الحساء کی ایک تاریخی حیثیت یہاں کا قدرتی طور پر نخلستان ہونے، یہاں کی قدیم تہذیبی زندگی،اس خطے کی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے اسے تجارتی قافلوں کا ایک اہم راستہ ہونا بھی رہا، اور اس خطے کے وسائل پر قبضے کی ایک اہم کشمکش بھی رہی، یہ تعارف ہے الحساء کے ایک اور آثار قدیمہ سے متعلقہ قلعے کا، جو کئی سو برس پہلے پیش آنے والے واقعات کے شواہد میں آج بھی آثار قدیمہ کی شکل میں موجود ہے، یہ خطہ آثار قدیمہ اور تاریخی محلوں سے مالا مال ہے- آثار قدیمہ کی سیاحت کے شغف رکھنے والوں کے لیے الحساء میں بہت کچھ ہے، مگر اکثر الحساء کے حوالے سے کئی چیزیں کم ازکم عمومی طور پر اتنی سامنے نہیں آتی۔
الحساء شہر کے قریب وسط میں واقعہ یہ قلعہ یا خزام محل کا وقوع بڑا معنی خیز یوں ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے علاقے میں ہونے والی کشمکشوں کو کنٹرول کیا جاتا رہا، عربی زبان میں خزام کے معنی ’زمام‘ کے ہیں- زمام عربی میں اس ڈور کو کہتے ہیں، جس سے اونٹ کو قابو کیا جاتا ہے یہ ایک طرح سے اونٹ کے ناک کی نکیل ہے۔ یہقصر خزام وسط الھفوف شہر کے مغربی محلے المذروعیہ میں واقع ہے، جہاں آج کل قریب قریب غیر ملکی کام کرنے والوں کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے، کیونکہ یہ تھوڑا قدیم علاؤہ ہے، یہاں سعودی عرب میں پیٹرول نکلنے سے پہلے ماضی میں بدو رہا کرتے تھے، جنہیں موسم گرما کے دوران الاحساء کی رہائش بڑی پسند تھی- وہ موسم گرما میں تقریبا دو ماہ یہاں رہا کرتے تھے- بدو الاحساء کے لوگوں سے کھجوروں، اصلی گھی، بعض کپڑوں، بندوقوں اور کارتوسوں کے بدلے ضرورت کا سامان خریدا کرتے تھے-
سعودی مورخین کے مطابق چونکہ مقامی بدو زیادہ تر عثمانی سلطنت کے قبضے کو قبول نہیں کرتے، تو ان کی یہاں موجودگی خطرے سے خالی نہیں ہوتی تھی، اور وہ مقامی لوگ جو یہاں پر مقامی طور پر عثمانی سلطنت کے تابع تھے، ان کے لئے ان بدوؤں کی آمد یہاں کے نخلستانوں کے مالکان کے لیے خطرہ ہوتی تھی، ان کے خطرات کے سدباب کے لیے قصر خزام قائم کیا گیا تھا- یہ قلعہ تقریبا 200 برس قبل تعمیر کیا گیا تھا- یہاں بڑی تعداد میں مقامی فوجی تعینات کیے جاتے تھے جن کا کام الاحساء کے مقامی باشندوں کو ان لوگوں سے بچانا اور مقامی لوگوں کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کو نمٹانا بھی ہوتا تھا، اور تجارتی قافلوں کے لئے ایک طرح سے تحفظ فراہم کرنا بھی رہتا تھا، تاکہ تجارتی قافلوں کے مال اسباب کو بخیر و خوبی تجارت میں معاونت مل سکے۔
یہ قصر خزام تقریبا 5600 مربع میٹر کے رقبے میں بنا ہوا ہے، اس کے اطراف فصیل ہے جو اب خاصی مخدوش تھی، یہ قلعہ جب ہم پہنچے تو تزئین و آرائش کے مرحلے میں تھا، اس کا ایک مرکزی دروازہ محل کی فصیل کی شمالی دیوار کے وسط میں بنا ہوا ہے، جہاں ماضی میں اس کی حفاظت کے لئے محافظ تعینات ہوتے تھے- قصر خزام کا مینار چوکور شکل کا ہے، اس کے بالائی حصے میں شمال کی جانب نگرانی کے لیے تین دہانے کھلے ہوئے ہیں، ماضی میں قصر خزام کے اطراف خندق بھی تھی جسے گزشتہ برسوں کے دوران ختم کر دیا گیا، اس وقت خندق کا مطلب حفاظت تھا، قصر خزام میں ایک مسجد، مہمان خانہ، بیٹھک اور حوض موجود ہیں، قلعہ جب تک فعال تھا اس وقت یہاں کے مقامی حکام ہی نہیں بلکہ ضلع عسیر کے باشندے بھی قصر کا خیال رکھتے تھے کیونکہ ان کی تجارتی ضروریات میں یہ تاریخ کا اہم حصہ رہا تھا۔
نوٹ : یہ تصویریں میں نے سنہء 2022 نئی کے مہینے میں ہی یہاں پر کھینچی تھیں، لیکن چونکہ اس وقت الحساء کے قیام میں کئی مضامین لکھے تو اس قصے کا تعارف لکھنا بھول گیا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں