حوریں یا دن میں تارے۔۔ایم اے صبور ملک

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنی طرز کی انوکھی شغلیہ عمرانیہ حکومت کے وزیر اعظم ہوں یا کوئی وفاقی وزیر،کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جب کوئی نہ کوئی ایسی بات ان کے منہ سے نہ نکلے جس سے انتہائی حد تک بے شرم اور بے حسی کا شکار حکمرانوں کی اصل شکل عوام کے سامنے آشکار نہ ہو ،اور عوام کو بھی سوشل میڈیا پر بات چیت کرنے کے لئے  ایک موضوع مل جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں عمران خان نے کہا کہ 2013کی انتخابی مہم کے دوران جب وہ لفٹ سے گر کر زخمی ہوئے اور انھیں شوکت خانم ہسپتال لایا گیا ،تو وہاں موجود ڈاکٹر عاصم نے پتہ نہیں کون سا ٹیکہ لگایا کہ درد غائب ہو گیااور ہوش آنے پر نرسیں انھیں حوریں نظر آرہی تھیں۔

ہمارے ہاں پہلے ہی الطاف حسین اور شیخ رشید جیسے لوگ موجود تھے، جو اپنی زبان اور منہ پر کنڑول رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں،اور ا ب ایک اور صاحب کا اضافہ ہوگیا ہے،جو ابھی تک ذہنی طور پر خود کو وزیر اعظم کی بجائے کنٹینر پر کھڑا شخص خیال کرتے ہیں،جن کی تعلیم برطانیہ میں مکمل ہوئی،شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کی اعلیٰ  اخلاقی اقدار اور سیاسی شعور سے نابلد عمران خان خود کو ایک مغربی معاشرے کا سیاستدان سمجھتے ہیں،کیونکہ وہاں سیاستدانوں کی ایسی کھیپ پائی جاتی ہے جو اپنے سیاسی حریفوں کی ذاتیات پر کیچڑ اُچھالنے سے لے کرغیر اخلاقی مذاق کرنے کو معیوب نہیں سمجھتے،لیکن وہ مغرب ہے،جس کی اپنی اقدارہیں،گو وہاں بھی شائستہ اور مہذب سیاستدانوں کی کمی نہیں،لیکن پھر بھی اسکے باوجود ہمارے ہاں اور مغرب کے درمیان بہت فرق ہے،جس طرح کی باتیں اور حرکتیں آئے دن عمران خان کرتے ہیں،وہ مغربی معاشرے میں تو قابل برادشت ہیں،لیکن پاکستان میں ایسا کہنے پر بعض اوقات لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔

جیسا کہ ان کا موجودہ فرمان کہ نرسیں مجھے حوریں نظر آنے لگ گئی تھیں،مجھے دنیا کا تو پتہ نہیں،لیکن پاکستان میں نرسنگ کے شعبے سے وابستہ خواتین کو ہمارے ہاں ہرچھوٹا بڑا سسٹر کہہ کر پکارتا  ہے،یہ  عزت ،احترام اور ایک ایسے رشتے کا نام ہے جس سے کہنے والا اور جسے سسٹر کہا جائے خود بخود ایک مقدس رشتے سے بندھ جاتے ہیں،لیکن وزیر اعظم صاحب نے اس مقدس رشتے کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا اور جو منہ میں آیا کہہ دیا،اخلاقی طور پر اگر دیکھا جائے تو اس بات کو یوں سرعام کرنا نہایت ہی معیوب بات ہے اور وہ بھی کسی عام شہری کی جانب سے نہیں،بلکہ ملک کے ایک ذمہ دار عہدے پر فائز شخص کی جانب سے ایسی بات چہ معنی دارد؟

اصل میں عمران خان حکومت اپنی ناکامی کی خفت مٹانے کے لئے جان بوجھ کر ایسی حرکتوں پر اُتر آئی ہے کہ عوام کی توجہ حقائق کی بجائے اسی شغل میلے کی جانب لگی رہے،اور ہمیں کوئی تنگ نہ کرے،کوئی ایک ایسا عوامی فلاح کا منصوبہ ابھی تک سامنے نہیں آیا،ماسوائے بی آئی ایس پی کانام تبدیل کرنے،سیاسی مخالفت میں کارڈ پر سے بے نظیر بھٹو کی تصویر ہٹانے،لنگر خانے کھولنے اور ملک و بیرون ملک اپنے سیاسی مخالفین پر کیچڑ اُچھالنے کے۔

مہنگائی نے اب قوم کا وہ حال کردیا ہے کہ لگتا یہی ہے کہ کہیں مزید لنگر خانے ہی نہ کھولنے پڑ یں گے ،عوام کی قوت ِ خرید بالکل ختم ہوچکی ہے،آئے دن بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسوں کی بھرمار ہونے کے باعث ملک میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں ماند پڑچکی ہیں،بڑے تاجر سے لے کر چھوٹے دکاندار تک سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں،حکمرانوں کی نااہلی سے تنگ آکر ان کا اپنا لگایا ہوا ایف بی آر کا چیئرمین رخصت پر چلا گیا،2008سے 2018تک دس سالوں میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں اوسطاً 4.9ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ ہوا،جبکہ صرف 2018/19میں تاریخی 11.1ارب ڈالر اضافہ ہوا،روپے کی قدر بری طرح گر گئی،سابقہ دور میں مہنگائی پر شور مچانے اور ٹیکس لگنے پر وزیر اعظم کو چور کہنے والے عمران خان کے دور میں شرح نمو 5.53سے کم ہو کر 3.29پر آچکی ہے،شرح نمو کی کمی سے معاشی سرگرمیاں کم ہوجاتی ہیں،جس سے غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے،معیشت کا حجم جو نواز شریف دور میں 313ارب ڈالرز تھا اس وقت کم ہو کر 208ارب ڈالرز پر آچکا ہے،آئی ایم ایف کے لگائے وزیر خزانہ،گورنر سٹیٹ بنک،اور چیئرمین ایف بی آر نے پاکستانی معیشت کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں عالمی ساہوکاروں کی کڑی شرائط ماننے کے سوا کوئی اور چارہ باقی نہیں رہا،اور یہی وہ طریقہ ہے ایک اسلامی ایٹمی طاقت کو زیر کرنے کا،کیونکہ اگر ملک کی معیشت ہی جواب دے جائے،اگر عوام کو روٹی ہی کھانے کو نہ ملے،بیمار کو دوائی نہ میسر آئے،بچوں کی تعلیم رُک جائے،تو بھوکے کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کسی ایٹمی ملک کاباشندہ ہے یا کسی کمزور ریاست کا،ایسے میں وہ اپنا دین،دھرم،رشتے ناتے سب باتیں بھول جاتا ہے،اُس سے اگر کوئی پوچھے کہ دو اور در کتنے ہوتے ہیں تو وہ چار روٹیاں جواب دے گا۔

ابھی حال ہی میں آٹے کا بحران جس میں عمران خان کے اردگرد موجود  لوگ ملوث ہیں،لیکن سیاسی مجبوریاں کہہ لیں یا پھر دوستی،وزیر اعظم صاحب نئی نویلی دلین کی طرح پیا کا نام لینے سے شرما رہے ہیں،مبادا نکاح ہی نہ ٹوٹ جائے،ایسی حکومت،ایسے رنگیلے وزیر اعظم کی  پاکستان کی عوام اور ریاست ِ پاکستان کو چنداں ضرورت نہیں ،جن کی عوام آٹے کی وجہ سے خجل خوار ہو رہی ہے اور وزیر اعظم صاحب جانتے بوجھتے اس بحرا ن کے ذمہ داران اور اس سے مالی فائدہ اُٹھانے والوں کے نام بتانے سے گریزاں ہوں،جن صاحب کو ٹیکہ لگنے کے بعد نرسیں سسٹرز کے بجائے حوریں نظر آتی ہوں،افسوس اُن کو بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں خودکشیا ں کرتے لوگ نظر نہیں آرہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جناب آپکو توٹیکہ لگنے کے بعد حوریں نظرآگئیں،لیکن اس قوم کو مہنگائی اور بے روزگاری کا جو ٹیکہ آپ لگارہے ہیں، اس نے ہمیں دن میں تارے دکھا دئیے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply