بنیاد(حصّہ اوّل)۔۔وقاص رشید

مولوی صاحب نے جوشِ خطابت سے کہا ، فیملی پلاننگ حرام ہے ۔ یہ مسلم اُمہ کے خلاف سازش ہے، یہودو نصاری ٰکی سازش، تاکہ مسلمانوں کی تعداد کم ہو اور مسلمان غلبہ نہ پا سکیں اور یہودو نصری ان پر حکومت کرتے رہیں ۔ ہمارے نبی ﷺ  نے تو اپنی امت کی تعداد بڑھانے کا حکم دیا ہے،بھائیو!  ہم نے ان سازشی عناصر کو کامیاب نہیں ہونے دینا کیونکہ مسلمان کا تو ایمان ہوتا ہے کہ پتھر میں بھی کیڑے کو رزق دینے والا رازق و رزاق خدا نے ہر جاندار کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہےِخدا ہی پیدا کرتا ہے اور وہ ہی رزق دیتا ہے،قرآن مجید میں بھی آتا ہے کہ رزق کی تنگی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ اس لیے فیملی پلاننگ حرام ہے،حرام ہے ۔ نعرہ تکبیر۔ ۔ اللہ اکبر ۔مولوی صاحب کے وعظ کے اختتام پر ایک پُر جوش نعرہ لگا۔ نعرہ لگانے والا خدا بخش تھا ۔

خدا بخش ایک رکشہ ڈرائیور تھا،بچوں کو سکول چھوڑنے جاتا تھا،ثاقب کے بچوں کو بھی سکول لے جانے اور لانے کی ذمہ داری اسکی تھی،ثاقب اسی محلے میں رہتا تھا، ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتا تھا، اسکے دو بچے تھے۔ ثاقب اور خدا بخش بچپن کے کلاس فیلوز بھی تھے،ثاقب بھی مولوی صاحب کا جمعہ کا یہ وعظ سن رہا تھا اور اندر ہی اندر کڑھ رہا تھا  کہ علیم الحکیم خدا کا “افلا یتدبرون ” کا دین کن جوشِ خطابت کے مارے ہوئے محدود فکری استعداد رکھنے والوں کے ہاتھ میں ہے کہ ایک ہی سانس میں بہت ساری چیزوں کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹا کر اپنے وعظ میں شامل کر کے ایک ایسا بیانیہ بناتے ہیں جو چند بنیادی سوالوں کے سامنے ہی ریت کی دیوار ثابت ہو  لیکن اندھی تقلید کے عادی اس پر اپنی زندگیاں استوار کر کے معاشرتی مسائل کا شکار ہوتے بھی ہیں دوسروں کو کرتے بھی ہیں ۔

خدا بخش کے پانچ بچے تھے۔ وہ اکثر ثاقب سے پیسے ادھار لیتا رہتا تھا کبھی بیوی کی بیماری، کبھی کسی بچے کی طبیعت خراب اور کبھی رکشے کا کام،خدا بخش ہر بار پیسے لیتے ہوئے کہتا بچوں کی رکشہ فیس سے کاٹ لیجیے گا بے شک۔۔ ۔ لیکن مہینے کے آخر پہ پھر لجاجت بھرے لہجے میں کہتا وہ دراصل ثاقب بھائی مجبوری ہے، گزارہ نہیں ہوتا، ابھی پورے دے دیں ہفتہ دس دن میں واپس کر دوں گا اور وہ ہفتہ دس کبھی نہ آتے، ثاقب بھی اپنی خدا ترسی کی وجہ سے اسے دوبارہ نہ کہتا۔

جمعہ پڑھنے کے بعد ثاقب گھر آیا تو اِدھر اُدھر کی گپ شپ کے بعد اسکی بیگم طاہرہ نے ثاقب سے کہا کہ خدا بخش کی بیوی آئی تھی، بے چاری کی صحت ٹھیک نہیں رہتی ۔اس نے مجھے اپنی تصویریں دکھائیں جب بیاہ کر آئی تھی تو تب اور اب میں زمین آسمان کا فرق ہے، بیس سال کی تھی جب اسکی شادی ہوئی، دس سال میں زبردستی پانچ بچے پیدا کر لیے  اور اب اپنے آپ سے بھی گئی۔۔  ثاقب نے ایک دم بیگم کی طرف استفساریہ نگاہوں سے دیکھا اور کہا ۔ زبردستی مطلب ؟۔ وہی مطلب جو آپ سمجھ رہے ہیں، خدا بخش کی بیوی سعیدہ ایک باشعور لڑکی تھی ۔ ایف اے تعلیم بھی تھی۔  بس والدین نے آپکے میٹرک پاس کلاس فیلو سے خاندان میں رشتے اور بچپن کی منگ ہونے کی وجہ سے شادی کر دی،وہ خدا بخش سے کہتی ہے،ہم کیوں نہ چادر دیکھ کر اپنے پاؤں پھیلائیں، اپنا کنبہ وسائل کے مطابق رکھیں تو وہ اس پر خدا بخش غصے میں آ جاتا ہے اور اسے ایمان کی کمزوری سمجھتے ہوئے سعیدہ کی بے عزتی کرتا ہے، نتیجتاً وہ بے چاری اپنی زندگی اور صحت کی لگان سے خدا بخش کے ایمان کا تاوان بھرتی ہے۔ اب خدا بخش کی بچی ابھی مشکل سے ڈیڑھ سال کی ہے اور وہ چھٹے بچے کے لیے سعیدہ سے فرمائش کر رہا ہے،ثاقب کو تو جیسے کرنٹ لگا۔۔ کیا آپ بے چاری سعیدہ کا نام لئے بغیر کسی طریقے سے اسے سمجھا نہیں سکتے پلیز ۔ بہت دکھی تھی بے چاری۔  ثاقب نے اپنی بیگم کو مولوی صاحب کے وعظ کے متعلق بتایا، تو طاہرہ کو بہت افسوس ہوا۔  کہنے لگی کتنے افسوس کی بات ہے۔  اپنی غلط فہمِ دین کے نتیجے میں معاشرے کی بُنت ہی تباہ کر دینا کونسی دینی خدمت ہے ۔ صد افسوس !  ثاقب نے کہا میں کچھ کرتا ہوں، طاہرہ کہنے لگی پلیز اسکا نام نہ آئے۔ ثاقب نے کہا، نہیں آئے گا بھئی۔ میں سمجھتا ہوں۔

شام کو ثاقب اپنے منصوبے کے مطابق گھر سے نکلا تو اتفاق سے ثاقب کے رکشے پر مولوی صاحب سوار تھے ثاقب نے بھی ہاتھ دیا اور بیٹھ گیا۔  مولوی صاحب سے سلام دعا کے بعد ثاقب کہنے لگا۔  اچھا ہوا آپ مل گئے، میں نے کچھ اہم بات کرنی ہے،اگر آپ کے پاس وقت ہو تو کہیں بیٹھتے ہیں، ثاقب بازار سے واپسی پر انہیں گھر ہی لے آیا اور طاہرہ سے کھانا تیار کرنے کو کہا ۔

چائے ان دونوں کے سامنے رکھتے ہوئے  ثاقب نے اپنے منصوبے کے مطابق سیدھا سوال تیر کی طرح مولوی صاحب سے پوچھتے ہوئے کہا ۔ حضرت صاحب مسجد کی توسیع کیوں کروا رہے ہیں  ؟  مولوی صاحب کہنے لگے بھئی آپ تو جانتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے نمازیوں کی تعداد ماشاللہ زیادہ ہے اور جگہ کم اس لیے توسیع ضروری ہے۔۔ ثاقب نے کہا جی بہتر،تو توسیع کو اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے  ؟ مولوی صاحب نے داڑھی میں خلال کرتے ہوئے کہا کہ وہ دراصل اخراجات زیادہ ہیں اور چندہ اب لوگ اس طرح سے دینے سے قاصر ہیں۔  لوگوں کی بھی مجبوری ہے۔  غربت بڑھ گئی ہے،مہنگائی بھی ہے  لیکن یہ سب دین سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ بہرحال حاجی اکرام صاحب نے امید دلائی ہے کہ انکا بیٹا یورپ سے پیسے بھیجے گا تو وہ اور کچھ اور لوگ خدا کے گھر کی تعمیر مکمل کروائیں گے اور بدلے میں جنت میں اپنا محل پکا کروا لیں گے۔۔  ثاقب نے کہا مولوی صاحب اگر بُرا نہ منائیں تو اپنے علم کے لیے ایک سوال کر لوں؟ یہ آپ انسانوں سے کیوں اپیل کرتے ہیں۔  اللہ تعالیٰ نے آبادی بڑھائی ہے، وہی اپنا گھر بھی وسیع کر دے گا۔۔ ؟ ؟مولوی صاحب نے اب ذرا سنجیدہ نگاہوں سے ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، وسیلہ تو انسان ہی بنتے ہیں ناں برخوردار۔۔  اب خدا کیا اینٹیں بجری سیمنٹ بھیجے گا۔  کیا بات کر رہے ہیں۔  ؟

ثاقب نے کہا محترم و معزز مولانا صاحب ۔ ناراض مت ہوئیے گا۔۔  آپ نے جو دن خدا کے اپنے گھر کی پلاننگ ،توسیع اور اسے چلانے کے اخراجات کی ذمہ داری تو انسانوں ہی کو اور درست طور پر لینی پڑتی ہے اور لینی بھی چاہیے تو پھر انسانوں کے گھروں میں مستقل قیام پذیر انسانوں کی ذمہ داری خدا پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ ۔یہاں اینٹیں بجری سیمنٹ خدا نے براہِ راست نہیں بھیجنا تو وہاں ایک مخصوص اور محدود آمدنی میں کھانے والوں کی تعداد بڑھاتے رہنے سے خدا کیسے براہِ راست معاون بن جاتا ہے ۔جب خدا کے گھر میں جگہ اور وسائل کم پڑتے ہیں جن کی ذمہ داری انسانوں کو لینی پڑتی ہےآبادی بڑھنے سے غربت بڑھتی ہے وسائل کم ہوتے ہیں ایک مسجد یعنی خدا کے گھر کو تعمیر کرنے میں سالہا سال لگ رہے ہیں ۔ حاجی اکرام صاحب جنت میں محل سے زیادہ مسجد میں اپنے نام کی تختی کے لیے پیسوں کا وعدہ کر رہے ہیں ، تو جب ایک گھر کی آبادی بڑھے گی  اور آمدن اتنی ہی ہو گی  تو وہاں پر گھر کی توسیع کون کرے گا۔؟ خدا کے گھر کے لیے پلاننگ حلال ہے جہاں لوگوں کا قیام عارضی ہے تو انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ اپنے گھر کے لیے پلاننگ حرام کیوں؟ جہاں انسانوں نے مستقل رہنا ہے؟؟ ۔ مولوی صاحب نے کہا بھئی رزق کی ذمہ داری تو خدا کی ہے ۔ کیا آپ اس سے انکار کرتے ہیں ۔؟

اس پر خدا بخش نے لقمہ دیا۔  بے شک۔۔  بے شک ۔ ایک لحظے کو ثاقب کو شدید غصہ آیا اور اسے لگا کہ اس سے سیدھا سیدھا پوچھے کہ رزق کی ذمہ داری اگر اس طرح سے خدا کی ہے تو بچہ پیدا کرنے کے لیے مطلوبہ خوراک نہ ملنے پر اسکی بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کی صحت بھی کیوں تباہ ہوئی؟ ۔پچھلی دفعہ جب میری بیوی تمہارے بڑے بیٹے کو ڈاکٹر کو دکھانے تمہاری بیوی سعیدہ کے ساتھ گئی تو ڈاکٹر نے اسے غذائی قلت کی وجہ سے stunted growth کا شکار کیوں قرار دیا ؟اگر رزق کی ذمہ داری واقعی اسطرح سے خدا کی ہے جیسے تم کہہ رہے ہو تو تمہیں مجھ سے ادھار کیوں لینا پڑتا ہے اور کون واپس نہ کر سکنے پر کہتا ہے گزارہ نہیں ہوتا۔ لیکن ثاقب کو وہ حکم یاد آ گیا کہ جسکے مطابق احسان جتلانا کبیرہ گناہ ہے ۔سو ثاقب نے خدا بخش سے صرف اتنا کہا کہ اگر رزق کی ذمہ داری خدا کی ہے تو پاکستان میں کروڑوں بچے چائلڈ لیبر child labour کیوں کرتے ہیں۔؟  اور کروڑوں ہی غذائی قلت کا شکار کیوں ہیں ۔ ؟

اس پر خدا بخش نے جزبز ہوتے ہوئے مولانا صاحب کی طرف دیکھا اور انہوں نے زوردار لہجے میں کہا ۔ یہ خدا پر توکل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔  وہ تو پتھر میں کیڑے کو رزق پہنچا دیتا ہے  اور ویسے بھی یہ اہلِ مغرب کا نعرہ ہے کم بچے خوشحال گھرانہ۔  اور اسی یہودی لابی کی این جی اوز وغیرہ آپکے موبائلوں پر اسطرح کی گمراہ کن باتیں پھیلاتے ہیں۔ ۔جب خدا نے قرآن میں کہہ دیا کہ یہودو نصری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے تو بس بات ختم۔ کروڑوں مخلوقات کو کھلا کر سلانے والا رازق و رزاق اللہ ہی ہے۔  ثاقب نے اپنے جذبات کو قابو کرتے ہوئے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا۔  مولوی صاحب یہ پھاٹک کے پاس موٹر سائیکلوں کی دکانوں پر 50 سے 100 روپے روزانہ پر کام سیکھتے ہوئے معصوم بچے کیا یہودو نصری نے کام پر لگائے ہیں؟  خدا آپکی تفہیم کے مطابق رازق ہوتا تو انہیں چند رزق کے دانوں کے لیے کتابیں پکڑنے والی عمر میں یہ چابی پانہ کیوں پکڑنا پڑتا؟ ۔خدا کے آسرے پر پیدا کیے جانے والے یوں بے آسرا کیوں ہیں؟  کیوں یہ اپنے نام سے بلائے جانے کی بجائے “چھوٹے” کی عمر بھر کی تذلیل کا شکار ہوتے ہیں۔ کیسے سنگدل ہیں وہ باپ جو خدا کے رازق ہونے کی آپ والی فکر پر بچے پیدا کرتے ہیں  اور جب انہیں رزق کھلانے کی ذمہ داری کا وقت آتا ہے تو الٹا ان سے چائلڈ  لیبر کروا کر انکے سو پچاس سے اپنے فکری قحط کا پیٹ پالتے ہیں۔

اتنی دیر میں اندر سے طاہرہ نے دستک دی۔۔ میں ذرا کھانا لے کر آتا ہوں، آپ تشریف رکھیں۔۔ یہ کہہ کر ثاقب اندر چلا گیا ۔ طاہرہ نے اندر آتے ہی مسکراتے ہوئے کہا ۔ آپ نے بہترین منصوبہ بنایا۔  مولوی صاحب کو تو مشکل ہے خدا کرے خدا بخش بھائی کو عقل آ جائے۔  جزاک اللہ شکریہ کھانا تیار ہے۔

کھانا رکھتے ہوئے مولوی صاحب نے کھانے کی طرف انتہائی رغبت سے دیکھتے ہوئے ایک رسمی جملہ بولا یہ تو آپ نے اتنا ڈھیر سارا تکلف کیا  ،اتنے کی کیا ضرورت تھی ۔ ہم تو سادہ خوراک کے عادی ہیں چلیں ماشااللہ دانے دانے پر لکھا ہے کھانے والے کا نام ۔کھانے کے دوران کوئی گفتگو نہ ہوئی اور مولوی صاحب نے صحیح اپنے سادہ کھانا کھانے کے دعوے کی دھجیاں اڑائیں۔

کھانے کے بعد مولوی صاحب نے کہا اب چلنا چاہیے آپ بھی آرام کریں عشا ء کا وقت بھی ہونے کو ہے ۔ ثاقب نے کہا،بس قہوہ پیتے جائیں ۔ یہ کہہ کر ثاقب اندر چلا گیا اور قہوہ ڈرائی فروٹ اور گجریلے کے ساتھ واپس آیا تو مولوی صاحب نے عشاء کی نماز قضا پڑھنے کا “شرعی عذر” نکال ہی لیا اور ثاقب چاہتا بھی یہی تھا ۔

ثاقب نے کہا۔۔  مولانا! انتہائی ادب کے ساتھ میں دین کا ایک ادنی سا طالبِ علم ہوں۔  چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا حکم دیتا دین کیوں یہ چاہے گا کہ مسلمان اپنے وسائل کی چادر دیکھ کر اپنے کنبے کی چادر نہ پھیلائے ۔؟  مولوی صاحب نے کہا کہ بھئی جنہوں نے چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا حکم دیا انہوں نے ہی اپنی امت بڑھانے کے لیے زیادہ بچے پیدا کرنے کا ارشاد فرمایا ۔ ثاقب کو اس بات کی توقع اور انتظار تھا۔  ثاقب نے چھوٹتے ہی کہا ۔ مولوی صاحب آپ تو اکثر سیاق و سباق کی اہمیت پر زور دیتے ہیں آج دن کے خطبے میں بھی آپ نے بہت سی باتیں سیاق و سباق سے ہٹ کر ایک ہی جگہ مجتمع کر دیں اپنے بیانیے کو مضبوط بنانے کے لیے حالانکہ اس سے علمی و فکری طور پر بیانیہ کمزور ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ  نے اس قبائلی نظام میں جہاں تبلیغ کرتے ہوئے کافی عرصہ بیت چکا تھا اور اب افرادی قوت کی ضرورت تھی دفاع کی مضبوطی اور دیگر امور کے لیے  یہ حکم اس خاص تناظر میں تھا ۔آج ملک و قوم تو خود محدود وسائل کی وجہ سے آبادی کو قابو کرنے کی طرف راغب ہے۔ مولانا صاحب نے واضح طور پر لا جواب ہوتے ہوئے کہا۔  بھئی علما  کرام نے زندگیاں لگا دیں۔ آپ صرف موبائل اور فیس بک کا علم رکھتے ہیں۔۔ دین کے راستے میں وقت لگائیں اگر اتنا آسان ہوتا تو آپ موبائل پر ہی ڈاکٹر اور انجینئر نہ بن جاتے۔

ثاقب کے لیے یہ تاویلات کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھیں  اس نے آخری کوشش کے طور پر کہا ۔ جناب دین ہر انسان کو خود غورو فکر کرنے کا حکم دیتا ہے ” افلا یتدبرون ” کیا تم غورو فکر نہیں کرتے۔۔۔ہر انسان پر لاگو ہے ۔ مجھ پر آپ پر خدا بخش پر ہر انسان نے اپنی تحقیق کے نتیجے میں اپنا ذاتی علم و عمل خدا کے حضور پیش کرنا ہے۔  یہ سوالات تو خدا بھی پوچھے گا اب میں اور خدا بخش یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہماری سوچنے کی ذمہ داری مولوی صاحب نے لے لی تھی ۔یہ کہہ کر ثاقب نے قہقہہ لگایا تاکہ ماحول کو ذرا لطیف بنایا جاسکے۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply