ماں ۔۔۔ یاسمین


وہ انتظارگاہ میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ سامنے کمرے سے جو بھی باہر نکلتا خوش نکلتا ماسوائے چند ایک کے۔ اُس کا اپنا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ وہ پہلے بھی دو بار اپنے میاں اور ساس کی ساتھ آچکی تھی، مگر اب کی بار وہ اکیلی تھی سو خاموش بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ دل میں مُرادیں لیے اوپر والے کو منتیں، ترالے اور واسطے دیے  جا رہی تھی۔ وہ خاموش انکھوں سے بہتے آنسو بار بار صاف کر رہی تھی کہ کسی کو ان آنسووں کی خبر نہ ہو۔

بالآخر اُس کی باری آہی گئی۔ وہ خوب ہمت کرتی کمرے میں داخل ہوئی۔ ڈاکٹر عائشہ اُسے دیکھتے ہی مُسکرا دی۔ اُس کی پہلی دو بیٹیاں بھی ڈاکٹر عائشہ ہی کے کلینک میں ہوئی تھیں۔ 

ڈاکٹر عائشہ نے تسلی سے اُس کا معائنہ کیا اور اُسے خبر دی کہ اب کی بار پھر بیٹی ہو گی۔ یہ سُننا تھا کہ سعدیہ نے چھوٹے بچوں کی طرح بلک بلک کے رونا شروع کر دیا۔ اُسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اُس کے آنسووں نے سب کہہ دیا۔ ڈاکٹر عائشہ نے اُسے پانی پلایا اور پوچھا کہ بیٹے کی خواہش کس کو ہے۔ سعدیہ نے بتایا کہ ماں بیٹا دونوں بیٹے کی خبر سُننے کے لئے بیتاب ہیں اور اب کی بار بیٹی پہ وہ مجھے میری بچیوں سمیت گھر سے نکال دیں گے۔ ڈاکٹر عائشہ جانتی تھی کہ سعدیہ کے پاس اس دنیا میں واحد ٹھکانہ اُس کے شوہر کا گھر ہے۔ ڈاکٹر عائشہ نے اُسے دلاسہ دیا اور وعدہ کیا کہ شام کو چھٹی کر کے وہ سیدھا سعدیہ کے گھر آئے گی اور اُس کی ساس اور میاں سے بات کرے گی۔ ایک محلہ میں رہنے کی وجہ سے دونوں کو کہیں اس بات کی تسلی تھی کہ ماں بیٹا مان جائیں گے۔ 

شام کو سعدیہ نے جیسے ہی گھر کی دہلیز میں پاؤں رکھا سامنے برآمدے میں بیٹھی ساس نے اپنے بیٹے کو آواز دی۔ ” امجد۔۔ لے آ گئی ہے منحوس۔ پوچھ اس سے۔ پوتا ہو گا ناں اب کی بار؟ ارے غصب خُدا کا۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ میرے بچے کی نسل ہی ختم کرنے پہ تُلی ہے یہ لڑکی”۔ 

سعدیہ نے پوری کوشش کی کہ ساس کی بات کو سُنی ان سُنی کر کے بچیوں کو کھانا دینے اور گھر کے دوسرے کاموں میں مصروف ہو جائے تاکہ اُسے شام تک کا وقت مل جائے مگر ساس نے اُسے اواز دے کے بُلا لیا۔ 

عدالت لگ چُکی تھی جہاں مُنصف سزا دینے کے لئے تیار تھا اور جلاد نوچنے کو بے چین۔ 

“ہاں بول اب ڈاکٹرنی نے کیا کہا ؟ بیٹا ہے ناں؟”

“اماں جی۔ اپ خود ایک عورت ہیں، ایک ماں ہیں آپ تو سمجھ سکتی ہیں کہ جو بھی ہو اُس پہ میرا کوئی اختیار نہیں۔”

“سعدیہ! لیکچر نہ دئے تو بتا اماں کو جو اماں کہہ رہی ہیں۔ “ امجد بولا۔ 

“امجد اپ تو پڑھے لکھے ہیں آپ تو پڑھ چُکے ہیں۔ میرا اس معاملے میں۔۔۔” سعدیہ نے انہیں سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی۔ 

“امجد یہ جو گول مول کر رہی ہے ناں یہ پھر بیٹی جننے گئی۔ رے کل موہئ، مرن جوگی، ڈائن ‘ تُجھے کھانے کو میرا اکلوتا بیٹا ہی ملا تھا۔ اب بتا میرے بیٹے کی نسل کیسے چلے گی؟ دیکھ لے امجد۔ میں نہ کہتی تھی کہ یہ بیٹیوں سے گھر بھرے گی۔ “

“نہیں اماں اس میں میرا کیا قصور ہے یہ تو الّلہ (سبحان وتعالٰی ) کی مرضی ہے۔ “

“امآں کے سامنے زبان چلاتی ہے؟؟ تو حکم کر اماں بتا کیا کروں میں اس کا؟” اور یہ کہتے کہتے امجد نے سعدیہ کو اُس کی چوٹی سے پکڑ کر ایک تھپڑ مُنہ پہ رسید کر دیا۔ 

“ارے کرنا کیا ہے۔ میں تو کہتی ہوں اس بچی سمیت اسی کو مار دے۔ پر وہ جو دو چڑیلیں ہیں۔ اُن کو کون سنبھالے گا؟”  اماں بے رحمانہ انداز میں بولیں۔ 

“امآں میں اس تیسری کو ہی مار دیتا ہوں”۔ 

سعدیہ جو اب تک امجد سے اپنے بال چھڑانے میں لگی تھی، نے یہ سُنتے ہی فوراً اپنی کوکھپہ ہاتھ رکھ دیا۔ وہ گھبرا گئی۔ آنسو ایک دم رُک گئے۔ آواز حلق میں کہیں دب گئی اب نہ امجد کے تھپڑ کا درد

تھا اور نہ ہی بال درد کر رہے تھے جو ابھی تک امجد کھینچے کھڑا تھا۔ 

سعدیہ نے ڈرتے ہوئے ‘ التجا بھری نظروں سے اُس عورت کی طرف دیکھا جو ماں تھی مگر وہاں سے صرف نفرت اور حقارت ملی۔امجد کی بالوں پہ گرفت ڈھلی پڑھی تو وہ فوراً سے پہلے امجد کے پیروں میں جھک گئ اور اُسے واسطے دینے لگ گئی منتیں ترالے کرنے لگی۔ 

اسی دوران اُس کے رحم پہ ایک زور دار لات پڑی اور وہ دس قدم دور جا گری۔ اُس کے مُنہ سے چیخ نکلی مگر جسم پہ درد کی وجہ سے نہیں بلکہ روح پہ جو ضرب لگی اُس وجہ سے وہ سنبھل نہ پائی تھی کہ امجد نے بالوں سے گھسیٹنا شروع کیا۔ سعدیہ ہاتھ جوڑ رہی تھی، اماں کو آوازیں دے رہی تھی، مگر سب بیکار۔ امجد نے اُسے گھسیٹتے ہوئے اُسے کے پیٹ میں دو تین لاتیں دے ماریں۔ اُس نے خود کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر بےسود۔  اُسے برامدے کی تین سڑھیوں سے پیروں کے ساتھ دھکا دے کے گرایا  گیا۔ 

سعدیہ اپنے پیٹ کو ہاتھوں میں لئے رو رہی تھی۔ وہ محسوس کرنے کی کوشش میں تھی کہ شاید کہیں کوئی حرکت ہو۔ شاید کوئی سانس اس کی کوکھ اجڑنے نہ دے۔ اچانک اُسے احساس ہوا کہ گرم گرم خون اس کی ٹانگوں میں بہہ رہا ہے۔ اپنی دو بیٹیوں کو دروازے میں کھڑے دیکھ کر اس کی چیخیں رک گئیُ جو ماں کو اس طرح دیکھ کر خاموش انکھوں سے رو رہی تھیں۔ 

سعدیہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنی چادر ٹانگوں پہ پھیلا دی اور اپنی دو بیٹیوں کی طرف بانہیں پھیلا دیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ ایک بیٹی کو قربان کر کے دو بیٹیوں کی چھت کا سودا کر چکی تھی۔ 

Facebook Comments

یاسمین
کہنے کے لئے کچھ خاص نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply