قیامت اور کتنی بار بپا ہوگی؟۔۔سیّد مہدی بخاری

قلم کی قَسم اور جو کچھ وہ لکھتا ہے(القرآن)

پاپولر سٹانس لینا بہت آسان ہوا کرتا ہے۔ ہزاروں لائیکس و کمنٹس جگمگاتے ہیں۔ دائیں بازو کی سوچ اس ملک میں بڑے لاڈوں سے پالی پوسی گئی ہے۔ مذہب، عسکریت اور جنس کی بنیادیں گہری ہیں۔ یاد رہے کہ مذہب کا مطلب وہ مذہب جس کا ملا اور ملائیت نے پرچار کیا ہے۔یہاں مذہب سے مراد دین اسلام نہیں کیونکہ وہ تو سات دہائیوں سے اس ملک میں خطرے میں پڑا ہوا ہے، یہی ہم کو بتایا جاتا ہے۔ جالب ساڑھے تین دہائیوں پہلے ہی کہہ گئے تھے
خطرہ ہے زرداروں کو
دین کے ٹھیکیداروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
سازشی نظریات یعنی کانسپریسی تھیوریز میں گھرا یہ ملک اور اس کی عوام اپنی مجموعی ناکامیوں کا ذمہ بیرونی عناصر یا پھر اندرونی طاقت کے مرکز پر ڈالتی رہتی ہے اور خود کو بہلاتی رہتی ہے۔ یہی ہوتا آیا ہے۔ یہی ہوتا رہے گا۔ دین کامل ہوئے چودہ سو سال بیت گئے مگر آج تک دین یہاں زیر تعمیر ہے۔ آئے دن ترمیمی فتوے نکلتے ہیں۔ دوسروں کے ایمان کو جج کیا جاتا ہے۔انسانی زندگی و موت کے فیصلے منبر والے کھلے عام تقریروں کے ذریعے کرتے ہیں۔

دوسری جانب ایک طاقتور طبقہ ہے جس کے زیر اثر سارا نظامِ  مملکت ہے۔ وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق قانون،آئین، نظام کا بازو بھی مروڑنا جانتا ہے پھر بھی عوام ہے کہ ان کی آنکھوں پر وہ کالی پٹی بندھی ہے جو احاطہ عدالت کے باہر مجسمہ عدل پر بندھی ہوئی ہے۔

ایک لکھنے والے، ایک کالم کار، ایک مفکر و محقق کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ طاقتوروں کو اپنے قلم کے ذریعہ مزید طاقت بخشنے لگے۔ اس کا کام اپنے پڑھنے والوں کو سیدھا رستہ دکھانا ہے۔ غلط و صحیح کی تمیز کرنا ہے۔ پاپولر سٹانس تو بھیڑ چال ہوتی ہے۔ یہاں سوشل میڈیا پر بدقسمتی سے اکثریت اسی بھیڑ چال کا شکار ہونے لگتی ہے۔ جہاں ریوڑ چل پڑتا ہے اسی سمت کو یہ بھی چل پڑتے ہیں۔
عقل و شعور میں باریک سا پردہ ہوا کرتا ہے۔ عقل انسان کو مفاد پرستی و موقع پرستی پر راغب کرتی ہے۔ شعور انسان کو راستہ دکھاتا ہے، غلط و صحیح کی تمیز عطا کرتا ہے۔ عقل تو عطیہ خداوندی ہے۔ عقل انسان کی پیدائشی میراث ہے جبکہ شعور انسان کو خود محنت سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ کتابوں، نظریات، آئیڈیل ازم، زندگی میں در آنے والے حوادث و تجربات، محرومیوں و آسائشوں سے کشید کرنا پڑتا ہے۔

اس معاشرے میں اب تو سب لکھا، سب پڑھا کلیشے لگتا ہے۔ پھر بھی احباب ہیں کہ دھڑا دھڑ لکھے جا رہے ہیں۔ کچھ دوستوں نے مذہبی تحریروں سے ذہن سازی کرنے کو قلم گھسا ہے کچھ سیاسی و سماجی مسائل پر الفاظ ضائع کر رہے ہیں۔ یہ سب ضیاع ہے۔ کوئی ایک انسان کا بچہ بنا ہو تو بتایئے۔ ذہن سازی والے معاشرے اور ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا تو گلی کا تھڑا ہے جہاں ہر راہ چلتا تماشا دیکھنے کو رکتا ہے پھر اپنی ہانکتا ہے اور اگلی گلی میں مڑ جاتا ہے جہاں اسے اور تھڑے مل جاتے ہیں۔

گھسے پٹے جملوں میں یعنی کلیشے میں یعنی ایسے الفاظ جو اپنا مفہوم کھو چکے ہوں ایک جملہ ہے ” دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا” ۔کان پک گئے ہوں گے سن سن کر۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر دنیا میں دہشت گردی بنام مذہب ہی ہوتی ہے۔ چاہے گوتم کے ماننے والے بھکشو ہوں جو مسلمانوں کو قتل کریں یا انتہا پسند ہندو ۔۔ اسلام کے نام لیوا داعش مائنڈڈ یا افغانی سٹوڈنٹس ہوں یا عیسائیوں کی عسکری تنظیمیں۔ یہودیت کے ڈیتھ اسکواڈ ہوں یا زرتشتوں کے عسکریت پسند ۔۔

دنیا میں خون بنام مذہب جتنا بہا اور بہتا چلا آ رہا ہے وہ سیاسی جنگوں اور ملکوں کے تصادم سے کہیں زیادہ ہے جس کا شمار بھی ممکن نہیں۔مجھے یہ جملہ سن کر ہنسی آتی ہے “دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا” ۔دہشت گردی جنم ہی مذہبی عقائد اور جنسی سپرمیسی سے لیتی ہے اور بند ذہنوں میں نشوو نما پاتی ہے۔

کوئی دانشور مجھے ایک مثال ایسی دے دے جہاں لا دین لوگوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا ہو کہ تم ہمارے نظریے کے مخالف ہو ؟ عالمی جنگیں Racial supremacy کی بنیاد پر لڑی گئیں۔
یہ وہ معاشرہ ہے جہاں مظلوم ظالم سے یہ نہیں کہتا کہ میں اس زیادتی پر عدالت جاؤں گا بلکہ منت کرتا ہے کہ اللہ کا واسطہ نہ کرو ایسا، خدا دیکھ رہا ہے۔ خدا خوفی لوگوں میں از خود پیدا نہیں ہوا کرتی۔ دین پیدا کرتا ہے۔ ہم کتنے کو دیندار ہیں یہ ذکر ہی چھوڑیئے۔ معاشرے قانون کے تابع ہوتے ہیں۔ قانون ہی ان میں خوف پیدا کرتا ہے۔ یہاں ریاست و قانون نامی کوئی شے ہے تو بتایئے۔
نہ خوف خدا نہ قانون کا ڈر، ایک مسلسل بے حسی، لگاتار تماشا ، قسط وار المیے اور مرحلہ وار عذاب۔ یہ ہے ریاست۔

مٹی سے محبت ہوا کرتی ہے صاحب، وطن انسان کا وہ ہوتا ہے جہاں اسے ذہنی سکون ملے۔ مٹی سے رشتہ ، پیٹ و سکون کے آگے ماند پڑ جاتا ہے۔ اس ملک سے ہر سال ہزاروں ڈگری یافتہ ، ہنر مند، قابل افراد نکل جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کسی نااہل، بیکار اور غیر ہنرمند کو ویزے نہیں دیا کرتے۔

اخلاق، مروت، دیانت، رحمدلی، خوف خدا، حلال، رشتے ناطے، خندہ پیشانی، حب الوطنی، قوم، ملت، وغیرہ وغیرہ یہ سب الفاظ اپنا مفہوم کھو چکے ہیں۔ یہ جن جملوں میں استعمال ہوتے ہیں وہ کھوکھلے لگنے لگتے ہیں۔ ایک ہی قلم حق ہے جو ہمارے اعمال نامے لکھتا جا رہا ہے۔ جس دن کھلیں گے اس دن قیامت ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم ہر سانحے پر روتے ہیں اور پھر زندگی اگلے ہی لمحے معمول پر آ جاتی ہے۔ یہی ہوتا آیا ہے یہی ہوتا رہے گا۔ یہ آج کی بات نہیں برسوں پرانا قصہ ہے۔ منو بھائی مرحوم یاد آ گئے
چِٹے ورقے دَین شہادت کالی شاہ جہالت دی​
سچل وعدہ معاف گواہی، نئیں رہی لوڑ وکالت دی​
غصے دے نال تھر تھر کنبے کرسی عرش عدالت دی​
پر اجے قیامت نئیں آئی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply