بچپن کے پنگے اور نوجوانی کے دنگے ـ (قسط 3)

ایک دن چھٹی کے بعد ہم سکول سے گھر آ رہے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ آسمان سے کاغذ کے چکور ٹکڑے برس رہے ہیں۔ اوپر دیکھا تو ایک فوکر نما طیارہ یوں کاغذ برسا رہا تھا جیسے شادی کے موقع پر لڑکیاں بالیاں باراتیوں پر پھول برساتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ پمفلٹ ہیں جب ہم نے پمفلٹ کو پڑھنے کی کوشش کی تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ عورتوں کی نازیبا تصاویر کے ساتھ کوئی مذہبی یا دعوتی قسم کی تحریر لکھی ہے۔ گھر پہنچ کر پمفلٹ چچا جان کو دکھایا تو پتہ چلا کہ نازیبا تصاویر بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کی تھیں. یہ بھی پتہ چلا کہ الیکشن کے دن قریب ہیں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مسلم لیگ سے اتحاد کر کے ایک بڑی جماعت تشکیل دی ہے. جماعت کے پرچم پر نو عدد تارے بھی جگمگا رہے تھے ۔ اس دور میں ابھی سوشل میڈیا اور موبائل وغیرہ عام نہیں ہوئے تھے، نہ ہی مذہب اور سیاست کی ہمیں اتنی سمجھ بوجھ تھی البتہ میرے ننھےذہن میں خیال ابھرا کہ یہ کیسے دینی رہنما ہیں، جن کا اخلاقی معیار اس قدر پست ہے کہ سیاسی شکست کے خوف سے خواتین کی حیا باختہ تصاویر سرعام بانٹتے پھرتے ہیں. کیا یہی ان کا پولیٹیکل مینی فسٹو ہے جس کے بل بوتے پر یہ عوام سے ووٹ مانگتے ہیں ؟ کیا ان کا دینی شعور یہ کہتا ہے کہ سیاسی مخالفین کی ماؤں بہنوں کی ناموس کو یوں سرِ بازار اچھالا جائے کہ اسلامی نظام کا قیام عمل میں لایا جا سکے؟ کیا اسلام کے نام لیواؤں کی مدبرانہ سوچ اتنا بھی ادراک نہیں رکھتی کہ جب اس طرح کے غیر اخلاقی اور لچر پن سے بھرپور پمفلٹ ہر جگہ بانٹے جائیں گے تو ہمارے بچوں کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اب ظاہر ہے جو بچہ اپنی ایک مثبت سوچ رکھتا ہو گا وہ ان مذہبی پیشواؤں سے متنفر ہو گا اور جو بچے اپنی کوئی الگ سوچ نہیں رکھتے وہ بھیڑ چال میں آ کر اسی جنونی ڈگر پر چلیں گے اور ان بزرگوں کے ” معتبر” خیالات کو سینے سے لگائے معاشرے کو اسی نہج پر چلانے کی کوشش کریں گے۔ بہر حال بعد میں ہمارے چاچو نے پتہ چلا کر بتایا کہ وہ سب تصویریں بھی جعلی تھیں۔
میرا کچا پکاذہن خدا کی ذات کے متعلق اکثر سوچتا کہ آخر خدا دیکھنے میں کیسا ہو گا. اس لمحے کہاں ہو گا اور کیا کر رہا ہو گا۔ ہمارا خدا آسمانوں میں بیٹھا نیچے ہماری زمین پر کیا دیکھ رہا ہے۔ زمین پر انسان عجیب عجیب حرکتیں کر رہے ہیں، کچھ اچھی تو کچھ بری، تو کیا خدا سب کو دیکھ رہا ہو گا ؟ خصوصاً جب کسی غریب بچے کو تپتی سڑک پر بھیک مانگتے دیکھتا یا کسی مظلوم پر ظلم ہوتے دیکھتا، معاشرے کی نا انصافیوں اور صاحبِ اختیار منصفوں کی بے حسی کو محسوس کرتا تو دل ہی دل میں خدا سے التجا کرتا کہ اے خدا تو جہاں بھی ہے ابھی اور اسی وقت زمین پر اتر آ اور انسانوں کے بنائے ہوئے بے کار و لاچار قوانین کو توڑ دے اور اس زمین پر اپنی عدالت لگا اور ظالموں اور لٹیروں کو اپنے ہاتھوں سے سزا دے۔ ابا جان کہتے کہ کسی غریب کو روٹی کھلانا ثواب کا کام ہے، میں سوچنے لگتا کہ اس غریب سے روٹی حاصل کرنے کی طاقت کس نے چھین لی؟۔۔۔ مجھے یوں لگتا کہ جب ہم کسی غریب کو زائد بچ جانے والی روٹی صدقے یا خیرات کےنام پر دیتے ہیں تو در حقیقت ہم اسے غربت کی گالی دے رہے ہوتے ہیں اور لا شعوری طور پر چاہتے ہیں کہ وہ یونہی مفلس رہے تاکہ ہم اسے روٹی دے کر اپنے حصے کا ثواب کماتے رہیں۔ ظاہر ہے اگر وہ مفلس نہ رہا تو ہم ثواب کیسے کمایں گے؟
ایک دفعہ ہمارے محلے سے کچھ فاصلے پر چند لوگ کسی خالی پلاٹ کے معاملے پر آپس میں جھگڑ پڑے۔ معلوم ہوا کہ مسجد بنانے کا جھگڑا ہے۔ پلاٹ کسی بے اولاد بیوہ کا تھا جو مرنے سے پہلے وصیت میں پلاٹ کو مسجد کے لیے مختص کر گئی تھی۔ مرنے والی تو مر گئی مگر محلے کا سکون برباد کر گئی. سلفی صاحب کا کہنا تھا کہ بننے والی مسجد اہلحدیث کی ہونی چاہیے، قادری چاچا بریلوی جبکہ قاضی صاحب دیوبندی مسجد بنانے پر بضد تھے، روزانہ شام کو لوگوں کا اکٹھ ہوتا، ایک دوسرے کو لعن طعن، کفر کے فتوے لگتے اور دھمکیاں دی جاتیں اور میٹنگ کو اگلے دن کے لیے ملتوی کر دیا جاتا۔ محلے میں ایک شاہ جی بھی رہتے تھے جن کا دعوٰی تھا کہ پلاٹ کی مرحومہ مالک شیعہ خیالات کی حامل تھی لہذا انہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ چونکہ محلے میں شیعہ گھروں کی ایک معقول تعداد آباد ہے اور امام باڑہ بھی بہت دور ہے لہذاہم یہاں پر امام بار گاہ بنائیں گے ورنہ یاد رکھیں یہاں کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے اور کربلا کی تاریخ ایک بار پھر دہرائی جائے گی۔ خیر ایک دن قاضی صاحب جماعتِ اسلامی کے ناظم اعلیٰ کو فیصلہ کروانے کی غرض سے لے آئے جنہوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد حل تجویز کیا کہ کیوں نہ ہم یہاں مسجد کی بجائے ایک ڈسپنسری بنا دیں، آخر مرنے والی کو تو ثواب پہچانا ہی مقصود ہے نا۔ اس طرح جھگڑا بھی ختم ہو جائے گا اور محلے کو ایک ڈسپنسری بھی مل جائےگی ۔ ڈسپنسری بنانے کے لیے فنڈ اکھٹا کرنے کی تمام تر ذمہ داری آپ میرے اوپر چھوڑ دیں۔ بولو منظور ہے؟ سب نے کچھ نہ کچھ سوچا اور فیصلہ منظور کر لیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ ڈسپنسر ی علاج معالجے کے لیے کم اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے زیادہ استعمال ہوتی رہی۔ اب پتا نہیں ان سیاسی سرگرمیوں کا کس قدر ثواب مرحومہ کو پہنچا ہو گا۔
جمعہ کے دن محلے میں موجود مسجد کا لاؤڈ اسپیکر چیختا رہتا تھا۔ ایک دن مولوی صاحب واعظ فرما رہے تھے۔ آغاز میں انہوں نے حور و غلمان کا دلکش نقشہ کھینچا۔ میرا دوست بھولا میرے کان میں کھسر پھسر کرنے لگا، یار مولوی صاحب کی مسحور کن باتیں سن کر نہ جانے کیوں مجھے گد گدی سی ہونے لگتی ہے، یار آصف تجھے نہیں ہوتی کیا؟۔ پھر کہنے لگا ،یار بڑے بھیا جب موڈ میں ہوں تو بھابھی کو حور کہہ کر مخاطب کرتے ہیں حالانکہ بھابھی کی تیز دھار زبان کی وجہ سے اکثر گھر میں جھگڑا ہی رہتا ہے۔ میں سوچتا ہوں اگر جنت میں حوروں کی زبان بھی قینچی کی طرح چلتی ہے تو ہمیں تو پھر دوزخ میں شفٹ ہونا پڑے گا۔بھولے کی بات سن کر میرے بھی دانت نکل آئے۔ پھر مولوی صاحب نے اچانک موضوع تبدیل کرتے ہوئے فرمایا۔۔ ہمارے دین میں چار عدد نکاح کی صریح اجازت ہے، میں بھی چار شادیوں کا نیک ارادہ رکھتا ہوں۔ آخر ہم دین پر کیوں نہ عمل کریں ؟ اللہ کا حکم ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ ۔ لہذا استطاعت ہو تو ہمیں دین کا ہر عمل بجا لانا چاہیے۔ کسی کو اگر اعتراض ہو تو ہوا کرے، ہم اسلامی احکامات سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ دین کے تقاضوں کو مکمل کر کے ہی دم لیں گے… اللہ اکبر، اللہ اکبر کی والہانہ صدائیں بلند ہو رہی تھیں ۔۔۔ مولوی صاحب کا واعظ سن کر اچانک ہمارے ذہن میں مسجد سے ملحقہ وہ کوراٹر آ گیا جس میں مولوی صاحب رہائش پذیر تھے۔ چونکہ ابھی کنوارے تھے تو اکیلے ہی رہتے تھے۔ ہم نے وہ کوارٹر اندر سے اس وقت دیکھا تھا جب ایک دفعہ کرکٹ کھیلتے ہوئے ہماری گیند اندر جا گری تھی ۔ چھوٹے سے ایک کمرے اور تنگ سے بد بودار غسل خانے پر مشتمل کوارٹر کیا تھا بس مرغی کا ڈربہ ہی تھا۔ یہاں اس مرغیوں کے ڈربے میں مولوی صاحب چار بیویاں کیسے رکھیں گے؟ میرا حسابی دماغ چلنے لگا۔۔۔۔اگر فی بیوی دو بچے بھی ہوں تو کل ملا کے آٹھ ہوئے۔ اتنے لوگ یہاں کیسے رہیں گے؟ کہیں مولوی صاحب کی مت تو نہیں ماری گئی ؟ ۔ لیکن بعد میں میرا حساب غلط ثابت ہوا کیونکہ مولوی صاحب اللہ کے فضل و کرم سے اسی ڈربے میں تین بیویوں اور سات عدد بچوں کے ساتھ کامیابی سے زندگی گزارتے رہے تھے۔
ماشااللہ ختم شریف، میلاد اور محلے کی خوشی غمی کی بدولت اچھا خاصہ گزارہ ہو رہا تھا۔ خصوصاً میلاد کے دوران کھانے پینے کا وافر انتظام دیکھ کر ہم بچوں کو بڑا مزا آتا ۔ شیرینی بٹتی، نعت خوانی ہوتی، کچھ لوگ نعت خوانوں پر روپے اچھال اچھال کر پھینکتے ۔مذ ہبی موشگافیوں پر کان دھرنے کے علاوہ ہمیں آوارہ گردی اور مطالعہ کا بھی جنون کی حد تک شوق تھا ۔ ہر اتوار کے روز فٹ پاتھ پر لگی پرانی کتابیں خریدنے کے لیے اردو بازار، پرانی انارکلی اور مال روڈ کے چکر لگاتے رہتے۔ ہمیں رومانوی ناول پڑھنے کی لت سی لگ گئی تھی۔ ابنِ صفی، نسیم حجازی، اشفاق احمد، بانو آپا، ممتاز مفتی، قراۃالعین حیدر، مستنصر حسین تارڑ، پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، ٹیگور اور منٹو سے لے کر عصمت چغتائی تک سب کو کھنگال ڈالا تھا۔ کبھی کبھی معروف لکھاریوں کا دیدار کرنے کا خیال آتا تو پاک ٹی ہاؤس یا رائل پارک کی طرف نکل جاتے۔ کھانے پینے کا موڈ بنتا تو رخِ انور لکشمی چوک یا گوالمنڈی کی جانب پھیر لیتے۔ شعرا میں فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، ن م راشد، حبیب جالب، محسن نقوی ، احمد ندیم قاسمی اور غالب سے لے کر اقبال تک سبھی کا مزا لے چکے تھے۔ایک رات میں عصمت چغتائی کا کوئی ناول پڑھتے پڑھتے سو گیا۔ خواب میں دیکھا کہ حضرت امام حسینؑ کھڑے ہیں، ادھر سے یزید شرمندہ شرمندہ سا آیا، آپ کے پیر پکڑ لیے، خوب گڑ گڑایا، ہاتھ جوڑے، معافی مانگی تو آپ کا محمدی خون جوش مارنے لگا اور اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ بس میں نے بھی اس دن سے یزید کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیا ۔ آسمانوں میں تو ان کا ملاپ بھی ہو گیا، پھر ہم کیوں لڑیں ۔۔ کچھ ایسی ہی بات عصمت چغتائی نے اپنے ناول میں لکھی تھی۔ہمیں دھوکہ باز اور مکار آدمی سے مل کر بڑی خوشی ہوتی تھی. (جاری ہے)

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply