• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • طلوع صبح کہاں ، ہم طلوع ہوتے گئے‘‘:مجیدامجدکی برسی پر/ناصر عباس نیّر

طلوع صبح کہاں ، ہم طلوع ہوتے گئے‘‘:مجیدامجدکی برسی پر/ناصر عباس نیّر

ضیہ بیکراں فضائیں جہاں اپنے چہرے سے

پردہ الٹ دیا ہے نمودِ حیات نے
شاداب مرغزار کہ دیکھی ہے جس جگہ
اپنے نمو کی آخری حد ڈال پات نے
گنجان جھنڈ جن کے تلے کہنی سال دھوپ
آئی کبھی نہ سوت شعاؤں کا کاتنے
(گاڑی میں)

تمام چاندی جو نرم مٹی نے پھوٹنے بور کی چٹکتی چنبیلیوں میں انڈیل دی ہے
تمام سونا جو پانیوں ٹہنیوں شگوفوں میں بَہ کے ان زرد سنگتروں میں ابل پڑا ہے
تمام دھرتی کا دھن جو بھیدوں کے بھیس میں دور دور تک سردڈالیوں پر بکھر گیا ہے
رتوں کا رس ہے۔ سبو میں بھر لو
(صاحب کا فروٹ فارم)

مجید امجد کے اشیا سے جمالیاتی تعلق کے سلسلے میں دوایک باتیں مزید توجہ طلب ہیں۔

انھوں نے انگریز رومانوی شعرا کی طرح فطرت کو کسی مابعد الطبیعیاتی سچائی کی علامت نہیں بنایا؛ امجد جنگلوں، پرندوں ، پھولوں ،شام ، صبح ،بہار وغیرہ کو ایک ماورائی دنیا کا ظل نہیں سمجھتے،بلکہ زندگی کی بنیادی قوتِ نمو کا بے محابا اظہار سمجھتے ہیں؛وہ فطرت کی مادیت و شئیت کا احترام کرتے محسوس ہوتے ہیں ۔

فطرت کو ماورائی سچائی کی علامت اس وقت بنایا جاتا ہے ،جب ایک طرف فطرت کے ظاہر و غیاب میں ثنویت کو ایک حقیقت سمجھا جائے اور دوسری طرف فطرت کے غیاب کو اس کے ظاہر پر فوقیت دی جائے۔اس صورت میں فطرت کا غیاب،یا اس کا جوہر ،اس کے ظاہر کے مقابلے میں زیادہ اہم ،بنیادی اور حقیقی ہی ثابت نہیں ہوتا ،بلکہ ابدی اورجاوداں بھی سمجھا جانے لگتا ہے ؛اس کے بعد فطرت کا جوہر خو دبخود مابعد الطبیعیاتی جہت اختیار کر لیتا ہے۔

یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ اس صورت میں فطرت کی شاعری میں ایک خاص طرح کی گہرائی ضرور پیدا ہوتی ہے؛ہم جتنا فطرت کے ظاہر کو دیکھتے ہیں، اس سے زیادہ اس کا باطن ہمیں ایک نئی ،بلند، رفیع دنیا کا احساس دلاتا ہے؛لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ فطرت کے جاودانی،ابدی ،ماورائی پہلو کا عرفان ،اس کے ظاہری جمال کو عارضی سمجھنے کے علاوہ ،معمولی وحقیر بھی سمجھتا ہے؛اور اس بنا پر ہم فطرت کی اصل کو دریافت نہیں کرتے ؛اس سے جمالیاتی تعلق قائم نہیں کرتے ؛اسے اپنے ہی وجود کے بنیادی سوالوں کی تفہیم کی رزم گاہ بنالیتے ہیں ۔

مجید امجد فطرت کی اصل ،اس کی مٹی کی کیف آفرینی، اس کے رنگوں،پھولوں کی سحر انگیزی،اس کے موسموں کی دل فریبی ،اس کے چاندی ،سونے کے بھید سے اپنے تخیل کا رشتہ استوار کرتے ہیں۔(اسی مقام پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ان کی سب نظموں میں فطرت سے جمالیاتی رشتہ موجود نہیں۔ ’بن کی چڑیا‘ جیسی نظموں میں وہ فطرت سے ایک نوع کا فلسفیانہ تعلق قائم کرتے محسوس ہوتے ہیں)۔

فطرت سے متعلق امجد کی یہ نظمیں اس عمومی رائے کی تردید کے لیے کافی ہیں کہ مجید امجد کے یہاں محض یاسیّت اور زندگی کی مسرتوں سے گریز موجود ہے۔

اگرچہ وہ بعض مقامات پر یاسیّت کو اس لیے پیش کرتے ہیں کہ ایک طرف انسانی زندگی کا انجام ان کے پیشِ نظر رہتا ہے، جو الم ناک ہے اور دوسری طرف یاسیّیت بھی زندگی کا حصّہ ہے، انسان لاکھ کوشش کے باوجود اس سے بچ نہیں سکتا۔

یاسیت خواہ کتنی ہی خوفناک اور تباہ کن ہو انسانی دنیا کی حقیقت ہے ؛کوئی التباس اور فریب نہیں اور اتنی ہی بڑی حقیقت جتنی رجائیت ہے۔ بعض اوقات رجائیت کھوکھلی اور یاسیت حقیقی ہوتی ہے؛بلکہ یہ کہنا بھی کچھ غلط نہیں کہ ہمیں رجائی بننا پڑتا ہے ،جب کہ یاسیت ہم پر غالب آتی ہے۔

اصل دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا مجید امجد یاسیت کے غلبے کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ،یا اسے ایک ناگزیر حقیقت سمجھتے ہوئے، انسانی وقار کا لحاظ رکھتے ہوئے قبول کرتے ہیں،اور اس کے مقابل زندگی کا غیر یاسیت پسندانہ نقطہ ء نظر بھی پیش کرتے ہیں یا نہیں؟اس کے جواب میں مجید امجد کا بس ایک شعر کافی ہے۔

طلوعِ صبح کہاں ہم طلوع ہوتے گئے
ہمار اقافلہ بے دراروانہ رہا
(اپنی کتاب ’’ مجید امجد: حیات، شعریات، جمالیات ” سے اقتباس)

Advertisements
julia rana solicitors london

(مجید امجد کی برسی کل تھی۔)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply