مولانا مودودی کی شخصیت نگاری/نعیم اختر ربانی

شخصیت نگاری اردو ادب کی اصناف میں سے ایک معزز صنف ہے۔ اس کے کئی اہم مقاصد ، وجوہات اور فوائد ہوتے ہیں جو اس صنف سے اور اس میں پروئے گئے ادب سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ شخصیت نگاری میں عموماً دو اہم سوالوں کے جواب تلاش کیے جاتے ہیں۔

ایک یہ کہ جس شخصیت کو تمام لوگوں میں سے چنا گیا ہے اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ کیوں کہ ہر دن سینکڑوں لوگ اس دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور کئی ایک خیر آباد کہہ کر رخصت ہوتے ہیں۔ جانے والوں کے عزیز و اقارب اور چاہنے والے بھی ہوتے ہیں مگر صرف اسی شخص کو موضوعِ سخن بنایا جاتا ہے جو اس قابل ہو کہ اس کی ذات اور خوبیوں سے نئی نسل مستفید ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس شخصیت کے محاسن اور فضائل کو مرتب کیا جاتا ہے۔

دوسرا یہ کہ جس شخصیت کو پیش کیا جا رہا ہے اسے کس انداز سے پیش کیا جائے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کا مقصد نئی پود کی راہنمائی کرنا ہوتا ہے جب ایک شخصیت نگار اس سوال کو مدنظر رکھ کر اس شخص کی تصویر الفاظ کی صورت میں سجائے گا تو اس سے وہ مواد نکال کر سامنے لائے گا جو قابلِ اخذ و استفادہ ہو۔ ان محاسن کو پیش کرے گا جن سے روشنی بہم پہنچے اور تاریکی کے بادل چھٹ سکیں۔

یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں سوالوں کا محرک “تلاشِ انسانیت” ہے۔ ایک ایسے انسان کی تلاش جس کی خوبیوں سے آنے والے فائدہ اٹھا سکیں ، جس کو اپنا ہیرو قرار دے سکیں اور جس کو سامنے رکھ کر اپنی شخصیت پر اس کے اثر کو قبول کرنے کی ولولہ انگیزی ان میں موجود ہو۔ ایک ناول نگار کی طرح شخصیت نگار بھی ایک ہیرو تراشتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہ ہیرو ایک حقیقی دنیا کا باشندہ ہوتا ہے اور اس کا ماضی اور مستقبل دونوں تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہوتے ہیں۔

مولانا مودودی کی شخصیت کے متعلق بہت کچھ لکھا اور لکھوایا گیا ہے۔ مگر افسوس کہ ان دونوں سوالوں کو مدنظر رکھ کر نہیں لکھا گیا۔ ان کے محاسن کو جان بوجھ کر دبایا گیا اور ان کی چھوٹی چھوٹی برائیوں کو ناقابلِ فراموش جرائم کے فہرست میں شامل کر کے ایک ایسا “ولن” بنانے کی کوشش کی گئی کہ جو اپنی تعلیمات ، ہدایات ، فکر و فلسفہ سے یکسر مختلف ہو۔

آج جب ایک خالی الذہن مولانا مودوی کی فکر کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں مولانا کا ایک خاکہ بنتا ہے۔ اس خاکے کو مولانا کی کتب اور تحریریں ، فکر و نظر کے پیش قیمت ابواب اور داعیانہ تڑپ کے بہت سارے مناظر مزید تقویت دیتے ہیں۔ لیکن پھر جب وہ ان کے ہم عصر علماکی تحاریر اور کتب کی طرف نگاہ کرتا ہے تو وہاں مولانا مودودی یکسر ایک نئے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں فکر و نظر ہے نہ داعیانہ کردار۔ ایک تنقید کا جہان ہے جس کی بنیادوں میں سیاسی مفادات کا گارا ہے اور کچھ جانبداری کا سیمنٹ بھی۔ مگر وہاں وہ مولانا مودودی نہیں ملیں گے جو خود ان کی کتب اور تحریروں کی شکل میں زندہ ہیں۔

انسان ہونے کے ناطے ہر شخص میں کمی اور کوتاہیاں موجود ہوتی ہیں۔ انسان فرشتہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب شخصیت نگاری کی بات آتی ہے تو شخصیت نگار اس صنف کی ترتیب میں ایک خاص پسِ منظر کے تحت کچھ لکھنے کی جسارت کرتا ہے کہ آنے والوں کو یہ باور کروایا جائے کہ فلاں شخص اپنی کمزوروں کے باوجود اپنی خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر رہا ، اس میں خامیاں بھی سر اٹھائے کھڑی تھیں لیکن وہ ان سے معرکہ آرا رہا ، اس کی اچھائیاں برائیوں پر غالب رہیں اور یوں اس نے متضاد صفات کے باوجود عمدہ صفات کا پردہ اپنے اوپر ڈالے رکھا۔

ایک اچھے شخصیت نگار کی ذمہ داری ہے کہ وہ شخصیت کے حسن و جمال کو اس پیرائے میں بیان کرے کہ جس سے اس کے فکر و فن کا مظاہرہ بہترین طریقے سے ہو سکے۔ یعنی ایک مثالی شخصیت بناتے ہوئے اس بات کا اظہار اس کے الفاظ سے ہو رہا ہو کہ انسان کمزوریوں ، خطاؤں اور لغزشوں کے باوجود بھی باوقار اور بلند ہو سکتا ہے۔ یعنی اس کے سامنے تعمیری فکر و سوچ کارفرما ہو۔

لیکن جب یہ ہی شخصیت نگار ایک شخصیت کے معائب کو کرید کرید کر سامنے لائے گا ، پوشیدہ چیزوں کو ممتاز کر کے اس کی چھاپ اس شخصیت کے سائے اور بدن پر چھوڑنے کی کوشش کرے تو لامحالہ یہ ایک غیر ممدوح کوشش ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ایک تو یہ تاثر قائم ہو گا کہ انسانیت کی معراج پر پہنچنے کے باوجود انسان پستی کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکتا۔ چنانچہ اس صورت میں شخصیت نگاری اپنے فن میں تعمیرِ انسانیت کے بجائے تخریبِ انسانیت کا نمونہ بن جائے گی۔

وہ راستہ بند ہو جائے گا جو آنے والے کو اچھا انسان اور بڑا انسان بننے کی طرف راغب کرے ، اس کا ذہن اس کے سامنے اس خدشے کا اظہار ہمیشہ کرے گا کہ عظمت نام کی کوئی شئی نہیں ہوتی۔ درحقیقت پستی کا دلدادہ عظمت کا شاہکار ہوتا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ انسانیت کی معراج پر پست لوگوں کا راج ہوتا ہے۔

حقیقتاً ایک شخصیت نگار کی ذمہ داری ہے کہ اپنی نسل کو اسلاف اور ان کے ہم عصر اشخاص کی خوبیاں اور اچھائیاں منتقل کرے۔ ان تک وہ باتیں پہنچائے جو ان کی تعمیرِ انسانیت میں کام آ سکیں۔ یہ ایک میراث ہے جو نئی پود تک اس طرح پہنچے کہ وہ اس سے مستفید ہو سکیں۔ اسی کے متعلق نعیم صدیقی مرحوم نے کہا ہے کہ “میراث جو پیچھے سے آگے کو منتقل ہونی چاہیے وہ صرف خیر و خوبی کی میراث ہے۔ کمزوریاں جواہر کے خزانے میں شامل نہیں کی جا سکتیں”۔

ایک شخص میں خوبی و خامی کا موجود ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ انسانی حسن و امتیاز ہے کہ وہ بہرطور شر اور خیر سے مجسم ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گلاب کا پھول جو باغ کی رونق و شان ہوتا ہے اس کے عین نیچے کانٹے بھی جڑے ہوتے ہیں۔ ہم گندم کی فصل کاٹتے ہیں تو مٹی کا کافی حصہ بھی اس کے ساتھ ہمارے گھروں تک منتقل ہوتا ہے۔ لیکن کھانے کے لیے ہم صفائی کا خاص اہتمام کرتے ہیں ، دانوں سے مٹی کے چھوٹے چھوٹے حصوں کو نہایت صفائی سے الگ کر دیتے ہیں اور گندم کو قابلِ استعمال بنا لیتے ہیں۔ بعینہ کارخانہ خداوندی بھی کام کر رہا ہے اور اسی کی تلقین ہمیں دی گئی ہے کہ جہاں خوبیوں کا جہان آباد ہے وہاں سے گندگی کا ایک تھیلا اٹھا کر چوک میں لٹکانا کوئی دانش مندی اور انصاف نہیں۔

مولانا مودودی کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے۔ ان کے محاسن کا جہان آباد ہے۔ ان کی فکری موشگافیوں کے دلدادہ دنیا بھر میں موجود ہیں۔ مولانا کے پاس صرف فلسفہ اور فکر نہیں بلکہ اس کا عملی اطلاق اور تحرک بھی موجود ہے۔ یہ ایک فلسفے اور فکر کے لیے نہایت اہم ہے۔ بسا اوقات کوئی فکر صفحات اور کتابوں کی تہہ میں بہت مفید اور قابلِ عمل معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی اسے معاشرے کی گود رکھا جاتا ہے تو اس کا پندار کھل جاتا ہے۔ مگر مولانا کے ہاں اس کا تصور نہیں۔ ایشائی کوچک کے علاوہ عرب دنیا میں بھی ان کی فکری توانائیوں کا واضح اثر رہا ہے۔ اب اس صورت میں بھی مولانا کے شخصیت نگاروں نے ان کے ساتھ وہ معاملہ نہ کیا جو کیا جانا چاہیے تھا۔ خصوصاً خود ان کے ملک میں ان کے خلاف ان کے ہم زبان لوگوں نے وہ سلوک کیا جو شاید غیروں سے بھی متوقع نہیں تھا۔

مغرب کے زیرِ تسلط شخصیت نگاری کے باب میں ایک اہم اضافہ غیر جانبداری اور حقیقت نگاری کے عنوان سے ہوا۔ مغرب کے شخصیت نگار اور سیرت نگار کا خیال یہ ہے کہ وہ ایک مصور کا کردار ادا کرتا ہے۔ ہر شخصیت کے رنگ و خدوخال میں خوبیوں اور خامیوں دونوں کو یک جا کرتا اور ان دونوں کا اظہار بلا تامل کرتا ہے۔ وہ اپنے قلم کے تحت ہر ایک عنوان اور باب کو لانا چاہتا ہے۔

مگر اس میں دلچسپی کا پہلو یہ ہے کہ حقیقت حال اس سے قدرے مختلف ہے۔ مغرب کا سیرت نگار خوبیوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ جن خامیوں کے درپے رہتا ہے وہ درست نہیں۔ کیوں کہ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی نا کسی طرح خامیوں کا ایک جہان پیدا کر کے شخصیت کے توازن کو درست کرے مگر اس تگ و دو میں وہ کبھی تلاش کی ان وادیوں میں چلا جاتا ہے جہاں غلطیاں بھی غلطیاں شمار نہیں ہوتیں۔ بسا اوقات واقعات کو اس زاویے سے دکھانے کی کوشش کرتا ہے جس سے پڑھنے والا ذہن لامحالہ منفی پہلو پر جا رُکے۔ اگر تلاش بسیار کے بعد بھی کوئی نکتہ نہ ملے جو کمزوریوں کو اجاگر کر رہا ہو تو پھر کبھی بچپن کے واقعات کو موضوع سخن بنایا جاتا ہے تو کبھی خوبیوں کے گلشن سے کسی نہ کسی طرح کانٹے برآمد کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔

اس میں نقصان یہ ہے کہ شخصیت نگاری کی اصل روح “تعمیرِ انسانیت” مجروح ہو جاتی ہے۔ شخصیت نگار کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ نسلِ انسانی کے لیے ایک خاکہ بنائے اور ان میں رنگ بھرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی معراج اور رفعت کے لیے ایسے محاسن کا جہان آباد کرے جس سے نئی نسل راہنمائی لے سکے اور اپنی تعمیر و فلاح کے لیے ان نمونہ ہستیوں سے استفادہ کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مولانا مودودی کی شخصیت نگاری میں مغربی سیرت نگاروں کا سا رنگ اختیار کیا گیا ہے اور اس میں طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان کے محاسن کو یکسر مسترد کر کے معائب کو دو اور چار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ غیر جانبداری جو مغرب کا دعویٰ ہے اسے مولانا کے مخالفین نے قبول نہیں کیا اور شخصیت نگاری کے فن کو انہوں نے دور سے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ اگر مغرب کی دیکھا دیکھی میں غیر جانبداری کو ہی اپنا لیا ہوتا تو آج ان کے محاسن دوگنا ہوتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply