پاکستانی رنگ

ریاض احمد صاحب کچھ دنوں سے پریشان تھے اور آج ان کی بیگم نے اس کی وجہ بھی پوچھ لی۔
کل فیاض بھائی کے بچے آ رہے ہیں ناں پاکستان۔ ریاض صاحب نے اپنی پریشانی بتائی تو ان کی بیگم حیران رہ گئیں۔
آپ اپنے بڑے بھائی کے بچوں کے پاکستان آنے پر پریشان ہیں۔ بیگم کے لہجے میں حیرت تھی۔
ارے بھئی میں ان کے آنے پر پریشان نہیں ہوں۔ ریاض صاحب نے فوراً جواب دیا ۔ میں تو بس عامر کی وجہ سے پریشان ہوں۔
اور عامر کی وجہ سے کیوں پریشان ہیں آپ؟
ارے بھئی! فیاض بھائی کے بچے اب لندن میں رہتے ہیں۔ ان کا رہن سہن وہیں کے جیسا ہوگیا ہوگا۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں عامر ان کے سامنے خود کو کسی طور کمتر محسوس نہ کرے۔ بالآخر ریاض صاحب نے اپنی پریشانی بتا ہی دی۔
ہوں… بات تو کسی حد تک آپ کی درست ہے لیکن ہمارا عامر ایسا نہیں ہے۔ بیگم نے فوراً اپنے بیٹے کی حمایت کی۔
ایسا تو نہیں ہے…لیکن بڑا بھی نہیں ہے ناں۔۔۔کہیں دل میں یا ذہن میں کوئی ایسی بات نہ آ جائے جو اسے احساسِ کمتری میں مبتلا کردے۔ ریاض صاحب نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
آپ سمجھا دیجیے گا۔ ہمارا بیٹا بہت سمجھ دار ہے۔ بیگم نے چائے کے برتن سمیٹتے ہوئے کہا۔
ہاں کل ایئرپورٹ جاتے ہوئے بات کروں گا راستے میں۔ بہرحال … اللہ مالک ہے۔ ریاض صاحب نے کہا اور اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔
ریاض احمد متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کے بڑے بھائی فیاض احمد ادویات بنانے والی ایک بین الاقوامی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ دس سال پہلے انھیں موقع ملا تو وہ کمپنی کی طرف سے لندن شفٹ ہوگئے اور پانچ سال پہلے انہوں نے اپنی فیملی کو بھی لندن بلا لیا۔ شایان اور ایان فیاض احمد کے بیٹے تھے جو اس بار چھٹیوں میں پہلی بار پاکستان آ رہے تھے۔ لندن جانے سے پہلے عامر کی اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ خوب دوستی تھی اس لیے عامر بے چینی سے دونوں کا انتظار کر رہا تھا۔
دوسرے روز وہ صبح صبح مکینک کے پاس پہنچے جہاں ایک روز پہلے انھوں نے اپنی گاڑی کی حالت بہتر بنانے کے لیے کھڑی کی تھی۔ وہاں سے نکل کر رش کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے انھیں دیر ہوگئی۔ گھر پہنچے تو عامر تیار تھا۔
ارے ابو! اتنی دیر لگا دی… ایئرپورٹ جانے میں بھی کتنا وقت لگے گا۔ عامر کے لہجے میں ہلکی سی تشویش تھی۔
کوئی بات نہیں بیٹا! انشاء اللہ ہم وقت پر پہنچ جائیں گے۔ ابو نے کہا اور پھر دونوں گاڑی میں بیٹھ کر ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ریاض صاحب نے اب راستے میں عامر سے اپنے خدشے کا ذکر کرنا تھا۔ وہ صرف دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کی تربیت میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی۔
بیٹا! ایک بات بتاؤ… ریاض صاحب نے پوچھا تو عامر چونک اٹھا جو اپنے کزنز کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ پانچ سال بعد ان کی ملاقات ہونے والی تھی۔
جی ابو! عامر نے پوچھا
شایان اور ایان سے تمھاری دوستی تو بہت اچھی تھی ناں… ریاض صاحب کا سوال سن کر عامر حیران رہ گیا۔
جی ابو!بہت اچھی دوستی تھی…کیوں؟
پانچ سال میں وہ کافی بدل گئے ہوں گے… ان کا رہن سہن، بات چیت، پسند ناپسند… شاید پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات بھی تبدیل ہوچکے ہوں۔ ریاض صاحب نے کہا۔ لیکن عامر کی سمجھ میں پھر بھی اصل بات نہ آئی کہ اس کے ابو اسے کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں۔
جی ابو! ظاہر سی بات ہے… جیسا دیس ویسا بھیس کا محاورہ اسی لیے تو کہا جاتا ہے۔
تمھارے کپڑے، تمھارے کھلونے، تمھارا رہن سہن ویسا تو نہیں ہے لیکن پھر بھی بہت سوں سے بہت اچھا ہے۔ تم جانتے ہو ناں بیٹا۔ ریاض صاحب بولے تو عامر کی سمجھ میں ساری بات آ گئی۔ وہ جان گیا کہ اس کے ابو اسے کیا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے ابو… آپ بے فکر رہیں۔ عامر نے کہا۔
بیٹا میں چاہتا ہوں کہ شایان اور ایان جتنا وقت یہاں رہیں تم پاکستان کے بارے میں برا مت سوچنا۔ یہ جیسا بھی ہے ہمارا ملک ہے۔ ریاض صاحب نے اسے سمجھایا۔
ابو جی! میرے لیے سب سے اہم پاکستان ہے اور اس کا ہر رنگ میرے اندر رچا بسا ہوا ہے۔ میں کبھی اس کے بارے میں برا نہیں سوچ سکتا۔
عامر نے مضبوط لہجے میں کہا تو ریاض صاحب کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔ پھر ادھر ادھر کی باتوں میں ایئرپورٹ بھی آگیا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ اپنے بھتیجوں شایان اور ایان کے ہمراہ گھر کی طرف جا رہے تھے۔
کمزور کیوں ہو گئے ہو بھئی عامر… شایان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ وہ دونوں پچھلی اور عامر اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔
مجھے چھوڑو تم بتاؤ…تم کھا کھا کر پہلوان کس خوشی میں ہوتے جا رہے ہو۔ عامر نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
ارے بھائی! لندن کی خالص خوراک، صاف ستھرا ماحول۔ اس نے تو پہلوان ہونا ہی ہے۔ اس بار ایان بولا تو تینوں ہنس دیے۔
اف گرمی… اور یہ ٹریفک کا حال آج بھی ویسا ہی ہے… توبہ! کوئی کسی کو راستہ دینے کی زحمت نہیں کرتا۔ اوپر سے ہارن کے شورسے کان خراب ہونے لگے ہیں۔ شایان نے ایک ہی جملے میں ڈھیرساری شکایتیں کر دیں۔
یہ پاکستان ہے بھائی! آپ لندن کی سڑک پر نہیں ہو۔ ایان نے منہ بنا کر جواب دیا تو ریاض صاحب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
ارے بھئی! آج اتوار ہے ناں…چھٹی کی وجہ سے ٹریفک زیادہ ہے۔ عامر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں جی! اور باقی دنوں میں تو جیسے یہاں سڑکیں خالی ہوتی ہیں۔ ہم تو جیسے یہاں رہ کر نہیں گئے۔ ایان نے پھر منہ بنایا۔ اسی وقت ریاض صاحب نے گاڑی مین سڑک سے ایک اور راستے کی طرف موڑ دی، جو شارٹ کٹ اور قدرے ٹریفک کے دباؤ سے آزاد تھا۔
لو بھئی! ابو شارٹ کٹ سے جا رہے ہیں… عامر نے ایان کو تسلی دی۔
پاکستان میں ہر چیز کا شارٹ کٹ ہے سوائے ٹریفک کے۔ شایان نے پھر طنز کیا۔ ریاض صاحب کو محسوس ہوا جیسے عامر کی باتیں ان دونوں بھائیوں کے سامنے بے وزن ہوتی جا رہی ہیں۔
اسی وقت انھیں بہت زور سے بریک لگانا پڑی۔ سب چونک کر ونڈ سکرین سے باہر دیکھنے لگے۔ سامنے چڑھائی تھی اور ایک عمررسیدہ بابا اپنی ریڑھی چڑھائی پر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مٹی کے چھوٹے چھوٹے برتنوں اور کھلونوں سے بھری ریڑھی کچھ زیادہ وزنی نہیں تھی لیکن عمر کا تقاضہ تھا یا کمزوری کی وجہ…بابا جی پورا زور لگانے کے باوجود ریڑھی سمیت نیچے آ رہے تھے۔
چچا جان! سائیڈ پہ کر لیں گاڑی… یہ بابا جی کہیں گاڑی پر ہی نہ آ جائیں۔ شایان نے فوراً کہا۔ لیکن اس سے پہلے کہ ریاض صاحب جواب دیتے، عامر گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر چکا تھا۔ اگلے ہی لمحے ریڑھی کی ہتھی پر باباجی کے ساتھ ساتھ عامر کے مضبوط ہاتھ بھی جم چکے تھے۔ریڑھی دھیرے دھیرے چڑھائی پر چڑھنے کے بعد رک گئی تھی۔ شایان اور ایان حیرت سے دیکھتے ہی رہ گئے لیکن ریاض صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ آ چکی تھی۔ انھوں نے گاڑی ریڑھی کے قریب کھڑی کر دی تاکہ عامر بیٹھ سکے لیکن وہ بابا جی سے کچھ باتیں کر رہا تھا۔ اس کے بعد والے منظر نے شایان اور ایان کے ساتھ ساتھ ریاض صاحب کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔ عامر مٹی کا کھلونا اٹھا کر باقاعدہ آوازیں لگا رہا تھا۔ریاض صاحب نے شیشہ کھولا تو عامر کی آواز سنی۔
ہر مال بیس روپے… ہر کھلونا بیس روپے… مٹی کے بنے خوبصورت کھلونے۔ کچھ اور لوگ بھی دلچسپی سے عامر کو دیکھتے ہوئے وہاں رک گئے۔ بہت سے لوگوں نے عامر کو گاڑی سے اتر کر ریڑھی کو دھکہ لگاتے بھی دیکھا تھا۔ اب اسے باباجی کے ساتھ کھلونے بیچتے دیکھا تو ریڑھی کے پاس جمع ہونے لگے۔
آؤ بھائی! ہم بھی بابا کی مدد کرتے ہیں۔ شایان کو نہ جانے کیا سوجھی۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر اتر گیا۔ ایان بھی اس کے پیچھے تھا۔ ریاض صاحب گاڑی میں اکیلے رہ گئے۔ وہ اندر ہی بیٹھ کر یہ سب تماشہ دیکھ رہے تھے۔ پینٹ شرٹ میں ملبوس،شکل و صورت اور بول چال سے غیرملکی نظرآنے والے دو نوجوانوں کو ریڑھی پر مٹی کے کھلونے بیچتا دیکھ کر رش اور بڑھ گیا۔ سب جان چکے تھے کہ یہ بچے بابا جی کی مدد کرنے کھڑے ہیں۔ ہر طرف سے مجھے بھی دینا، مجھے بھی دینا، کی آواز آرہی تھی۔ عامر ایک اچھے دکاندار کی طرح خریداروں سے پیسے لے کر ان کے من پسند برتن اور کھلونے دے کر ایک ڈبے میں پیسے ڈال رہا تھا۔ باباجی بھی حیران پریشان یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ریڑھی خالی اور بابا جی کا پیسوں کا ڈبہ بھر گیا۔
اللہ تمھیں اس کا اجر دے بیٹا۔ بابا جی نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے باری باری عامر، شایان اور ایان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
اپنا خیال رکھیے گا بابا جی۔ عامر نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر شایان اور ایان کے ساتھ آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
شاباش بیٹا!تم پر پاکستانی رنگ پکا چڑھ چکا ہے۔اب کبھی نہیں ہٹے گا۔ ریاض صاحب نے مسکراتے ہوئے دل میں سوچا اور پھر گاڑی آگے بڑھا دی۔

Facebook Comments

عمران یوسف زئی
عمران یوسف زئی کا تعلق بنیادی طور پر ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام سے ہے۔ پشاور میں شعبہ صحافت سے 16 سال سے وابستہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات کے ساتھ وابستگی رہی۔ گزشتہ 8سال سے دنیا نیوز کے ساتھ بحیثیت رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں سے بچوں کے لئے بھی ادب تخلیق کررہے ہیں۔دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔پشاور سے بچوں کا اکلوتا رسالہ 'ماہنامہ گلونہ' شائع کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply