آدھا دماغ ۔/ محمود اصغر چودھری

دنیا کے بیشتر ممالک میں کسی امتحان میں پاس ہونے کےلئے آپ کوچالیس سے پچاس فیصد نمبر چاہیے ہوتے ہیں جبکہ انڈیا پاکستان میں طلباءصرف تینتیس فیصد نمبر لیکر پاس ہوجاتے ہیں ۔ ان تینتیس فیصد پاسنگ مارک کی تاریخ بڑی شرمناک ہے ۔ 1857ءکی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب انگریز ہندوستان پر پوری طرح مسلط ہوا اور اس نے ہندوستانیوں کے لئے تعلیمی نصاب تیار کیا تو اس وقت کسی بھی امتحان میں ہندوستانیوں کو پاس کرنے کے لئے مطلوبہ نمبر کی بحث چھیڑی۔ اس وقت میٹرک کے امتحانات میں انگریزوں کے پاسنگ مارک پینسٹھ فیصد ہوتے تھے ۔ہندوستان پر قابض انگریز نے سوچا کہ اس برصغیر کے رہنے والوں کا دماغ آدھا ہے اور عقل کے معاملے میں بھی یہ آدھے ہیں اس لئے انہیں پاس کرنے کا معیار پینسٹھ فیصد کا نصف ہونا چاہئے چنانچہ ہندوستانی طلبا ءکے لئے پاسنگ مارک شروع میں ساڑھے بتیس فیصد رکھے گئے اور بعد میں راؤنڈ فگر کرکے کے تینتیس فیصد کر دیئے گئے ۔انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک نے انگریز سے آزاد ی تو حاصل کر لی لیکن یہ آدھی عقل والا ٹیگ ہٹانے کی کوشش کبھی نہیں کی اور آج تک دونوں ممالک کے تعلیمی ادارے اپنے طلبا ءکو صرف تینتیس فیصد نمبردیکر پاس کرتے ہوئے دراصل انگریز کے اس آدھی عقل والے مفروضے کو صحیح ثابت کر رہے ہیں اور کوئی بھی اس کو تبدیل کرنا نہیں چاہتا۔ البتہ یہ آدھے عقل والے جب برطانیہ اور یورپ میں آتے ہیں تو نہ صرف پاس ہوتے ہیں بلکہ کمال کرتے ہوئے انگریزوں کی اس سوچ کی نفی کرتے ہیں ۔ پہلے صادق خان نے لندن کا مئیربن کر اور اب رشی سونک نے اسی برطانیہ کا وزیر اعظم بن کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم برصغیر والے آدھی عقل والے نہیں ہیں۔ رشی سونک کے جد امجد کا تعلق گجرانوالہ سے ہے ۔ وہ پنجابی ہیں جن کے لوگوں نے صرف لطیفے ہی سنے ہیں ۔ لیکن اب وہ ساری دنیا کو بتائیں گے کہ ستاسی فیصد سفید فام پوری عقل والوں کو آخرکار آدھی عقل والے بھوروں کی ضرورت پڑگئی کہ وہ ان کا ملک چلائیں ۔

رشی سونک کی کامیابی کی کہانی بہت دلچسپ ہے اسے ہر اس شہری کو پڑھنا چاہیے جنہیں تقدیر کی ستم ظریفی کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑنا پڑا رشی سونک کی کہانی میں کامیابیوں کو ایسے راز ہیں جو انہیں دوسروں سے ممتا ز بناتے ہیں مثلا ً رشی نے صرف اس لحاظ سے برطانیہ کی تاریخ نہیں تبدیل کی کہ وہ برطانیہ کے پہلے ایشیائی وزیر اعظم بنے ہیں بلکہ انہوں نے یہ تاریخ بھی تبدیل کی ہے کہ وہ برطانیہ کے پہلے وزیر اعظم ہیں جو سفید فام نہیں ہیں ۔ ۔ انہوں نے یہ تاریخ بھی رقم کی ہے کہ ان کے باپ اور دادادونوں امیگرنٹس کی تعریف پر پورے اترتے تھے ۔ ان کے دادا نے متحدہ ہندوستان کے شہر گجرانوالہ سے کینیا ہجرت کی تھی اور اس کے والدین نے کینیا سے برطانیہ ہجرت کی تھی توان کی اس اسٹوری سے یہ سبق ملتا ہے کہ تمام امیگرنٹس کو یہ امید رکھنی چاہیے کہ اگر وہ محنت کرتے ہیں تو وہ پردیس میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں اور اگر وہ مکمل کامیاب نہیں ہو سکے تو ان کے بچے ضرور کامیاب ہو جائیں گے ۔

رشی سونک نے ایک اور تاریخ بھی رقم کی ہے کہ وہ برطانیہ کے پہلے نوجوان ترین وزیر اعظم ہیں انہوں نے یہ کامیابی صرف بیالیس سال کی عمر میں حاصل کی ہے اس سے پہلے برطانیہ میں کوئی بھی وزیر اعظم اس عمر میں اس عہدے پر نہیں پہنچا۔ انہوں نے یہ تاریخ بھی رقم کی ہے کہ وہ برطانوی وزرائے اعظم میں سے امیر ترین وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں ان سے پہلے کوئی بھی برطانوی وزیر اعظم اتنا امیر نہیں تھا لیکن یہ حیرت کی بات نہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی امارت کی وجہ ان کا برطانوی شہری ہونا نہیں ہے بلکہ انہیں یہ امارت بھی ایک انڈین لڑکی سے شادی کی وجہ سے ملی ہے جو کہ ایک انڈین ارب پتی نارائین مورتی کی بیٹی ہیں کیونکہ رشی سونک کے والد تو ایک ڈاکٹر اور ان کی ماں ایک فارمسیسٹ تھیں ۔ لیکن اس وقت وہ امارت کے لحاظ سے اپنے ہی ملک کے بادشاہ کنگ چارلس سے بھی زیادہ امیر ہیں ۔ سونک اور اس کی بیوی کے اثاثوں کی مالیت سات سو تیس ملین پاؤنڈ ہے ۔

رشی سونک کی امارت کا کریڈیٹ قسمت کو نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس میں اس کی والدین کی جانب سے انہیں اچھی تعلیم کے مواقع اور خود رشی کی محنت کا دخل ہے ۔ اگر آپ خود کوئی محنت نہیں کرتے اورکسی اکشاتہ مورتی سے شادی کی انتظار میں ہے تو رشی سونک وہ نہیں ہیں ۔وہ مورتی سے ملنے سے پہلے بھی بہت لائق طالبعلم تھے وہ لنکن کالج آکسفورڈسے فلاسفی ، علم سیاسیات اور معاشیات میں اعلی تعلیم یعنی ایم بی اے کرنے کے بعدکیلیفورنیا کی سٹانفورڈ یونیورسٹی میں تھے کہ انکی ملاقات اکشاتہ مورتی سے ہوئی ۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنی دولت اور اتنی امارت مل جانے کے بعد انہیں محنت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ،اپنی بیوی کا بزنس چلاتے ،گولف کھیلتے اور اپنے اوپن ائیر گرم سوئمنگ پول میں لائف انجوائے کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ دنیا کی معروف ترین فنانشل سروسز کمپنی گولڈمین ساکس میں جاب کی اور پھر برطانیہ میں 2015کے جنرل الیکشن میں حصہ لیا اور ہاﺅس آف کامن کے ممبر منتخب ہوئے ۔ چیف سیکرٹری خزانہ کے عہدے سے ہوتے ہوئے وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالا اورکورونا وائر س کی وبا کے دوران برطانیہ کی معیشت کے ساتھ ساتھ شہریوں کے لئے بہت سے اقدامات کئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

البتہ جو بات اس کہانی میں سب سے دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ وہ رشی سونک جس کے والد ین اور دادا بھی مہاجر تھے وہ خود امیگرنٹس بارے سخت قوانین کے حامی ہیں بلکہ وہ برطانیہ آنے والے پناہ گزینوں کو روانڈا بھیجے جانے والے متنازعہ ترین پلان کے بھی حامی تھے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی وزارت عظمی کے پہلے سو دنوں میں امیگریشن پالیسی کو سخت بنائیں گے ۔غیر قانونی تارکین وطن اور برطانیہ میں آنے والے امیگرنٹس کے معاملے میں وہ پارلیمنٹ کو یہ اختیار دینا چاہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون برطانیہ آسکتا ہے اور کون نہیں ۔اس کے ساتھ وہ جرائم پیشہ افراد کو برطانیہ سے ڈی پورٹ کرنے والے ماضی کے بارہ مہینے کے انتظار کے قانون کو ختم کرکے چھ ماہ کا کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اپنی کابینہ میں جس خاتون سوئیلہ بریومین کو وزیر داخلہ بنایا ہے وہ بھی امیگرنٹس کے خلاف سخت ترین کے علاوہ نفرت انگیز خیالات کی شہرت رکھتی ہیں حالانکہ خود اس سوئیلہ کے والدین بھی ماؤریشیس اور کینیا سے ہجرت کرکے برطانیہ پہنچے تھے ۔ اس کہانی کا اختتام پڑھ کر آپ مضمون کے ٹائٹل پر از سر نو غور کر سکتے ہیں ۔ البتہ اس کہانی میں یہ راز پوشیدہ ضرور ہے کہ آپ محنت سے اس ملک کے حکمران بن سکتے ہیں جو کالونی ازم کے دور میں اپنی کلبوں کے باہر ایک بہت بڑا بورڈ لگا دیتے تھے جس پر لکھا ہوتا تھا ۔۔ ہندوستانیوں اور کتوں کا داخلہ منع ہے ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply