ڈاکٹر اسرار احمد/ معصوم مرادآبادی

قرآن کریم کے بے مثال مفسر و مدرس ڈاکٹر اسرار احمد   26 اپریل 1932 کو صوبہ ہریانہ کے ضلع حسار میں پیدا ہوئے تھے۔ قرآن کریم ڈاکٹر اسرار احمد کی زندگی اور افکار وعزائم کا سب سے بڑا محور تھا۔ انہوں نے تمام زندگی قرآنی تعلیمات کو عام کرنے اور خدا کے کلام کا فیض اس کے بندوں تک پہنچانے میں بسر کی۔ ان کا انتقال 14 اپریل 2010 کو لاہور میں ہوا۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ میں نے 14اپریل کی صبح جب اپنے ایک دوست اعزاز حسن کو فون کرکے یہ کہنا چاہا کہ مجھے اپنے ایک غیر مسلم صحافی دوست کے لئے قرآن کے ہندی ترجمے کا نسخہ درکار ہے تو اعزاز حسن کی آواز رندھی ہوئی تھی۔ انہوں نے رندھے ہوئے گلے سے مجھے یہ اندوہ ناک خبر سنائی کہ گزشتہ شب کے آخری پہر میں ڈاکٹر اسرار احمد کا لاہور میں انتقال ہوگیا ہے۔اناللہ وانا الیہ راجعون!

ڈاکٹر اسرار احمد کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا عالم یہ تھا کہ جونہی ان کے انتقال کی خبر دنیا میں عام ہوئی تو لوگ زاروقطار روتے ہوئے نظر آئے۔ ایک اطلاع کے مطابق 100سے زیادہ ممالک میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ برصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ خلیجی ممالک،یورپ اور امریکہ میں ان کے بے شمار عقیدت مند تھے۔

میرے لئے یہ خبر اس لئے زیادہ اندوہ ناک تھی کہ میں کم وبیش 25برس سے ڈاکٹر اسرار احمد کے رابطے میں تھا۔ ان سے پہلی ملاقات دہلی میں اس وقت ہوئی جب یہاں ان کے شناساؤں کی تعداد بڑی مختصر تھی کیونکہ اس وقت تک ڈاکٹر اسرار احمد اور ان کی دعوتی سرگرمیوں کا تعارف ہندوستان کے مذہبی اور علمی حلقوں تک محدود تھا۔

یہ مارچ 1986کا واقعہ ہے کہ مولانا افتخار فریدی مرحوم نے مرادآبادسے مجھے ایک پوسٹ کارڈ کے ذریعہ یہ اطلاع دی کہ ڈاکٹر اسرار احمد دہلی تشریف لارہے ہیں اور وہ جامع مسجد کے نزدیک ’ہوٹل ڈی رومانہ‘ میں قیام کریں گے۔ میں ڈاکٹر اسرار احمد سے شرف نیاز حاصل کرنے ہوٹل پہنچ گیا۔ وہ ایک مختصر کمرے میں قیام پذیر تھے۔ مولانا افتخار فریدی سے ڈاکٹر اسرار احمد کا پرانا تعلق تھا لہٰذا اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے مجھ پر خاص شفقت فرمائی۔ بعد کو جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میں مولانا عبدالملک جامعی مدنی کا بھانجا ہوں تو وہ اور خوش ہوئے کیونکہ میرے حقیقی ماموں مولانا عبدالملک جامعی سرزمین حجاز میں تحفیظ القرآن کے مدارس کے نگراں تھے۔ یہ ادارہ انہوں نے ایک پاکستانی شہری محمد یوسف سیٹھی کے تعاون سے قائم کیا تھا کیونکہ حجاز میں حفظ قرآن کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا اور نماز تراویح میں لوگ قرآن دیکھ کر پڑھا کرتے تھے۔ مولانا عبدالملک اور محمد یوسف سیٹھی نے سعودی عرب کے کئی شہروں میں تحفیظ القرآن کے مدارس قائم کئے اور جب ان کا انتقال ہوا تو حجاز میں کم وبیش ایک لاکھ حفاظ موجود تھے۔ تحفیظ القرآن کے مدارس کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا عبدالملک جامعی کے تعلق کی بنیاد وہی قرآنی خدمت کا سلسلہ تھا۔

اسی سفرمیں ڈاکٹر اسراراحمد اپنی جائے پیدائش حسار(ہریانہ) بھی تشریف لے گئے تھے۔ وہ حسار کے اس مکان میں بھی گئے جہاں ان کی ولادت ہوئی تھی۔ یہ مکان اب ایک غیرمسلم کی ملکیت ہے ڈاکٹر صاحب نے حسار کی جامع مسجد کا بھی نظارہ کیا جسے اب ایک پاٹھ شالہ میں تبدیل کردیاگیا ہے اور جامع مسجد سے متصل قبرستان کو گھیر کر اس کی دیواروں پر مورتیاں نصب کردی گئی ہیں۔ تقسیم کے بعد اپنی جائے پیدائش کا   یہ ان کا پہلا اور آخری سفر تھا۔

1990میں جب مجھے پاکستان کا سفر درپیش ہوا تو میں نے اس میں سب سے پہلے لاہور کے ویزا کی درخواست دی اور مقامی پتے کے طور پر ڈاکٹر اسرار احمد کا نہایت مختصر پتہ”36-K ماڈل ٹاؤن لاہور“ لکھوا دیا۔ اس طرح دوسری بار ڈاکٹر اسرار احمد کی خدمت میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ انہوں نے بڑی محبت اور شفقت کا سلوک فرمایااور ایک روز دوپہر کا کھانا ساتھ کھانے کی ہدایت دی۔ جب میں ڈاکٹر صاحب کے دستر خوان پر حاضر ہوا تو وہ گویا ہوئے کہ ”میاں معصوم‘ ہم تو تمہارے برادران وطن کی طرح گھاس پھوس کھاتے ہیں۔ تمہارے لئے علیحدہ ڈش تیار ہے۔ مگر میرے اصرار پر انہوں نے وہی دال اور سبزی جو اُن کی مرغوب غذا تھی منگوائی اور اس طرح میں نے ڈاکٹر اسرار احمد کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی زندگی میں سادگی اور انکساری بہت تھی۔ لاہور میں اگرچہ ان کی قائم کی ہوئی قرآن اکیڈمی کا وسیع وعریض کمپلیکس تھا جس میں معروف جرائد ماہنامہ’میثاق‘ اور’حکمت قرآن‘ کے دفاتر بھی تھے اور یہی تنظیم اسلامی کا دفتر بھی تھا لیکن خود ڈاکٹر صاحب کا کمرہ نہایت سادہ تھا اور وہاں جدید آسائشوں کا کوئی گذر ہی نہیں تھا۔وہ پانی بھی صراحی یا مٹی کے گھڑے میں ٹھنڈا کرکے پیتے تھے۔
قرآن مجید کی اردو تفسیر ’بیان القرآن‘نے عالم اسلام میں ڈاکٹر اسرار احمد کو جو مقبولیت عطا کی اس کی مثال موجودہ دور میں نہیں ملتی۔ ان کی گفتگو کا جادو ایسا تھا کہ سننے والے گھنٹوں انہیں مسلسل سننے کے بعد بھی تشنگی کا احساس لے کر اٹھتے تھے۔ڈاکٹر اسرار احمد کے مقبول عام خطبات کے موضوعات کا محور ومرکز قرآن اور اس کی بیش بہا تعلیمات تھیں۔ قرآن مجید، سائنس،امت مسلمہ میں تدبر وتفکر کی ضرورت جیسے اہم موضوعات ان کے عنوانات ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک داعی اور مفسر قرآن ہونے کے باوجود جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے پیغام کو عام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی اور اس کے ذریعے ان کی بات کروڑوں دلوں میں اترتی چلی گئی۔وہ اپنی عمر کے آخری دنوں میں پاکستان سے ایک مذہبی چینل شروع کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی، جس کا انہیں بے حد قلق تھا۔ اگر حکومت پاکستان انہیں اپنا دعوتی چینل شروع کرنے کی اجازت دے دیتی تو وہ عہد حاضر کا سب سے مقبول مذہبی چینل ہوتا۔ ڈاکٹر اسرار احمد اپنی تحریروں اور تقریروں میں پاکستانی معاشرے اور مملکت خداداد کے تضادات کو بڑی جرأت سے بیان کرتے تھے۔ اسی لئے حکومت اکثر ان سے شاکی رہتی تھی۔ ایک زمانے میں انہوں نے خواتین کی بے جا آزادی کے خلاف آواز بلند کی تو بعض ترقی پسند خواتین نے ان کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ تمام تر مخالفت کے باوجود کلمہ حق اداکرنے سے گریزاں نہیں ہوئے۔انہوں نے مرکزی انجمن خدام القرآن کی داغ بیل ڈالی۔تنظیم اسلامی قائم کی اور پاکستان میں تحریک خلافت کا آغاز کیا۔ ہفت روزہ’ندائے خلافت‘ اسی کا ترجمان تھا۔جس کی ذمہ داری ان کے بھائی اقتدار احمد کے سپرد تھیں۔ بعد کو ایک مختصر علالت کے بعد اقتدار احمد صاحب کا انتقال ہوگیا تواس کی اشاعت بند ہوگئی۔ انہوں نے اسلام، قرآن اور پاکستان جیسے موضوعات پر 60 سے زیادہ کتابیں لکھیں جس میں کم وبیش 10کتابوں کا انگریزی ترجمہ ہوا۔ ان کے خطابات اور لیکچرز کی سی ڈیز کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔1978میں پہلی بار ’الکتاب‘نامی پروگرام کے ذریعے پی ٹی وی پر پیش ہوئے۔ اسی طرح ’الف لام میم‘رسول کامل،ام الکتاب جیسے پروگراموں سے لاکھوں فرزندان توحید نے استفادہ کیا۔ پی ٹی وی پر ’الہدیٰ‘ کے نام سے پیش ہونے والا ان کا سب سے مقبول پروگرام تھا۔ انہوں نے تحریر و تقریر دونوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں انقلاب کی روح پھونکی۔ ماہنامہ ’میثاق‘اور’حکمت قرآن‘ان کے ادارے سے شائع ہونے والے 2علمی اور دعوتی جریدے تھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد سے میرے ماہانہ رابطہ کا وسیلہ ان کا رسالہ ’میثاق‘ ہی تھا جس کی اعزازی کاپی وہ مجھے پابندی سے بھجواتے تھے۔ میں ان کے مسلسل مضامین سے،جو اکثران کے خطابات پر مبنی ہوتے تھے،مستفید ہوتا تھا۔ڈاک کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے کے سبب کئی برس سے ’میثاق‘ سے محروم ہوگیا تھا۔

کئی برس جب پی ٹی وی پر ڈاکٹر اسرار احمد کے خطابات اور تفسیر کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ بہت مقبول ہوتے چلے گئے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے خطابات اور تفسیر کی کیسٹس اور سی ڈیاں بازار میں آئے اور وہ برصغیر کے سب سے مقبول مفسر قرآن اور خطیب بن گئے۔ ان کی گفتگو میں بڑی چاشنی تھی اور وہ جس پیرائے اور سیاق وسباق میں گفتگو کرتے تھے، وہ دلوں میں اترتی چلی جاتی تھی۔ ان کے لہجہ میں بلا کی خود اعتمادی تھی۔ قرآنی علوم اور قرآن میں بیان شدہ واقعات کے جغرافیائی خطّوں کی معلومات انہیں اس حد تک یاد تھیں کہ اکثر ان کی گفتگو سن کر ان واقعات کی زندہ تعبیر مل جایا کرتی تھی۔ اللہ تعالی نے ان کی زبان وبیان میں غیر معمولی تاثیر عطا کی تھی۔

نومبر2004میں وہ آخری بار ہندوستان کے سفر پر آئے تو میں نے ان کے گرد عقیدت مندوں کا ہجوم دیکھا۔ وہ نئی دہلی کے گرین پارک علاقے میں ٹھہرے تھے۔ میں حسب معمول ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔سوچ رہا تھا کہ شاید اس ہجوم بیکراں میں ڈاکٹر صاحب مجھے پہچان نہ پائیں لیکن جیسے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی فوراً معانقہ کیا اور کافی دیر تک مولانا افتخار فریدی مرحوم کا تذکرہ کرتے رہے۔ لیکن اس بار ان کی صحت پہلے جیسی نہیں رہ گئی تھی۔ گھٹنوں کی تکلیف نے انہیں پریشان کررکھا تھا۔ میری اہلیہ ڈاکٹر اسرار احمد کے خطابات اور تفسیر قرآن سے بے حد متاثر ہیں۔ ملاقات کے دوران جب میں نے اپنی اہلیہ سے فون پر ان کی گفتگو کرائی تو انہوں نے صرف ایک ہی جملہ کہا تھا اور وہ یہ کہ ”بیٹی میری صحت کے لئے دعا فرمائیں“۔ اس دوران دہلی میں ان کے کئی خطابات ہوئے۔ وہ جماعت اسلامی کے دفتر اوکھلا تشریف لے گئے اور مولانا اخلاق حسین قاسمی سے ملاقات کے لئے انہوں نے پرانی دہلی کے لال کنواں علاقے کا رخ کیا۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی مرحوم سے انہیں بڑا لگاؤ تھا۔ اسی لئے وہ ایک تنگ زینے کی سیڑھیوں سے چڑھ کر بمشکل تمام ان تک پہنچے۔اس بیماری اور تکلیف کی حالت میں انہوں نے عقیدت مندوں کے اصرار پر علی گڑھ، ممبئی اور حیدرآباد کا سفر کیا جہاں ان کے نہایت کامیاب خطبات ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر اسراراحمد جیسی نابغہ روزگار شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ انہوں نے سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قرآن کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ان کی خواہش یہی تھی کہ موجودہ دور میں قرآن کو سائنسی اور عصری موضوعات کے حوالے سے نئی نسل اور غیر مسلموں کے دل ودماغ میں اتارا جائے۔ انہوں نے اپنے سینے اور دماغ کی تمام طاقت اسی کوشش میں صرف کی۔ خدا ان کی قبر کو نور سے بھردے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply