ایلدار اوغلو/امجد فاروق

ابھی اس اجنبی سر زمین پر آئے چند دن ہی ہوئے تھے۔ بڑی مشکل سے بھاگ دوڑ کر کے سر چھپانے کی جگہ میسر آئی اور ڈھنگ سے سانس لینے کا موقع بھی نہیں ملا تھا کہ کلاسیں شروع ہو گئیں۔ خواہش تو تھی کہ کچھ روز کا اور وقت ملتا تو شہراور مضافات کی اچھے سے سیاحت کر لیتا۔ کچھ علاقے کی خبر ہو جاتی اور کچھ لوگوں کوجانچ پرکھ لیتا۔ خیر علی الصبح اٹھا، جیسا تیسا ناشتہ کیا اور بھاگم بھاگ کلاس کی راہ لی۔ پہلا دن اور کمرۂ جماعت ڈھونڈنے جیسا جانکاہ مرحلہ، آدھ گھنٹہ پہلے آنے کے باوجود بھی پانچ منٹ اوپر تھے جب مطلوبہ کمرہ ملا، جو کچھا کھچ بھرا تھا۔ کمرہ کیا ہال کہیے۔ سیڑھی نما اٹھانوں پر بنچ دھرے تھے اور آخری قطار سے استاد صاحب کسی بونے جتنے ہی دکھائی دے پاتے تھے۔ آواز البتہ آخری کونے میں بھی بہت صاف تھی کہ مائک اور ساؤنڈ سسٹم شاندار تھا۔
گھسا گھسی کر کے آخری قطار کے ایک بنچ پر میں نے بھی جگہ بنا لی اور ہمہ تن گوش ہو گیا۔ کلاس ختم ہوئی تو پہلی سے آخری قطار تک طائرانہ نظر دوڑا کر سب ہم جماعتوں کا جائزہ لیا۔ جن حضرت کے پہلو میں مجھے جگہ ملی تھی وہ ایک گیسو دراز، تزئین و آرائش سے تائب اور ملنساری سے ماورا صاحب تھے۔ خیر یہاں یہی سکہ رائج الوقت تھا۔ میں نے مختصراً اپنا حدود و اربعہ اور مسکن و وطن ان کے گوش گزار کیا اور ان کے تعارف کا خواہاں ہوا تو جناب نے اپنا نام ایلدار اوغلو بتا کر سرکنا چاہا۔ آہا، ہمارے ترک بھائی۔ میری باچھین کھل گئیں اور مزید جاننے کے لئے ہمارا اگلا سوال سننے سے پہلے ہی بھائی صاحب شکریہ کہہ کر چل دئیے۔

باقی ہم جماعتوں کے مقابلے میں علم کے حوالے سے چونکہ میں کم لالچی واقع ہوا تھا لہذا جس وقت میں پہنچتا تو آخری قطار میں ہی جگہ مل پاتی یا کبھی کبھار تو سیڑھیوں پر ہی بیٹھنا پڑتا۔ اس سبب سے ایلدار سے اکثر دعا سلام ہونے لگی کہ اسے بھی روح کی بیداری سے نیند کی خماری زیادہ عزیز تھی سو وہ بھی دیر سے آتا۔ بلکہ اب تو کبھی کبھار ہم دوپہر کے کھانے کے لئے بھی اکٹھے چلے جاتے۔ اس دوران ادھر اُدھر سے معلومات لے کر میں نے طلباء ہاسٹل کے لئے جو عرضی ڈالی تھی اس کی بھی شنوائی ہو گئی۔ میں نئے ٹھکانے پر اٹھ آیا تو ایک اچھی چیز یہ بھی پتہ چلی کہ ایلدار بھی اسی بلڈنگ میں مقیم تھا۔ ہر چند کہ اس کا گھر بھی اسی شہر میں تھا لیکن شاید آزادئ اظہار و عمل کی خاطر اس نے ہاسٹل میں قیام کو ترجیح دی تھی۔ یہ ایسی رونق بھری جگہ تھی کہ ہمہ دم محفل جمی رہتی۔ اتنے غیر ملکی طلباء اور ان سے ہر شام گفت و شنید اور کبھی کبھار بحث مباحثہ بھی رہنے لگا تودل و دماغ بھی رنگا رنگ معلومات سے بھرتے گئے اور مزاج نکھرتا گیا۔

ایلدار بھی ان محفلوں میں حصہ لیتا لیکن بلا ناغہ نہیں۔ میری زیادہ سنگت برازیلی اور ایک بنگلہ دیشی کے ساتھ رہتی جو روز مشترکہ کچن کو اپنے علاقائی کھانوں کی مہک سے دہکائے رکھتے۔ جمعہ اور ہفتہ کی شام تو گویا ایسی جگہوں پر عید کا سماں ہوتا ہے۔ بھانت بھانت کے لوگ، پہناوے، کھانے، بولیاں، مسائل، عقائد، اور عزائم۔ کبھی بحث سیاسی رُخ بھی اختیار کر لیتی لیکن دیارِ غیر میں ہونے کی خوبی یہ تھی کہ کوئی تلخی نہ ہو پاتی۔ اختلاف کے ساتھ احترام البتہ اپنی جگہ برقرار رہتا۔ اب تو سبھی کو ایک دوسرے کی پسند، نا پسند، مذہبی رجحان، سیاسی دلچسپیاں اور دوسروں کے ملکی مسائل ازبر ہو چکے تھے۔ تبھی جب کبھی ایلدار شریکِ محفل ہوتا تو سب سوالات کا رُخ اسی کی طرف ہوتا۔ ایسی ہی محفلوں سے ہم پر کُھلا کہ اس کا باپ ساٹھ کی دہائی میں نو عمری میں ہی ترکی میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں جرمنی آن بسا تھا۔

تاریخ کے مطابق تو اس کا باپ ترکی سے کان کنی کی غرض سے آنے والے مزدور پیشہ لوگوں کی کھیپ کے ساتھ یہاں وارد ہوا تھا جو کثیر تعداد میں جنوبی جرمن صوبے کی کوئلے کی کانوں میں کام کرنے کی غرض سے بلائے گئے تھے۔ لیکن ایلدار کے بقول کیوں کہ اس کا باپ متعدد بار لڑائی جھگڑے اور چوری چکاری میں پکڑا گیا تھا اس لئے اس نے سر زمین بدل کر اس میدان میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، لیکن یہاں تو دنگے اور چوری کے لئے حالات ترکی سے بھی بدتر تھے۔ تو اس لئے اس کے باپ نے مجبوراً کان میں مزدوری شروع کر دی۔ وہاں سے ہوتے ہواتے بعد ازاں اس نے ترک کھانوں کا ریستوران کھول لیا اور اب اسی کے سبب ایلدار معاش کی کلفتوں سے بے نیاز تھا اور بقدرِ ضرورت پڑھائی کر کے باقی وقت عیاشی یا دیگر سرگرمیوں میں   گزارتا۔

اس کی یہی طبیعت تھی جو ہفتہ بھر کی نیم دلانہ پڑھائی کے بعد اسے اختتامِ ہفتہ کے لئے جی جان سے جشنِ فراغت کے لئے ابھارتی۔ یہی وجہ تھی کہ اختتامِ ہفتہ کے آغاز پر آخری کلاس سے نکلتے ہی جانے کہاں سے بئیر کی بوتل اس کے ہاتھ میں آ جاتی۔ جیسے آسمان سے ٹپک پڑتی ہو۔ خیر اس موقعے پر میں بھی چونکہ جمعہ کی نماز کے لئے جلدی میں ہوتا تو کبھی زیادہ تردًد نہیں کیا۔

اب اس سے اتنی بے تکلفی ہو چلی تھی کہ میں نے جو ہر جمعہ کے دن دوپہر کو آخری کلاس کے بعد باقیوں کے ساتھ کھانے کی محفل سے غائب ہونا معمول بنا لیا تو ایک دن اُس نے استفسار کیا کہ میں ویک اینڈ شروع ہوتے ہی جھٹ پٹ کدھر غائب ہوجاتا ہوں۔ میں نے بھی اُگل دیا کہ جمعہ کی نماز کے لئے۔ اور ساتھ اپنی پاکستانی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے جمعہ کے چند فضائل بھی گنوا دئیے کہ شائد اسی طرح اس کے اندر کا مسلمان بھی بیدار ہو جائے۔ خیر فی الفور ایسی کوئی ایمانی آگ تو اُس کے اندر نہ بھڑکی، لیکن یہ ضرور ہوا کہ اب وہ اہتمام کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے ہفتے اپنے ریستوران پر بلا کر کھانا ضرور کھلاتا۔ اس طرح اس کے باپ سے بھی دعا سلام ہو گئی اور کبھی کبھار کی خیر خیریت کے ساتھ اس کا باپ ہمارے ساتھ بیٹھ کر گپ بھی لگا لیا کرتا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے یہ جرمنی میں میرا دوسرا رمضان تھا اور آخری عشرے کا پہلا روزہ جب ایلدار نے کہا کہ ابّا کہہ رہے ہیں آج افطاری کے لئے آ جاؤ۔ ایلدار کے منہ سے ایسی دعوت کا سُن کر دل شاد ہو گیا۔ جس پر تب ڈھیروں اوس پڑ گئی جب اس نے دریافت کرنے پر بتایا کہ وہ تو روزہ نہیں رکھتا۔ ہاں البتہ افطاری کا ثواب اُس نے ضرور ہمارے ساتھ لُوٹا۔ کھانے کے بعد گفتگو ہوتے ہوتے بے تکلف گپ شپ میں ڈھل گئی تو میں نے ایلدار کے باپ سے پوچھ لیا کہ وہ جرمنی کیوں آن بسے تو انہوں نے ذرا مختلف کہانی سُنائی۔

ایلدار کی بیان کردہ روایت میں انہوں نے یہ اضافہ کیا کہ لڑائی جھگڑے اور مالِ غنیمت سمیت بارہا پکڑے جانا بھی کوئی ایسی مضائقے کی بات نہ تھی۔ اصل میں اس کی خاندانی سپورٹ ٹوٹ جانے کے سبب وہاں اس کا جینا دوبھر ہو گیا تھا۔ اس کی قسمت یوں پھوٹی کہ اس کا باپ جو کسی دور میں عثمانی فوج میں رہ چکا تھا اور سب سے بڑا بھائی جوابھی پولیس میں تھا، حج کو چلے گئے۔ بس یہیں سے اُس کی بدبختی شروع ہو گئی کہ وہ حج کر کے آئے تو خود بھی چھوٹی موٹی بد اعمالیوں سے توبہ تائب ہو گئے اور ضمنی نقصان یہ ہوا کہ اب وہ بھی ان کے دستِ شفقت سے محروم ہو گیا۔ کوتوال کہیں کا بھی ہو آخر ہوتا تو کوتوال ہی ہے۔ اسے تنہا جان کراس کی تفتیش و تادیب زیادہ سختی سے ہونا شروع ہو گئی۔ اب تھانے کچہری کے معاملات اپنوں کی بے اعتنائی کے سبب کتنی دیر تک اکیلا سنبھال سکتا تھا تو بس اس نے جیسے تیسے ہو سکا وہاں سے بھاگنے کی ٹھانی اور جرمنی آ کر زندگی کی از سرِ نو شروعات کی۔

کئی ہفتے گزر گئے۔ اب ایلدار بھی ہماری شبینہ بحث مباحثے کی محفلوں میں اکثر شامل ہونے لگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ نوجوان ایک مدت سے ساتھ رہ رہے ہوں اور مذہب پر بحث نہ ہو۔ ایک دن ایسی ہی بحث میں جب کسی نے ایلدار سے پوچھا کہ تمہارا کیا مذہب ہے تو اُس نے جھٹ سے جواب دیا اسلام۔ سب کی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی کو بھانپتے ہوئے خود ہی صفائی دینے لگا کہ میں تُرک جو ہوں۔ لیکن سب کی حیرت اپنی جگہ برقرار تھی۔ تو پینترا بدل کر بولا کہ میرا باپ جو مسلمان ہے۔ سب کے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ دیکھ کر اس نے خاموش ہو جانے میں عافیت جانی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسا ہی ایک دن تھا۔ شام ابھی ہونے کو تھی جب میں کچن میں رات کے کھانے کی تیاری میں مگن تھا کہ ایلدار بھی گھومتے گھماتے ادھر آ نکلا۔ میں نے بصد محبت اسے بھی کھانے کی دعوت دی لیکن وہ کچھ تیار نظر نہ آیا تو میرے پُر زور اصرار پر بیٹھ گیا کہ چلو آج تمہارے ہاتھ کا کھانا کھا کے دیکھتا ہوں۔ اور ساتھ اُس نے ٹی وی لگا لیا۔ ادھر میں ہانڈی میں کف گیر گھما رہا تھا ادھرایلدار چینل پہ چینل بدلے جا رہا تھا۔ مشکل سے ہی شاید کہیں دو چار منٹ ٹک کر کچھ سنتا ہوکہ آخر ایک جرمن زبان کے چینل پر جیسے اسے بریک لگ گئی۔ خیر میں کھانا پکانے میں مگن تھا، کھانا پک چکا اور ٹیبل پر رکھتے ہوئے ایلدار   کو دیکھا تو وہ آنسوؤں سے بھری آنکھوں اور لال چہرے کے ساتھ ٹی وی کو گھورے جا رہا تھا۔ غور کیا تو وہاں چلنے والی خبروں سے بلاسفیمی، پیغمبراسلام اور فرانسیسی میڈیا کے الفاظ دیکھ کر مجھے صورتِ حال سمجھنے میں دیر نہیں لگی۔ اس شب ہماری محفل کے سامع نے کسی کو بولنے نہ دیا اور دل سے نکلی باتوں کے ساتھ سب کے دلوں کے تار چھیڑتا رہا۔
وہ دن اور آج کا دن۔ کسی کو پوچھنا نہیں پڑتا کہ ایلدار! تمہارا مذہب کیا ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply