مساوات /شمس الدین انصاری

سیٹھ صاحب ایک نہایت عالی شان ہوٹل کے ایک پُرتعیش کمرے میں شیشے کی دیوار کے سامنےکھڑے باہر کا منظر دیکھ رہے تھے۔
ان کا چھ سالہ صاحب زادہ ان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔اس نے اپنی آنکھوں سے ایک طاقت ور دوربین لگائی ہوئی تھی جس سے دور دراز کا منظر بالکل صاف نظر آتا تھا ۔ وہ بھی اپنے والد کی طرح باہر کا منظر دیکھ رہا تھا لیکن اس کی نظریں کسی اور جانب تھیں۔

شیشے کی دیوار سے ایک مقدس عمارت نظر آرہی تھی جس کے گرد ہزاروں انسانوں کا مجمع تھا۔ سب لوگ دعا کے منتظر تھے۔ آج خصوصی دعا کی جانی تھی۔
“رخشندہ! اے سی کی  کولنگ تیز کردو۔ مجھے گرمی لگ رہی ہے۔ ” سیٹھ صاحب نے اپنی بیگم سے کہا۔
بیگم صاحبہ کے سامنے ایک غیر ملکی عورت کھڑی تھی جو بیگم صاحبہ کو عالی شان ہوٹل کے اندر موجود پانچ منزلہ شان دار شاپنگ سینٹر میں نئی پراڈکٹس کے بروشر دکھا رہی تھی۔
“میڈم! دس نیکلس سوٹس یو۔ جسٹ فور تھاؤزنڈ ڈالرز(مادام! یہ ہار آپ پر جچے گا۔ صرف چار ہزار ڈالر کا ہے)۔” وہ غیر ملکی عورت بیگم صاحبہ کو قیمتی ہاروں کی تصاویر اور ان کی قیمت بتا رہی تھی۔
“رخشندہ بیگم! کولنگ تیز کردو۔ دعا شروع ہونے والی ہے۔ ” سیٹھ صاحب نے اس مرتبہ چیخ کر اپنی بیگم سے کہا۔
بیگم صاحبہ نے اے سی کا ریموٹ اٹھایا اور کولنگ بڑھادی۔ پھر وہ ہار کی طرف متوجہ ہوگئیں۔
“ٹرن۔۔۔ٹرن۔۔۔ٹرن”فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
“یس! ۔۔۔ہاں۔۔۔بڑھائی ہے۔۔۔۔کیا کہا ؟۔۔۔کولنگ بڑھانے کے اضافی پیسے چارج ہوں گے۔۔کتنے؟۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔بل میں جوڑ دیں۔”بیگم صاحبہ نے انگریزی میں کہا اور فون رکھ دیا۔وہ پھر ہار کی طرف متوجہ ہوگئیں۔

اچانک سیٹھ صاحب نے دعاکے لیے ہاتھ بلند کیے۔ سامنے کھڑکی سے مقدس عمارت نظر آرہی تھی۔ تمام افراد نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ بلند کرلیے تھے۔
“بابر! ہاتھ اٹھاؤ۔ دعا مانگو۔” سیٹھ صاحب نے اپنے چھ  سالہ صاحب زادے سے کہا۔
بابر دوربین سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔
“ڈیڈ! لک دیئر۔ آئی ثنک دس پوار پرسن لیکس منی ٹو پے فور فوڈ۔وی شوڈ ہیلپ ہیم۔(ابو! ادھر دیکھیے۔ میرا خیال ہے اس غریب شخص کے پاس کھانے کے پیسے کم پڑرہے ہیں۔ ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے۔)” ننھے بابر نے کہا۔ اسے دور ایک غریب آدمی دکھائی دے رہا تھا جو ایک سستے ہوٹل کے باہر کھڑا اپنی رقم گن رہا تھا اور پریشان لگ رہا تھا۔
سیٹھ صاحب نے بابر کے سر پر سختی سے ہاتھ رکھا اور اس کا رخ مقدس عمارت کی جانب موڑتے ہوئے کہا:”دعا مانگو۔ہاتھ اٹھاو۔”
بابر اپنے باپ سے تھوڑا دور ہوگیا اور پھر دوربین سے باہر کا منظر دیکھنے لگا۔
کوئی پندرہ منٹ بعد وہ پھر بولا:
“ڈیڈ! لک دس فیملی۔ آئی ثنک دے آر لوکنگ فور چیپ اکوموڈیشن۔ ڈیڈ ۔پلیز لک۔ دے آر ان ٹربل۔اٹ از دی تھرڈ ہوٹل دے آر کمنگ آؤٹ وث ثیئر لگییج۔ (ابو! اس فیملی کو دیکھیے۔ میرا خیال ہےانھیں سستی رہائش گاہ کی ضرورت ہے۔ابو! پلیز دیکھیں۔ یہ تیسرا ہوٹل ہے جس سے وہ اپنا سامان لے کر باہر نکلے ہیں۔)” ننھے بابر نے کہا۔ اسے دور ایک فیملی نظر آئی تھی جو سستے ہوٹل کی تلاش میں اب تیسرے ہوٹل سے ناکام ہوکر باہرآرہی تھی۔
“رخشندہ۔ اسے پلیز باہر لے کر جاؤ۔ میری دعا میں خلل پڑ   رہا ہے۔ “سیٹھ صاحب نے کہا۔
“میڈم! وہائے ناٹ یو وزٹ آر آؤٹ لیٹ۔(مادام! کیوں نہ آپ ہماری دکان تشریف لائیے۔)” غیر ملکی عورت نے بیگم صاحبہ سے کہا۔
بیگم صاحبہ بابر کا ہاتھ پکڑے باہر چلی آئیں۔
تھوڑی دیر بعد وہ لفٹ سے اس جگہ پہنچ گئیں جہاں ایک شان دار پانچ منزلہ شاپنگ سینٹر موجود تھا۔
غیر ملکی عورت بیگم صاحبہ کو اپنے آؤٹ لیٹ میں لے گئی جہاں سستے سے سستا ہار بھی تین ہزار ڈالر سے کم نہ تھا۔
کوئی پندرہ منٹ بعداس کمرے میں فون کی گھنٹی بجی جہاں سیٹھ صاحب دعا میں مصروف تھے۔
“ٹرن ۔۔۔ٹرن۔۔۔ٹرن” فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ لیکن سیٹھ صاحب دعا میں مشغول تھے۔
ادھر ہوٹل کا مدیر پریشان تھا کہ بیگم صاحبہ نے جن ہاروں کو خرید لیا تھا ،ان ہاروں کی قیمت کوہوٹل کے بل میں شامل کرنے کا کہہ دیا تھا۔ یوں مجموعی بل پینسٹھ لاکھ روپےسے بھی اوپر نکل چکا تھا۔
ادھر بیگم صاحبہ کو پتا ہی نہ چلا کہ کب بابر نے ان کا ہاتھ چھڑایا اور نو دو گیارہ ہوگیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بابراپنے شان دار ہوٹل سے باہر تو نکل آیا لیکن شدید رش کی وجہ سے نہ تو وہ اس غریب شخص تک پہنچ سکا جو کھانے کے لیے رقم کم ہونے کے باعث پریشان تھا، اور نہ ہی اس فیملی تک پہنچ سکا جو سستا ہوٹل ڈھونڈ رہی تھی۔ اس کی جیب میں پندرہ سو ڈالر موجود تھے جو وہ ان لوگوں کو دینا چاہتا تھا۔
“مساوات بہت ضروری ہے۔ہم سب برابر ہیں۔ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔”بابر کے دماغ میں اس کے استاد کے الفاظ گونج رہے تھے۔اس نے بہت کوشش کی لیکن وہ رش کی وجہ سے آگے نہ جاسکا۔
“تو ناظرین! ہم یہاں لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھیں آج اس روحانی ماحول میں کیسا محسوس ہورہا ہے۔”ایک ٹی وی رپورٹر اپنے انگلش چینل کے لیے لائیو ٹیلی کاسٹ کررہا تھا۔ اس کی نظر بابر پر پڑی۔
“دیکھیے! یہ پیارا سا بچہ۔ تو بیٹا آپ کو یہاں کیسا لگ رہا ہے۔”ٹی وی رپورٹر نے بابر سے پوچھا۔
“مساوات بہت ضروری ہے۔ہم سب برابر ہیں۔ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔”بابرنے اپنے استاد کے الفاظ دہرائے۔ اس کے دماغ میں ابھی تک یہی الفاظ گونج رہے تھے۔
“تو مساوات کیسے پیدا ہوگی؟” ٹی وی رپورٹر نے سنجیدہ ہوکر بابر سے پوچھا۔ ایک نوعمر لڑکے کی زبان سے اسے یہ الفاظ بہت عجیب معلوم ہوئے تھے۔بابر نے تھوڑی دیر تک سوچا اور پھر ہوٹل کی بلند و بالا عالی شان عمارت کی طرف انگشت شہادت بلند کرتے ہوئے جواب دیا:
“اس شان دارہوٹل کو گرادیں اور اس کے بجائے سستے ہوٹل اور سستے ریستوران تعمیر کریں۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply