ننھے فرشتوں سے زیادتی،اب مزید نہیں۔۔۔ایم اے صبور ملک

کوئی دن جاتا   ہے کہ کسی نہ کسی معصوم بچے سے زیادتی کا  کوئی واقعہ سامنے آجاتا ہے ،حالیہ واقعے  کو لے لیں، خیبرپختونخوا کے    ضلع مانسہرہ کے ایک مدرسے میں زیرِ  تعلیم معصوم بچے کے ساتھ مدرسے کے ایک استاد   نے وہ   زیادتی اورتشددکیا کہ بچے   کی آنکھوں سے سے خون آنا شروع ہو گیا۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں  ہے، نہ ہی یہ بچہ پہلا بچہ ہے جس کے ساتھ مدرسے میں اس طرح کی   حرکت کی گئی ہو ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 2019 میں پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے تقریباً 3800واقعات پیش آئے جو کہ ذرائع ابلاغ میں   رپورٹ  ہوئے،قصور میں زینب کے واقعہ کے بعد قانون سازی میں کچھ بہتری لائی گئی لیکن عملی طور پر ابھی ہم اس منزل سے کوسوں دور ہیں کہ جب ہمارے یہ معصوم فرشتے ان ہوس کے پجاریوں اور ان درندوں کے ہاتھوں سے محفوظ رہ سکیں،ان دو واقعات کے علاوہ بے شمار ایسے واقعات بھی ہیں جو کہ   پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں   رپورٹ نہیں ہوتے،یا کچھ واقعات میں بچے کے ساتھ  زیادتی کرنے والا خود یا بچے کے لواحقین دباؤ میں آکر اس طرح کے واقعات   کی رپورٹ  رکوا دیا کرتے ہیں۔

ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس رجحان میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے،مذہبی  سکول کہیں یا مدرسے کہہ لیں،  وہاں یہ رجحان زیادہ  ملتا  ہے، پاکستان جیسے ملک میں جہاں مولوی کا ادارہ زیادہ بااثر ہے اور اگر مولوی کی جانب سے بچوں کے ساتھ جنسی استحصال یا زیادتی کا معاملہ ہو بھی جائے تو اس پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔۔ گزشتہ دنوں میرے ایک جاننے والے نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنا ایک بچہ مدرسے میں داخل کروایا،مدرسے کاجو وقت بچوں کو تعلیم کا ہے وہ کچھ اس طرح سے تھا کہ بچے کو مدرسے   گھر جاتے وقت دیر ہو جاتی تھی اس کا حل مدرسہ کے استاد نے یہ بتایا کہ آپ بچے کو رات کو بھی یہاں چھوڑ جائیں،لیکن میں نے اس بات سے انکار کر دیا ،لیکن بعد ازاں مولوی کے اصرار پر انہوں نے بچے کو مسجد میں چھوڑ دیا لیکن دو تین دن کے بعد بچے کے احتجاج پر  والد کو بچے کو وہاں سے اٹھانا پڑا۔جب والد نے بچے سے یہ پوچھا بیٹا آپ اس مدرسے میں کیوں نہیں پڑھنا چاہتے یا رات کو کیوں نہیں رکنا چاہتے تو بچے نے بتایاکہ مدرسے کا اُستاد اسے اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ رات کو اُس کے ساتھ سوئے او راس دوران اُستاد بچے کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے، اس لئے میں یہاں پر نہیں پڑھناچاہتا۔

بچوں سے جنسی زیادتی کے حوالے سے کام کرنے والی ایک این جی او ساحل کے ساتھ راقم گزشتہ 20 سال سے بطور رضاکار رپورٹر کے کام کر رہا ہے،مجھے اچھی طرح یاد ہے،ساحل کی جانب سے مدرسوں میں زیر تعلیم بچوں کے حالات و واقعات جاننے کے لیے ایک سروے کیا گیا،یقین جانیے میں جس بھی مدرسے میں وہ سروے کرنے کے لئے فارم لے کر گیا تو ہر مدرسے میں ایک دو بچوں نے دبے لفظوں میں مجھے یہ بتایا کہ ان کے ساتھ مدرسہ میں استاد کی جانب سے یاجو چھوٹے بچے ان کے ساتھ بڑے بچے جو ہیں وہ زیادتی کرتے ہیں اور یہ ایک معمول کی بات ہے ۔ستم ظریفی کی بات تو یہ بھی ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار بننے والوں کو ہمارے معاشرے میں کسی قسم کا تحفظ بھی فراہم نہیں کیا جاتا بلکہ بعض یا زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کے والدین جن کے بچے مدرسے میں پڑھتے ہیں کیونکہ مدرسے میں زیادہ تر ان غریب والدین کے بچے پڑھتے ہیں جو بچوں کی تعلیم اور انکے کھانے پینے کا خرچہ  برداشت نہیں کرسکتے وہ اپنے بچوں کو مدرسے میں چھوڑ جاتے ہیں جہاں پر بچوں کومذہبی تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن اس کا ایک بھیانک اورمنفی پہلو بھی جنسی استحصال کی صورت سامنے آجاتا ہے،اس کی شخصیت کو مسخ کیا جاتا ہے اور جب وہ بچہ بڑا ہو کر مولوی بنتا ہے تو وہ اپنے ساتھ کئے گئے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے اپنے مدرسے میں آنے والے بچوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتا ہے۔

اگر مولوی کی بات کی جائے تو ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ صرف مولوی اور مدرسے کو بد نام کیا جاتا ہے اس طرح کے واقعات میں کوئی حقیقت نہیں ہے ان کے بقول اس طرح کی باتیں مذہب،مدرسوں اورمولویوں کو بد نام کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں، بقول مولوی کے ہر شعبے میں کالی بھیڑیں ہیں،مان لیا جناب، لیکن حضور یہ جو آئے روز مدرسوں سے اس طرح کے واقعات سامنے آ رہے ہیں اس کا ذمہ دار آپ کس کو کہیں گے؟

72 سال گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک ہم اپنا اہم ترین شعبہ تعلیم جس کا تعلق ہماری آنے والی نسلوں سے ہے اس کے متعلق کو ئی ٹھوس قانون سازی نہیں کرسکے،ہم کیوں نہیں ایسی ٹھوس پالیسی بنا سکے،کہ جس سے ہماری آئندہ آنے والی نسلیں محفوظ رہ سکیں؟آئے دن ان واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے چند دن سوشل میڈیا اخبارات اور حکومتی سطح پر شور شرابہ ہوتا ہے ملزموں کو کیفرکردار پہنچانے کی باتیں کی جاتی ہیں ان کو نشان عبرت بنانے کی بات کی جاتی ہے لیکن چند دن بعد ہم پھر کوئی نئی خبر کوئی نیا واقعہ رونما ہونے کے بعد اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور پچھلا واقعہ ہم بھول جاتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ جس بچے کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اس کا  مداوا کون کرے گا؟ اس کی شخصیت کو جو مسخ کیا گیا یا اس کو روزمرہ زندگی اور ایک نارمل زندگی کی جانب کیسے لایا جائے گا؟

سوال اس بات کا پیدا ہوتا  ہے کہ جب آئے دن ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا   ہے تو ہم کیوں نہیں اس حوالے سے کوئی ایسی ٹھوس قانون سازی کرتے ،ہم نے مولوی کو کیوں یہ کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ بچوں کو دن کے ساتھ ساتھ رات کے اوقات میں بھی مسجد میں رہنے پر مجبور کریں،ہم کیو ں نہیں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی سطح پر مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرتے ،ہم کیوں نہیں بیت المال اور زکوٰۃ کا نظام بہتر کرتے ہیں، تاکہ ان کی تعلیم رہائش اور کھانے پینے کا خرچ جو ان کے والدین برداشت نہیں کر سکتے، وہ خرچہ بیت المال یا زکوٰۃ کے نظام سے دیا جائے، تاکہ ایک ایسی نسل تیار ہو جو کسی زیادتی کا شکار نہ ہو، جو مولوی کے ظلم و ستم سے بچ سکے اور ساتھ ساتھ یہ جو ہر تفرقے نے اپنی اپنی مسجد بنا رکھی ہے اور اپنے اپنے مولوی تیار کر رہے ہیں اس سے بھی بچا جاسکے،اور اس سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ مدرسہ سسٹم ختم کر دیں ہم کیوں نہیں یکساں تعلیم اورسستی تعلیم کی طرف جاتے کیا ہمارے پاس ایسے اساتذہ نہیں ہیں ،جو بچو ں کو سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی تعلیم دے سکیں،ناظرہ قرآن مجید پڑھا سکیں،دین کی بنیادی جو چیزیں ہیں وہ بتا سکیں آخر ہم کب تک مولوی کے محتاج رہیں گے، یہ مولوی ہے جس نے   ہمارے معاشرے کو اپنے آکٹوپس میں جکڑا ہوا ہے اور ہم اس سے باہر نکلنے کے لئے صرف کہنے کی حد تک تو بات کر دیتے ہیں لیکن جب عملی اقدامات کرنے کی بات آتی ہے ہے تو ہم کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں، ہماری اس کنارہ کشی کی وجہ سے  آئے دن معصوم پھول معصوم فرشتے ان درندوں کی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے   کہ اب وقت آگیا ہے کہ اگر ہم ان تمام برائیوں سے سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے لئے ٹھوس،پائیداراور مستقل قانون سازی کی طرف قدم بڑھانا ہوگا یہ مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہے ہے اس میں ہم جتنی دیر کریں گے، اتنا ہی اپنی آنے والی نسلوں کا نقصان کریں گے ذرا سوچیے یہ جو 3800بچے جن کے ساتھ صرف سال 2019 میں جو واقعات رپورٹ ہوئے زیادتی کی گئی ہے اور یہ جو بچہ مانسہرہ میں جس کے ساتھ اتنا بھیانک انسانیت سوزفعل کیا گیا ہے،اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے،جناب ہم سب پر،ہم سب اسکے ذمہ دار ہیں، ہم اپنے ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں،مسجد ہویا سکول بچوں کے ساتھ جہاں بھی زیادتی ہو،یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے ہم مزید اس کے متحمل نہیں ہو سکتے اس کے لیے ہمیں سول سوسائٹی کو حکومت کو اور معاشرے کے ہر طبقے کو  متحد ہو کر آواز اُٹھانی ہوگی، فرشتوں سے زیادتی اب نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply