جہانگیر بدر صاحب میرا قلم پاکستان کا ترجمان ہے۔۔گل بخشالوی

جہانگیر بدر صاحب میرا قلم پاکستان کا ترجمان ہے۔۔گل بخشالوی/صحافت کا بنیادی تصورکسی بھی معاملے سے متعلق تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام   ہے۔ صحافت کا پیشہ اپنانے والے کو صحافی کہا جاتا ہے ۔ سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔ لیکن جہاں تک بات تحقیق کے متعلق تحقیق ہے تواگر کوئی مظلوم قانون والوں سے مایوس ہو کر کسی صحافی کے پاس داد رسی کے لئے آتا ہے تو ایسی صورت میں ظالم سے تصدیق کو بلیک میلنگ کہتے ہیں ۔ مظلوم کا ساتھ دینا ہی صحافت ہے ، قطع نظر اس کے کہ ساتھ دینے کا ردِ عمل کیا ہوگا ۔ صحافی کو جان لینا چاہیے کہ اگر اللہ نے قلم کی طاقت سے نوازا ہے تو اپنی آخرت سے محبت کرے، اس لئے کہ کفن میں اس کے ہاتھ میں اس کی دولت نہیں قلمی کردار ہو گا۔

صدر مملکت عارف علوی نے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کے ایکٹ پر دستخط کر  دیے اور کہا کہ یہ قانون صحافی کی زندگی کی حفاظت اور بدسلوکی کے خلاف تحفظ کا حق فراہم کرتا ہے۔ لیکن قانون تو پہلے بھی بہت ہیں، ضرورت قانون پر عمل درآمد کی ہے ۔ہمارے دیس کی عدالت میں قانون کو نہیں سوچا جاتا ، اس وکیل کو سنا جاتا ہے جو اپنے مقدس پیشے کے وقار کو مجروح کر تے ہوئے ظالم کو مظلوم ثابت کرتا ہے ۔ہم اہلِ قلم کو جان لینا چاہیے کہ اپنا دیس اپنا ہے ۔ اپنے دیس اور دیس کے عوام کو سوچیں گے تو دنیا سنورے یا نہ سنورے آخرت ضرور سنور جائے گی۔

صحافی کا قلم معاشرے کا آئینہ دارہے، سچائی کا ساتھ دینا مشکل ہے لیکن سچائی کو کوئی بھی صاحب ِ ضمیرنظر انداز نہیں کر سکتا ، سچائی کے جرم میں اہلِ قلم کئی ایک مسائل کا سامنا کرتاہے ۔سچ اور جھوٹ کی جنگ میں کئی ایک صاحب ِضمیر صحافی شہید ہو گئے ہیں ، یہ بھی حقیقت  ہے کہ میدان ِ صحافت میں قلم فروشوں نے صحافت کے مقدس پیشے کو زرد صحات کا نام دے کر قلم اور اہلِ قلم پر ظلم کیا ہے، صحافی جانتا ہے کہ سچائی کے علم بردار اہل قلم کی زبان بندی اور زندہ درگور کرنے کے لئے ہر حربے  میں ناکامی کے بعد ظالم خود تو سامنے نہیں آتا  لیکن کرائے کے قاتلوں کا سہارا ضرور لیتا ہے۔ قلم برادری کسی صحافی کے جاں سے گذر جانے کے بعد دو چار دن اخبارات میں مذمت کی خبروں میں ماتم کر کے خاموش ہو جاتی  ہے ، اس طرح ظلم جیت جاتا ہے اور سچائی دفن ہو جاتی ہے۔

شعبہ صحافت سے وابستہ ر ہنے والے ضیا الدین ( مرحوم ) کہتے ہیں کہ ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹونے انھیں کہا ، آپ کا لب و لہجہ اتنا سخت کیوں ہے تو ضیا صاحب نے جواب دیا کہ میرا کام آپ کو سچ بتانا ہے، خوشامدی تو آپ کے ارد گرد بہت ہیں۔بےنظیر بھٹو نے اپنے دونوں دورِ حکومت میں ضیا الدین مرحوم سے کہا کہ ان کے مشیر بن جائیں لیکن ضیا صاحب کا ایک ہی جواب تھا کہ ‘میں صحافی ہوں اور صحافی ہی رہوں گا’۔’ضیا مرحوم کہتے تھے کہ خبر بنانے میں اگر کوئی کمزوری ہو تو خیر ہے لیکن اخلاقی کمزوری نہیں ہونی چاہیے، صحافی کرپٹ نہیں ہونا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور ِ حکمرانی میں ، موہری شریف کے سالانہ عرس میں تشریف لائے ہوئے جہانگیر بدر نے صحافیوں کے جھرمٹ میں کہا بخشالوی صاحب آپ اسلام آباد آئیں آپ کو وزارت ِ اطلاعا ت میں اہم پوسٹ دے دیتے ہیں تو میرا جواب تھا جہانگیر بدر صاحب میں پیپلز پارٹی کا جیالہ ضرور ہوں لیکن میں اپنا قلم پیپلز پارٹی کا ترجمان نہیں بنانا چاہتا ، میرا قلم پاکستان کا ترجمان ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply