت (منفی رخ) پر بات نہیں کرتے، رابرٹ کہتے ہیں کہ یہ کتاب لکھنے کا مقصد یہی تھا کہ لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ کس طرح حکمران، مشہور شخصیات ، رہنما/پیشوا، دفتر، روزمرہ زندگی حتیٰ کہ گھروں میں بھی انسان دوسرے انسانوں کو کنٹرول اور ہنر مندی سے استعمال (manipulate) کرتے ہیں۔
ایک اور بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کتاب میں بہت خوبصورتی سے تاریخ سے نہایت ضروری اور متنوع (diverse) معلومات لے کر شائع کی گئی ہیں جنکا کسی ایک کتاب میں ملنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، مغربی فلسفہ (خاص کر نطشے کے فلسفے اور میکیاویلی کے نظریے کو مدِ نظر رکھ کر لکھا گیا ہے اس کتاب کا مواد) اور قدیم ہندو، قدیم چائنیز (سن سو کی کتاب ‘دا آرٹ آف وار’)، ابراہیمی مذاہب (اسلام، یہودیت، عیسائیت) ، سے لیے گئے قول اور فرضی قصے (fables) اس کتاب کو مزید مرغوب (interesting) بناتے ہیں، اور یہی وجہ کہ مجھے یہ کتاب بہت پسند آئی، کیونکہ تاریخ کے اتنے اہم اور سبق آموز واقعات کا ایک ہی کتاب میں ملنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔
ایک اور دلچسپ بات کتاب کے متعلق یہ ہے کہ ہر اصول کا الٹ اور اس کے استعمال کی زیادتی کے نقصان بھی بتائے ہیں جسے جاننے کے لیے آپ کو کتاب کا مطالع کرنا ہوگا۔ میں بس سرسری طور پر بیان کروں گی آپ کے تجسس (curiosity) کو چنگاری دینے کے لیے۔ آئیے ان اصولوں کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
(بہت سے لوگوں نے یہ کتاب یقیناً پڑھی ہوگی، کیونکہ اس قسم کا مواد انسانوں کو بہت پرکشش لگتا ہے)
جاری ھے۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply