مہا بھارت اور قصص الانبیاء/ناصر خان ناصر

آپ نے مہا بھارت کے قصّے تو ضرور پڑھے یا سنے ہوں گے۔

کم از کم ٹی وی پر ان کی اقساط دیکھ کر اپنے سر ضرور دھنے ہوں گے۔ کیا غضب کی سیریز بنائی گئی تھی کہ آج بھی اسے دوبارہ دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔

ہالی وڈ نے بھی ایک سیریز مہا بھارت پر بنائی  ضرور ہے مگر بھارتی سیریز کے گلیمر کا مقابلہ وہ بلیک اینڈ وائٹ سیریز بھی نہیں کر سکتی۔
اندھے بادشاہ دھرت راشٹر صاحب کے سائیں سنجے صاحب گھر بیٹھے دور کی خبریں سنایا کرتے تھے۔ جنگ میں ایٹم بم، میزائل اور جدید ترین اسلحے کا بے دریغ استعمال ہوا۔ اُڑتے جہاز، راکٹ اور ڈرون تو عام تھے ہی، انسان آن ہی آن میں صرف سوچ کر اور آنکھیں بند کر کے منتر پڑھ کر جہاں چاہتا، پہنچ جاتا، جسے چاہتا اپنی خدمت میں حاضر کر لیتا۔

پانچ بھائیوں کی مشترکہ جورو پنچالی کے پاس ایسی جادوئی ہانڈی تھی جو تینوں وقت من پسند کھانا پکا پکایا مناسب مقدار میں مہیا کر دینے پر قادر تھی۔

گندھاری نے اپنے زور تپسیا سے اپنے بیٹے دریودھن کے سارے جسم کو صرف ایک نظر ڈال کر فولاد کا بنا دیا تھا۔ اس کے جانگیے کی جگہ ہی صرف کچی رہ گئی کہ وہاں کچھا پہنے رکھنے کی بدولت ماں کی کیمیا شناس نظر جادو نہ پڑ پائی۔

اس سے قبل اس قصّے میں سیتا وتی پر ایک رشی پرسار عاشق ہو گیا اور ان دونوں کو ایک غبار نے ڈھانپ لیا۔ ان کے گناہ کی نشانی رشی ویاس صاحب کیا پیدا ہوئے، کہانی میں ایک سے بڑھ کر ایک حرامی ہیرو پیدا ہونے لگا۔ ویاس سے ہی ہم بستری کر کے امبیکا، امبالیکا اور امبالیکا کی خادمہ سے کہانی کے اگلے ہیرو بادشاہ دھرت راشٹر، پاونڈو اور وزیر ویدورا پیدا ہوئے۔ اس کے بعد تو حرامیوں کی لائن ہی لگ گئ۔ پانچوں پانڈو اور چھٹے جنگجو کرن میں کسی کا باپ بھی ایک نہیں۔ کنتی اور مادھوری نے یہ سارے بچے مختلف دیوتاؤں سے حاصل کیے۔

ہاں البتہ اندھے بادشاہ دھرت راشٹر کی بیوی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے باوجود ستی ساوتری رہی اور اس نے اپنے سو کے سو بیٹے اپنے خاوند ہی کے جنے۔

سو بیٹے جننے کے لیے اس کی عمر کم از کم ایک سو بیس برس ہونا تو لازمی بات ہے مگر ہو سکتا ہے کہ وہ انتہائی زرخیز محترمہ جڑواں یا توام بچے جنتی ہوں، پھر بھی یہ عمل کم از کم ہم جیسے جاہل کو تو بعید از قیاس ہی نظر آتا ہے۔

مہا بھارت پڑھ کر چکرایا ہوا انسان اللہ اللہ کرتے ہوئے ہی اٹھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر قصص الانبیا کے بے سرو پا قصّے پڑھ کر دل پکڑ کر رام رام کرنے بیٹھ جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply