مرا گھر بھی آج مکاں ہوا ۔۔۔ معاذ بن محمود

آج کا دن بھاری تھا۔ ایک خاموش انسیت تھی جو عام حالات میں شاید دنیاداری تلے دبی ہوتی ہے ابھر کے سامنے آئی، وہ بھی ایک باغی کی طرح جو جیسے چلا چلا کر کہہ رہی ہو کہ تم اپنی بے جاں ملکیت سے بھلا یوں ہمیشہ کے لیے کیسے منہ موڑ سکتے ہو۔ آج میرے گھر کی ایک ایک چیز مجھ سے شکایت کر رہی تھی کہ تم کتنی آسانی سے اپنے گھر کو مکاں بنا کر چل دیے ہو۔ آج میرے گھر کی چابیاں، میرا بیڈ، ڈائیننگ ٹیبل، صوفے، وال کلاک یعنی ایک ایک بےجاں چیز سراپا احتجاج تھی۔

اور میں؟

میں اس احساس کا مجرم بنا کھڑا تھا کہ کاش ان تمام چیزوں کی زباں ہوتی ضمیر ہوتا اور یہ میرے سامنے کھڑے ہوکر مجھے روک پاتیں۔ پھر میں ان کے کرب کے آگے ہار مان لیتا اور ان سے جان نہ چھڑانے کی کسی تدبیر میں لگ جاتا۔

آج میں نے زندگی میں دوسری بار اپنے ہاتھوں سے تزئین کردہ گھر اپنے ہاتھوں سے ختم کر کے چابی کسی اور کے حوالے کی ہے۔

بیشک یہ اچھے کے لیے ہے لیکن میں اداس ہوں۔

سات سال میں ایک ایک چیز جو ہم نے خریدی، گھر کا حصہ بنائی، آج اپنی انسیت کا تقاضہ کرتی دل چیرنے والی گھبراہٹ کا باعث بن رہی تھی۔ شاید آپ عام حالات میں محسوس نہ کرتے ہوں کہ آپ بازار سے گھر کے لیے جو پھلوں کی باسکٹ لاتے ہیں، اسے پہلی بار گھر میں سجاتے ہوئے ایک خوبصورت سی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ پھر چند دن تک ہر بار جب اس باسکٹ پر نظر پڑتی ہے، یہ خوشی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ ایسا جاری رہتا ہے تاوقتیکہ وہ باسکٹ آپ کی زندگی کا ایک حصہ بن کر لاشعور میں نہ چلی جائے۔

اور پھر ایک لمبے عرصے اس باسکٹ جیسی تمام اشیاء کو چھوڑ کر جانا پڑ جائے۔ میں یہ ماننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ یہ ایک کرب ناک سا موقع ہوتا ہے۔

میرا گھر میرا تمام سامان اب سراپا احتجاج ہے۔

اور میں ایک ظالم بنجارے کی طرح اپنے گھر کو واپس مکان کا درجہ دیے آگے کی جانب رواں ہوں۔ خانہ بدوشی کی یہ زندگی شاید تارکین وطن کی تقدیر میں لکھ دی جاتی ہے۔

شاید آپ نے کبھی سوچا نہ ہو لیکن سوچئے کہ جس گھر میں آپ ایک عرصے سے رہ رہے ہوں اسے دور بہت پیچھے چھوڑ کر جانا کیسا محسوس ہوتا ہوگا؟

اور جس وقت میرے والد  صاحب مرحوم یہ دنیا چھوڑ کر جا رہے ہوں گے انہیں کیسا محسوس ہو رہا ہوگا؟

الم ناک۔ دردناک۔ کرب ناک۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ یقیں جو آج گماں ہوا
میرا گھر بھی آج مکاں ہوا

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply