بس مالک!
اب تجھ سے بھی ہم
کیا مانگیں؟
رت جیون کی، تنہا روتے بیت گئی
سندر خواب، سہانے کل کے راکھ ہوئے
قندیلیں بھی ،آس کی اپنی، خاک ہوئیں
تار،تار ہے دامن بھی
امیدوں کا
اور چہرے پر
سایہ ہے ،بے رنگی کا
مانا تُو قادر ہے، سب کر سکتا ہے
پر یہ دل!
یہ مرقد ،میری خوشیوں کا
تیری منشا کی خاطر بھی
دھڑک اٹھے، تو کیا حاصل؟
کیا حاصل، گر پیاس بجھے ہونٹوں تک
آج فرات آئے
کیا حاصل ! گر موت پٹی آنکھوں میں کوئی
دیپ جلے
کیا حاصل!
تو مجھ سے، اور میں تجھ سے
راضی ہو جاؤں
پیاس اگر، مر جائے تو پھر
نیل و فرات ہیں بے معنی
آنکھ اگر، بجھ جائے تو پھر
کچے خواب، نہیں اُگتے
آس کا دیپک، بجھ جائے تو
منشا و مجبوری کا یہ
کھیل یونہی، بے میل رہے
تُو جانتا ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں