• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شاہراہ قراقرم ، دہشت گردوں کی آماجگاہ، شونٹر ٹنل ضروری ہے/شیر علی انجم

شاہراہ قراقرم ، دہشت گردوں کی آماجگاہ، شونٹر ٹنل ضروری ہے/شیر علی انجم

تقسیم برصغیر سے لیکر شاہراہ قراقرم کی تعمیر تک گلگت بلتستان کو پاکستان سے براہ راست ملانے کیلئے کوئی سڑک موجود نہیں تھے ، البتہ گلگت بلتستان اور ریاست جموں کشمیرکے دیگر اکائیوں درمیان  رابطہ سڑکیں موجود تھی جو اب بند ہیں۔ سال 1966 میں جب شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز ہوا تو یقینا جہاں پاکستان گلگت بلتستان کی وجہ سے چین کا ہمسایہ ملک بلکہ دوست بن گیا وہیں خطے کے عوام کیلئے بھی اس شاہراہ کی افادیت کا کسی بھی طرح انکار نہیں کی جاسکتی۔لیکن بدقسمتی سے ضیاالحق کے دور میں جب اسلام کے نام پر ڈالرجہاد کا  گھناونا سلسلہ شروع ہوا تو یہ شاہراہ ایک طرح سے گلگت بلتستان کے عوام کیلئے غیر محفوظ ہوگیا اور آج بھی ہے۔ 1988 سے لیکر آج تک یہ شاہراہ گلگت بلتستان کے عوام کیلئے       قتلگاہ بنا ہوا ہے۔ ہر چند سال بعد اس شاہراہ پر دہشت گرد بڑی آسانی کے ساتھ مسافر بسوں پر حملہ کرکے آسانی کے ساتھ غائب ہوجاتے ہیں لیکن آج تک کوئی مجرم نہیں پکڑا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ خطے کے عوام متبادل محفوظ سڑک کے طور پر قدیم شونٹل ٹنل کی بحالی کر مطالبہ کرتے ہیں ۔ضلع استور سے وادی نیلم کے زریعے گلگت بلتستان کو اسلام آباد سے ملانے کیلئے قدیم شونٹر ٹنل(شونٹر نیلم روڈ )کی بحالی سے جہاں ایک متبادل محفوظ شاہراہ گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر کے درمیان سیاحتی اور معاشی سرگرمیوں کیلئے اہم کردار ادا کرسکتی ہے وہیں گلگت بلتستان سے راولپنڈی کیلئے سفر کا دورانیہ بھی تقریبا آٹھ گھنٹہ کم ہوجائے گا۔ اس روڈ کی تعمیر سے گلگت بلتستان کے عوام کو ذہنی طور پر بھی سکون ملے گا کیونکہ اگر گزشتہ تیس سال کی تاریخ دیکھیں تو خطے کے عوام نے کوہستان اور دیامر کے حدود سے فقط لاشیں ہی اُٹھائی ہیں کیونکہ کوہستان بدقسمتی سے مذہبی انتہاء پسندوں کا گڑھ ہے اور یہاں پر مخصوص مائنڈ سیٹ آج  بھی اہل تشیع اور اسماعیلی مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ گزشتہ چندہ ماہ میں کئی ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہے جس میں باقاعدہ شاہراہ قراقرم بند کرنے اور قتل کی باقاعدہ  دھمکیاں عوامی جلسوں میں کی گئی۔

شونٹر ٹنل کے حوالے سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق شونٹر وادی نیلم سے رتو استور تک تقریبا صرف 13 کلومیٹر سڑک تعمیر کرنےاورکیل سے شونٹر تک 26 کلومیٹر روڈ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سڑک کی تعمیر کیلئے 2013 میں اُس وقت چیرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے سیاحتی اور معاشی ضرورت کے پیش نظر اہم اور قابل تعمیر شاہراہ قرار دیکر حکومت پاکستان کو اس سڑک کی تعمیر کیلئے سفارش کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اسی طرح آذاد کشمیر  حکومت  نے اگست 2017 میں  این ایچ اے کو ایک پرپوزل کے زریعے یہ سڑک کم لاگت کے ساتھ محفوظ اور  قابل تعمیر ہونے کی سفارش کی تھی۔اس سڑک کی تعمیر کیلئے گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر کے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کامسلسل مطالبہ بھی میڈیا کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ جب ہم گلگت بلتستان حکومت کی طرف دیکھتے ہیں  مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن نےذیادہ برف پڑنے کا بہانا بنا کر اس روڈ کیلئے کوشش وقت اور پیسوں کا ضیاع قرار دی تھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن کچھ عرصہ قبل گلگت بلتستان کے وزیر اعلی خالد خورشید کے دورہ مظفر آباد کے موقع پر اُس وقت کے وزیر اعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس نے شونٹر ٹنل اور سڑک کی تعمیر کے منصوبے سے متعلق ایک کمیٹی قائم کی جس میں آزاد کشمیر حکومت کے پانچ وزیر اور محکموں کے سیکرٹری شامل ہیں۔ اس کمیٹی کے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ یہ کمیٹی شونٹر منصوبے سے متعلق گلگت بلتستان حکومت کی کمیٹی اور وفاقی حکومت کی متعلقہ وزارتوں، ڈویژنوں کے ساتھ رابطے کا کام کرے گی۔اب ایسا لگتا ہے کہ اُنکا ناہل  ہونے کے بعد شاید معاملہ داخل دفتر ہوکر رہ گیا ہے۔لہذا زندگیاں بچانے کیلئے شاہراہ قراقرم کے متبادل کے طور پر شونٹر ٹنل خطے کے باسیوں کی بقاء کا مسلہ بن گیا ہے۔ گلگت بلتستان کے اصل حکمران چیف سیکرٹیری کو چاہئے کہ اس حوالے سے اسلام آباد سرکار کو ہنگامی بنیادوں پر اقدام اٹھانے سفارشات پیش کریں۔ گلگت بلتستان کے عوامی نمائندوں کے پاس نہ اختیار ہے نہ اُنکا عوام کو درپیش مسائل سے لینا دینا، یہی وجہ ہے گلگت بلتستان میں دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد انڈیا ملوث  کا بیان دیکر ذمہ داریوں نے بری ہوجاتے ہیں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply