جذباتی گھوڑے۔۔تنویر سجیل

جذباتی گھوڑے۔۔تنویر سجیل/ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ آپ کسی جگہ  نوکری  کرتے ہیں اور وہاں پر موجود آپ کے ساتھی آپ سے کسی ذاتی عناد کی وجہ سے آپ سے متعصبانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں پھر وہ اپنی غلط نمبر کی عینک کی سوچ کے فلٹر سے روز اپنے  اس تعصب کو منافرت کے پانی سے سیراب کرتے ہیں اور ایک روز وہ پودا اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ اس پودے کی متصب چھاؤں میں آپ کے دوسرے قریبی ساتھی بھی سانس لینا شروع کر دیتے ہیں۔

سانس لینے کی یہ مشق ان کو ایسی گھٹن میں مبتلا کر دیتی ہے کہ ان کی  سوچ سمجھ جو کافی حد تک پہلے ہی رخصت ہو چکی ہوتی ہے تو باقی ماندہ بھی دماغ کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے تب سوچ کی جگہ جذبات لینا شروع کر دیتے ہیں جن کی شدت اتنی منہ زور ہوتی ہے کہ وہ ان کے اپنے بس میں ہی نہیں رہتے پھر جذبات ہی وہ قوت بن جاتے ہیں جو ان کے ہر اک ایکشن کو ایک ڈائریکشن دیتے ہیں اور اس ڈائریکشن کا اسکرپٹ بھی اس ہدایت کار کے پاس ہوتا ہے جس نے تعصب کا وہ پہلا بیج بویا ہوتا ہے اس پہلے شخص کے پاس    موجود ایک غیر عقلی جواز ہاتھ لگ جاتا ہے جب وہ اپنے ساتھیوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگتا  ہوا دیکھتا ہے۔

یہاں سے پھر وہ خونی کھیل شروع ہوتا ہے جو وہ اس غیر عقلی جواز کو دوسروں کے سامنے رکھ کر ان سے اپنے آپ کے درست ہونے کی سند حاصل کرتا ہے اس جواز کو ان کے مچلتے جذبات کو گرمانے کے لیے ایندھن کا کام بھی لیتا ہے اور پھر وہ موقع کی تاک میں بیٹھ  جاتا ہے کہ کب پہلی گالی نکالنی ہے جو جنگ کے آغاز کا طبل بجا ئے گی، اور پھر باقی فوج ایک ایسے بندے کو فتح کرنے کے لئے تڑپے گی جس کو یہ تک معلوم نہیں ہوگا کہ وہ قصور وار کتنا ہے ۔۔کیا اس نے کوئی قصور  کیا بھی  ہے؟ کوئی ایسا جرم کیا ہے جس کی سزا ابھی تک قانون کی کسی کتاب میں درج نہیں ہوئی؟

مگر یہ سب عقل مندی کی باتیں ان جذباتی گھوڑوں کو کیسے سمجھ آ  سکتی ہیں جن کی عقل گھاس چرنے گئی ہوتی ہے ،جنہوں نے یہ فیصلہ پہلے سے ہی کر لیا ہوا ہے کہ وہی خدا ہیں وہی قانون ، وہی مالک ہیں وہی مسلمان   اور صرف ان کے پاس ہی یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی انسان کے ساتھ وہ سلوک کریں جو حیوان بھی دوسرے حوالے سے نہ کرتے ہوں ، تب ان کے اندر مسلمانی والاجن ایسا بھوت بن جاتا ہے جو انسانی تذلیل کی نئی  تاریخ  رقم کرتا ہے، جس کی خونخواری خونخواروں کو بھی رُلا دیتی ہے۔

آج بھی تو یہی ہوا ہے کہ ایک ایسے شخص کو مسلمان نہ ہونے کی وہ سزا ملی ہے کہ جس کا تصور بھی ناممکن تھا، جس کے ساتھ کیے  گئے سلوک نے سارے جہان میں ہمارے مسلمان ہونے کی  پہچان  ایک خونخوار انسان کے طور پر کروادی  ہے، جس نے ثابت کیا ہے کہ ہم جنت کے ٹکٹ بانٹنے والے ایسے مسلمان بن گئے ہیں جن کو یہ تک بھی علم نہیں کہ معراج ِ انسانیت کی مثال والے اسلام کے پیغمبر ﷺ  کی  زندگی کے اوّلین چالیس سال اس وقت کے غلیظ ترین معاشرے میں ایک مثالی کردار کے طور پر سامنے آئے تھے، ایک ایسا بے مثال کردار جس کی مثالیں اور احترام دشمن  بھی کرتے تھے ۔اس کردار پر ہی  تو اسلام کی عمارت کو کھڑا کیا گیا تھا مگر افسوس وہ کردار آج کے مسلمان نے اسلام سے ایسا خارج کیا ہے کہ وہ تو اپنے سگے بھائی سے بھی برسوں منہ موڑ لیتا ہے ،ایرے غیرے کی تو بات ہی کیا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر چھوڑیں ! ہمیں کیا لینا  دینا ،ہم تو ٹھہرے پکے مسلمان۔۔ جن کے ہاتھ میں جنت کا ٹکٹ ہے اور جن کے پاس ہر اختیار ہے کہ وہ کیسے کسی بھی انسان کو رسوا و خوار کر دیں اور انسانیت شرما کے رہ جائے۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply