• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا مسئلہ: شرعی اور سماجی و سیاسی تناظر ۔۔ڈاکٹر محمد شہبازمنج

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا مسئلہ: شرعی اور سماجی و سیاسی تناظر ۔۔ڈاکٹر محمد شہبازمنج

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حوالے سے ملک کے مختلف حلقوں میں بحث جاری ہے۔ علما کے  ایک طبقے کے مطابق ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا احترام تو مسلمہ ہے اور ان کی پہلے سے موجود عبادت گا ہوں کی حفاظت بھی ضروری ہے اور جہاں ضرورت ہو ان کی مرمت بھی ہو سکتی ہے، لیکن کوئی نئی عبادت گاہ تعمیر نہیں کی جا سکتی ، کیوں کہ یہ گناہ میں تعاون کے مترادف ہے۔ دوسری طرف بعض علما اس کا جواز ثابت کر رہے ہیں۔بعض کا کہنا ہے کہ جہاں غیر مسلموں کی آبادی ہو وہ اپنی عبادت گاہ بنا سکتے ہیں، لیکن حکومت اپنے خرچ پر ایسا نہیں کر سکتی۔ ہمارے نزدیک زیرِ بحث مسئلےکو شرعی تناظر کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی تناظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے، جس کی طرف شاید بہت کم توجہ دی جا رہی ہے۔ ان سطور میں ہم اختصار کے ساتھ اس مسئلے کے شرعی اور سیاسی و سماجی تناظر کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جہاں تک شرعی پوزیشن کی بات ہے تو مسلم فقہی تراث میں اس حوالے سے تفصیلی مباحث موجود ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے شہر میں عمومی طور پر تو غیر مسلموں کو اپنی نئی عبادت گا ہ بنانے کی اجازت نہیں، تاہم مسلمانوں کے مفتوح علاقے میں اگر کسی جگہ غیر مسلم قانونی طور پر آباد ہو جائیں تو ان کو اپنی نئی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی اجازت ہے، اور جن علاقوں کی اسلامی مملکت میں شمولیت کے وقت غیر مسلموں سے معاہدہ کیا گیا ہو ،اور وہاں کی زمین میں ان کے مالکانہ حقوق مانے گئے ہوں، وہاں بھی وہ اپنی نئی عبادت گاہ بنانے کے مجاز ہیں۔

اس پوزیشن کے تناظر میں، جب کہ اس کے ساتھ جدید قومی ریاستوں میں اقلیتوں کی پوزیشن کو روایت سے مختلف انداز سے دیکھنے کا جواز بھی موجود ہو، یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ موجودہ دور کی اسلامی ریاست میں شرعی نقطۂ نظر سے غیر مسلم اپنی مذہبی ضرورت کے تحت عبادت گاہ بنا سکتے ہیں۔جہاں غیر مسلموں کی اتنی آبادی ہو کہ وہ اپنی مذہبی ضرورت کے لیے عبادت گاہ کی تعمیر ضروری محسوس کریں اور قانونی تقاضے پورے کر کے کوئی جگہ حاصل کر یں اور اس پر عبادت گاہ تعمیر کرنا چاہیں، توان کو اس سے روکنا غیر شرعی ہو گا، کیوں کہ اگر انھیں اپنی مذہبی ضرورت کے تحت عبادت گاہ میں جا کر عبادت کی اجازت نہ دی جائے ، تو یہ ان کے مذہبی حقوق سے محروم کرنا ہوگا، جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔ جن علما کا خیال ہے کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہ بنانا گناہ میں تعاون کرنا ہے، یہ ہر گز درست نہیں۔اس لیے کہ اگر یہ گناہ میں تعاون ہے تو پہلے سے موجود عبادت کی مرمت وحفاظت اور سب سے بڑھ کر اس میں عبادت کی اجازت دینا کس بنا پر گناہ میں تعاون شمار نہیں ہو گا؟اس لیے ممانعت کے کسی قطعی حکم کے بغیر محض اس طرح کامنطقی استدلال مخالفین کی بجائے مجوزین کے حق میں جاتا ہے۔ لہذا دانش مندی کا تقاضا ہے کہ ایسی کمزور دلیلیں نہ دی جائیں۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اسلام آباد میں متعلقہ لوکیشن میں واقعی اتنے ہندو موجود ہیں کہ ان کو ایک الگ مندر کی ضرورت ہے؟ تو یہ معاملہ شرعی بنیادوں پر نہیں انتظامی بنیادوں پر ایڈریس کیا جانا چاہیے۔ اگر متعلقہ ادارے ہندو کمیونٹی کی ایسی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو انھیں اس کی تعمیر کی اجازت دینے میں کوئی حرج نہیں اور اگر ایسی ضرورت نہیں تو اسے مذہبی مسئلہ بنائے بغیر انتظامی بنیادوں پر روک سکتے ہیں۔

ہمارے نزدیک اس مسئلے کا سماجی و سیاسی پہلو خاص اہمیت رکھتا ہے، لیکن حکومت اور علما بھی اس طرف کم توجہ دے رہے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ جب اس سے پہلے کئی گرجا گھروں اور گرودواروں کی تعمیر سرکاری سرپرستی میں کی گئی، تو یہ مسئلہ بالکل نہیں اٹھا۔سوال یہ ہے کہ جن علما کے نزدیک مندر کی تعمیر ہر صورت غلط ہے، انھوں نے گرجا گھروں اور گردواروں کی تعمیر پر تو سوال نہیں اٹھایا تھا! اس سے ایک تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے میں بے جے پی اور ہندو دشمنی کے جذبات کا رفرما ہیں، ورنہ یہی پاکستانی دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی تعمیر پر بھی اسی طرح اعتراض کرتے!اس تاثر کا ایک حل یہ ہے کہ ہندوؤں کے معاملے میں پاکستانیوں کی حساسیت بلاشبہ زیادہ ہے، جس کا لحاظ بھی حکومت کو ایسے کسی اقدام کے حوالے سے ضرور رکھنا چاہیے، جس کی بظاہر اور معقول وجہ ہندوستان میں ہندوؤں کا مسلمانوں سے بہت سے حوالوں سے ظالمانہ سلوک ہے۔ دوسری طرف اس مسئلے کی حساسیت میں اور اضافہ اس طرح سے ہوا ہے کہ انڈیا کے انتہا پسند ہندوؤں نے شادیانے بجانے شروع کر دیے ہیں کہ ہندوستان نے پاکستان کو اسلام آباد میں مندر بنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ گویا ہماری حکومت کو لینے کے دینے پڑ رہے ہیں ۔ وہ خیر سگالی کا پیغام دینا چا رہی ہے اور بھارتی حکومت اور میڈیا اسے الٹا اس کی کمزوری اور ہندوستان کی فتح کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کواس بے جا خیر سگالی کی کیا ضرورت ہے! جو اس کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان پہنچائے اور اپنے دشمن کے سامنے کمزور ثابت کرے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت نے اس مندر کی تعمیر کو بھی اپنی سادہ لوحی میں گرودوارے اور گرجے کی تعمیر کا سا معاملہ سمجھ لیا ہے، حالانکہ یہ اس سے یکسر مختلف معاملہ ہے۔ ارباب ِ اختیار اگر اس حقیقت کو سمجھ لیں تو انھیں اس معاملے میں درست فیصلے میں آسانی رہے گی۔

اب جب کہ حکومت ایک معاملے کی شروعات کر چکی ہے اور عوامی و مذہبی پریشر کی بنا پر اس میں تھوڑا تعطل پیدا ہوا ہے، تو حکومت کے لیے ایک اور مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ وہ نہ تو اس کی تعمیر کی اس طرح سے سرکاری سرپرستی کی پوزیشن میں ہے، اور نہ ہی اس سے مکمل پسپائی اختیار کر سکتی ہے، اس لیے کہ پہلی صورت میں عوامی اور مذہبی ردعمل کا سامنا ہوگا اور دوسری صورت میں ہندو اقلیت کے حوالے سے ہندوستان اور دیگر پاکستان مخالف عناصر کو حکومت اور پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ دیکھو پاکستان اور بطورِ خاص اس کا موجودہ حکمران عمران خان بڑا اقلیتوں کے حقوق کا محافظ بنتا ہے ، لیکن حال یہ ہے کہ مولویوں کا ذرا سا پریشر برداشت نہیں کر سکا اور مندر کی تعمیر و سرپرستی سے ہاتھ روک لیا!

ایک اور اہم بات جس کی طرف بعض علما بھی نے توجہ دلائی ہے ،وہ ہے مندر کی تعمیر میں سرکاری فنڈز کا ستعمال ۔ علما کا کہنا ہے کہ غیر مسلموں کی عبادت گا ہ پر سرکاری رقم خرچ نہیں کی جا سکتی۔ اس پر بعض اہل فکر کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ غیر مسلم بھی چونکہ ٹیکس دیتے ہیں، تو حکومت کے خزانے پر ان کا بھی حق ہے، اور جہاں کہیں ان کا مذہبی ضرورت کے لحاظ سے مطالبہ ہو، اسے ان کی آبادی کے تناسب سے پورا کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ہماری رائے میں یہاں بھی معاملے کو شرعی کی بجائے سماجی تناظر میں دیکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ شرعی بنیادوں پر تو سرکاری فنڈز کے استعمال کے لیے بھی کوئی فقہی جزئیہ نکالا ہی جا سکتا ہے ،لیکن سماجی بنیادوں پر ایسا کرنا خلافِ مصلحت ہے۔اگر آبادی کے تناسب اور ضرورت کے بعد عبادت گاہ بنانا حکومت کی ذمہ داری بن جائے ،تو پھر مسلمان بھی مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ٹیکسوں سے جہاں ہم مناسب سمجھیں حکومت ہمیں مسجد بنا کے دے، اور یہ مطالبہ بھی شرعی لحاظ سے غلط نہیں ہوگا، لیکن سب جانتے ہیں کہ موجودہ سماجی و سیاسی تناظر میں حکومت اس مطالبے کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ تو جو جواب سرکاری فنڈز کو مسجد کے لیے استعمال نہ کرنے کی حمایت میں دیا جائے بعینہ وہی جواب مندر کو سرکاری فنڈز فراہم نہ کرنے کے حق میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک یہ بات درست ہے کہ حکومت اس معاملے میں انوالو نہ ہو ، ہاں ہندوں کو جگہ اور ضرورت کے بارے میں متعلقہ اداروں کی تصدیق کے بعداپنی کمیونٹی کی سطح پر مندر بنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اس پر سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ پھر پہلے دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کے معاملے میں ایسا کیوں نہ کیا گیا؟ تو اس کا جواب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ان کے معاملے میں بھی درست صورت یہی تھی ، اگر حکومت نے ان کو بھی کمیونٹی کی سطح پر یہ کام خود کرنے کا کہا ہوتا تو آج یہ مشکل پیش نہ آتی۔ تاہم اس سے بھی اہم سماجی و سیاسی تناظر یہ ہے کہ ہندوؤں کے معاملے میں ان کے اپنے رویے کے تناظر میں پاکستانی مسلمان زیادہ حساس ہیں، لہذا ان کی عبادت گاہ کی تعمیر کو دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی تعمیر پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ یہی تو وہ بات ہے جو ہم ان سطور میں عرض کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہر معاملے کو صرف شرعی بنیادوں پر دو اور دو چار کی طرح حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے سیاسی و سماجی پہلوؤں اور نتائج و اثرات کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے اور وسیع تناظر میں یہ شریعت کا بھی تقاضا ہے ، خود حضورﷺ اور صحابہ بھی بہت سے امور کے فیصلے ان کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے کرتے تھے، اور صرف اس بات کو کافی نہیں سمجھتے تھے کہ شرعا ً فلاں کام ہو سکتا ہے تو بس ہو جانا چاہیے یا کوئی چیز بادی النظر میں شریعت کے خلاف نظر آتی ہو اور فی الحقیقت مقاصدِ شریعت کے خلاف نہ ہو تو اس کو بالکلیہ رد ہی کر دینا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے نزدیک اسلام آباد میں مندر کے حوالے سے پید ا ہوگئی موجودہ پیچیدہ صورت ِحالات سے نکلنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کو جہاں ہے وہیں ٹھنڈا ہونے دے، اور کچھ وقت گزار کر اپنی انوالومنٹ ترک کر کے مندر کی تعمیر کو روٹین کی ایک کاروائی کے طور پر متعلقہ اداروں سے اٹیچ کر دے ، جو اسی طرح معمول کے مطابق اس کو حل کریں، جیسے کسی بھی عبادت گاہ کے مسئلے کو قانون کے مطابق حل کیا جا تا ہے۔ یوں اگر ہندوؤں کو مطلوبہ جگہ پر عبادت گاہ بنانے کی اجازت ملتی ہے، تو وہ اپنے پیسے سے اس کو بخوشی تعمیر کر لیں گے اور اگر نہیں ملتی تو انھیں اور دیگر لوگوں اور اقوام کو یہ باور کرانا آسان ہو گا کہ پاکستان میں ہندوؤں کو اس معاملے میں کسی قسم کے مذہبی تعصب کا سامنا نہیں، ان کی عبادت گاہ مطلوبہ جگہ پر انتظامی و قانونی بنیادوں پر نہیں بن سکتی، اور یہ صورت حال بالکل ایسے ہی جیسے متعلقہ ادارے کسی جگہ پر مسجد کی تعمیر بھی روک سکتے ہیں۔ ھذا ما عندی والعلم عند اللہ۔

Facebook Comments