بخشیے جناب جنرل۔۔صولت پاشا

سر آپ کی توسیع کے عمومی سے معاملے کو ان نا اہل بد بختوں نے غلط طریقے سے ہنڈل کیا اور جب سپریم کورٹ میں معاملہ گیا تو ہڑبڑا گے بوکھلاہٹ میں اور اونگی بونگی حرکتیں کرتے رہے، آپ نے تو ہیرنگ کے دوران سپریم کورٹ کے ریمارکس سنے ہوگے، بد تمیزی کی حد کر رکھی تھی، ذلیل کر رہے تھے ، پوری قوم شرمندہ تھی کہ اسکے سپہ سالار کو اس طرح تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

غیر آئینی اور غیر قانونی کہہ کے چھ مہینے احسان کے طور پر دئیے تو ان نا اہل و نا لائق وزیروں نے یقین دلایا کہ یہ بس تین سال کے لئے ہو گی- لیکن اب جو تفصیلی فیصلہ دیا ہے اس میں تو لکھ دیا کہ آپ ریٹائر ہو چکے ہیں اور اگر مناسب قانون سازی نہیں ہوئی تو چھ مہینے احسان کا پیریڈ بھی شمار نہیں کیا جائے گا ، ہر طرح سے تکلیف دی گئی ہے –

دیکھا جائے تو آپ نے سب کچھ دل پر جبر کر کے برداشت کیا ہوگا اور اگرآپ کا توسیع لینا ملک کے عظیم تر قومی مفاد میں نہ ہوتا آپ ان سب پر لعنت بھیج کربا وقار طریقے سے عزت کے ساتھ گھر چلے جاتے ، لیکن کیوں کہ پاکستان آرمی میں کوئی اور تجربہ کار جنرل موجود نہیں جو کمان سنبھال سکے اس لئے مجبوراً آپ کو خود کو مزید تین سال کے لئے پیش کرنا پڑا- جس کا علم اس وقت ہوا جب آپ کو خود گھنٹوں پی ایم کے دفتر میں بابوؤں کے ساتھ بیٹھ کے اپنے نوٹیفکیشن کو درست کرانا پڑا، یہ الگ بات کہ آپ کے اس عمل کا بھی سپریم کورٹ نے مضحکہ اڑایا اور اس نوٹیفکیشن کو بھی غلط ٹھہرا دیا۔

آپ جیسے حلیم طبع اور حیران کن قوت برداشت رکھنے والا افسر کم ہی دیکھا ہے.۔۔۔اور کوئی ہوتا تو دو میں سے ایک راستہ ضرور اپناتا، یا تو سیدھا سیدھا ریٹائرمنٹ پر چلا جاتا اور اگر نہ جاتا تو جس جس نے آپ کے  ساتھ یہ زیادتی کی ہے اسکی خوب خبر لیتا۔قانون کے وزیر اٹارنی جنرل کیا وزیر اعظم کو لگ پتا جاتا کہ نا اہل لوگوں کے لئے آپ کتنے سخت ہیں نکال باہر کرتے اور یہ جو جج صاحبان ہیں ان کو بھی ذرا ایسا پیغام جاتا کہ کم از کم تفصیلی فیصلے میں تو مزید گند نہ کرتے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں آپ کے صبر اور استقامت کو سلام پیش کرتا ہوں۔۔آپ نے توسیع لینے کا سوچا اور قائم ہیں سب کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ ہماری فوج آپ جیسے افسران کی وجہ سے ہی اس مقام تک پہنچی ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply