نظم کہانی۔۔۔ستیہ پال آنند

آدھ گھنٹے کی جنّت ِ گم شدہ تھی وہ بھی

جہاں تہاں قلعہ بند پھاٹک
مجسّمے شیروں کے نگہباں
رعونتوں سے اٹھے ہوئے بُرج۔۔۔
زنگ خوردہ پرانی توپیں
ڈھکی ہوئی ، گل بدوش بیلوں کے چھپّروں سے
(جو غار جیسے دکھائی دیتے تھے ہر طرف سے)
یہ ایک قلعہ تھا
جس میں سیلانیوں کے ٹولے
یہاں وہاں کیمروں سے تصویریں کھینچتے
کھلکھلاتے، ہنستے
رواں تھے ۔۔۔
تاب و تواں تھی،تیزی تھی
چلبلا پن تھا، ولولہ تھا ۔۔۔۔۔

یہ اتّفاقی وقوع تھا یا کہ حادثہ تھا
ہمارے ٹولے میں
ایک ایسا جوان میں ہی تھا
۔۔۔۔ اک ، اکیلا
جو قد میں چھ  فُٹ سے بھی نکلتا ہوا تھا
۔۔۔ اونچا
مگر سبھی لوگ اور چینی تھے
اس گروپ میں
عجیب سے، پست قد
فرو مایہ ، چپٹے ڈھیلے سے مرد تھے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔عورتیں پر ِ ِکاہ، بیش و کم
اور بس، یہی کچھ
اکہرے، نازک
چھریرے جسموں کی پتلی پتلی سی ۔۔۔۔
۔۔۔۔ لعبتیں چین کی
دلارا، سجل، مسجع
سپید مرمر کی مورتیں
شوخ و شنگ رنگوں میں
اڑتے پھرتے ہوئے شرارے

ہمیں بتایا گیا تھا ۔۔
۔۔’’بارش کنیز ہے دھوپ کے شہنشاہ پوپلو ؔ کی
کہ جب بھی مالک کو گرمی لگتی ہے
دوڑی آ ٓتی ہے
اپنی زلفوں میں پانیوں کی پھواریں لے کر

ہُوا بھی ایسے ہی !
کالے بادل کا ایک ٹکڑا
سیاہ، حبشی سا، گڑگڑاتا، لپک کے آیا
جھپک کے اُمڈا
ہوا کے جھونکے تھے
سرد ، یخ بستہ پانیوں کی
اک ایسی یلغار تھی کہ جس سے
بچانا خود کو بہت کٹھن تھا
کہ کوئی جائے اماں نہیں تھی

خلل پذیری کمال کی دیکھنے میں آئی
اتھل پتھل، بھاگ دوڑ، ہڑبونگ
بھاگتے مرد و زن اکٹھے
گھسٹتے، گرتے ۔۔۔
نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن
کہ دائیں بائیں تھی مینہ کی بوچھاڑ
چھم چھما چھم
نہ کوئی چھتری نہ کوئی چھپّر
نہ کوئی چھّجا

تو میں بھی بھاگا
پرانی توپوں کا ایک چھّپرتھا میری منزل
ہزار دقّت سے
رینگ کر گھس گیا، تو دیکھا
کہ تنگ حجرہ ہے
بند تا بند مقبرہ سا

ذرا سا اک سانس چین کا لے چکا تو میں نے
پلٹ کے دیکھا
چھریری، پتلی سی
سکڑی سمٹی ہوئی
ذرا جھینپتی، سنبھلتی
ٹھٹھرتی سردی میں
آدھی باہوں کی شرٹ میں ایک چینی عورت
کمال دقّت سے
اندر آتی ہوئی
مجھے دیکھ کر جو ٹھٹھکی
تو گرتے گرتے بچی
۔۔۔ مری سمت نیچی نظریں اٹھائیں، جیسے
مدد کی خواہاں ہو ۔۔۔
چاہتی ہو مرا سہارا

لپک کے میں نے
جو ہاتھ آگے کیا تو اس نے
بلا توقف
سہارا لے کر
گھسیٹ کر خود کو اور آگے بڑھایا
لیکن
خفیف سے جسم کے لیے بھی
جگہ نہیں تھی،سوائے اس کے
کہ بازوؤں میں سمٹ کے مجھ میں
حلول کر جائے ۔۔۔۔
۔۔۔۔جذب ہو جائے
جیسے میری ہی عینیت ہو

یہ ــ ’بند ‘ تھا ۔۔۔
یا کہ ’بست ‘ تھا۔۔۔
کون جانتا تھا؟
مگر یقیناً اسے پتہ تھا
کہ ’بندگی‘ اور ’ بستگی‘
اپنی اصل میں دونوں ایک ہی ہیں

یہ معجزہ بھی عجیب تھا،
جیسے دو بدن ہوں۔۔”متھن‘‘ کی مدرا میں
منضبط ہوں
اجنتا کا غار بن گیا ہو۔۔۔
سپین کا وہ پرانا قلعہ

یہ معجزہ بھی عجیب تھا۔۔۔۔
اس کا سر مرے سینے تک پہنچتا تھا
۔۔۔۔سانس کے زیر و بم سے میرے
بدن میں گرمی کی
ایک طرّار لہر دوڑی
مری رگ و پے میں
جیسے بارود بھر گیا ہو

یہ معجزہ بھی عجیب تھا
جب اچک کے اس نے
گداز باہوں سے میری گردن کو
ہار جیسے پرو دیا تو
مجھے لگا
میری روح میں لاکھ پھول
گلدستے ۔۔۔
۔۔۔۔صندلی روح کیوڑہ
جیسے بھر گئی ہو

اس آدھ گھنٹے میں
نام تک جاننے کی خواہش
نہیں تھی لیکن
گناہ ِ اولیٰ نے
جیسے باغ ِ جناں میں حّوا کو
پہلے راضی کیا تھا
آخر اسی حوالے سے
میں بھی تو مرد تھا۔۔۔فقط
کاسہ لیس حّوا کی خواہشوں کا
بدن کی قدرت کے ضابطے پر
عمل نہ کرنا
مرا مقّدر نہیں تھا، آدم کی طرح ہی ۔۔۔
۔۔۔۔میڈرڈ کے باغ ِ جناں میں اُس دن

کہ دفعتاً ایک بار پھر
گفتگو کی آوازیں دھیمی دھیمی
کہیں سے چینی زبان میں ایک اونچی آواز ۔۔۔
۔۔۔اور پانی میں چلنے پھرنے کی دھپ دھپا دھپ

طلسم ٹوٹا
پلٹ کے باغ ِ جناں سے لوٹے تو ہم وہیں تھے

اچک کے اس نے
مرے لبوں پر
اک اور بوسہ دیا، کہا کچھ
(جو میں نہیں سمجھا)
ننھی منّی سی
اپنی دو انگلیوں کو میرے
لبوں پہ رکھ کر
خموشیوں کی ردا میں
لپٹی ہوئی کوئی بات
میرے ایجاب میں کہی
سنبھلتی
خود کو سنبھالتی
وہ چلی گئی تو ۔۔۔۔
ذرا توقف کے بعد میں بھی
اس آدھ گھنٹے کی جنت ِ گمشدہ سے نکلا

Advertisements
julia rana solicitors

فضا کا گرد و غبار
سب دُھل گیا تھا باہر
نہا کے نکلی تھی دھوپ
نو خاستہ ، نرالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اڑتالیس برس پہلے یعنی اپنی چالیس برس کی عمر میں تحریر کردہ ایک نظم۔ یہ ضروری نہیں کہ اس واقعہ کی یہ رنگین تفصیل حقیقت پر مبنی ہو۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply