الحمد للّٰہُ میں تارک وطن ہوں۔۔۔ معاذ بن محمود

خدا سب کا ہے۔ اس کا بھی جو ڈریکولہ جیسے دانت نکال کر ختم نبوت کے معاملے پر ضرورت سے زیادہ حساس ہونے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کا بھی جو مرزا غلام احمد قادیانی کو دل سے اپنا نبی مانتا ہے۔

خدا سب کا ہے۔ خدا ویسٹرن آسٹریلیا میں رہنے والے نصرانی بوگن کا بھی ہے اور قاری سدیس سکنہ سعودی کا بھی۔

خدا سب کا ہے۔ تائیدِ رسالت کرنے والے کا بھی اور توہین رسالت کرنے والے کا بھی۔

خدا سب کا ہے۔ آپ کا بھی، میرا بھی۔

لیکن بندے؟ بندے کس کے ہیں؟

بندے تو خدا کے چھوڑیے خود اپنے بھی نہیں۔ خدا کا مادی ثبوت کوئی نہیں۔ خدا کی اساس ہی ایمان بالغیب ہے۔ یعنی خدا گر ہے تو دل میں۔ دل میں نہیں تو کہیں نہیں۔ جو شخص غیر مادی تصور کے پیچھے جنونی ہوکر مادی انسان کو اینٹیں، پتھر، ڈنڈے مارنے کے بعد اس کی لاش کو جلانے کی ہمت رکھتا ہے، وہ دل میں بسے خدا سے کہیں زیادہ خود کو دھوکہ دیتا ہے کہ اسے خدا اور پھر خدا کے رحمت اللعالمین نبی سے محبت ہے۔

اس کارنامے پر الزام کس کو دینا ہے؟ خدا کو؟ خدا کے رسول کو یا خدا کے بندے کو؟ میں تو بندے کو الزام دینے کو تیار ہوں لیکن بندہ اگر اس درجے کی بربریت کے لیے رحمت اللعالمین کی احادیث یا آیات قرآنی بطور تاویل دینا شروع کر دے تو میں ذمہ دار کسے ٹھہراؤں؟ چلیں مجھے تو چھوڑ ہی دیں، میں ویسے بھی ملزم نہیں۔ جو بندہ ملزم مجرم منصف جلاد سبھی کچھ ہے، وہ ذمہ دار کسے قرار دے رہا ہے؟ اگر نبی رحمت اللعالمین ہیں تو عالمین کے لیے رحمت پر ایسی بربریت کا الزام لگانا بذات خود توہین رسالت نہیں؟

عام حالات میں جلاوطنی سزا ہونی چاہیے۔ مان لیا جلاوطنی زبردستی ہوتی ہے اور زبردستی تھوپے جانے والا ہر کام سزا کے زمرے ہی میں لایا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کوئی شخص اپنا وطن خوشی سے کیوں چھوڑ سکتا ہے؟ خوشی کم ترین درجے میں کیا ہے؟ بڑے غم سے ذرا چھوٹا غم بھی ایک قسم کی خوشی ہی ہے۔ کوئی شخص اپنا وطن چھوڑ کر اسی وقت جا سکتا ہے جب متروک سرزمین میں اپنا وجود اس کے لیے بڑا غم بن جائے۔

میں تارک وطن ہوں۔ تاہم آج کے ایک اور دلسوز واقعے کے بعد میں یہ کہنا چاہوں گا کہ الحمد للّٰہ میں تارک وطن ہوں۔ ہاں ہجوم کی اپنی نفسیات ہوتی ہے، ہوتی ہوگی البتہ مجاہدین کی بھی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ لیکن پھر قانون و انصاف کی بھی اپنی نفسیات ہونی چاہئے۔ مومن ایک بار سوراخ سے ڈسا جاتا ہے۔ جو بچنے کا موقع ہوتے ہوئے بھی بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسا جائے وہ مومن نہیں مفعول ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مجھے موقع ملا اور میں بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے سے بچ کر بھاگ نکلا۔

الحمد للّٰہ میں تارک وطن ہوں۔

یہ بربریت شاید کسی بھی خطہ زمین پر ہو سکتی تھی۔ لیکن یہ امکان کہ کل بھی یہی بربریت ایسے ہی بلکہ اس سے بڑھ کر دوبارہ ہو سکتی ہے، اس امکان کا گزشتہ روز سے زیادہ آج بڑھ جانا کہیں نہیں ہوتا۔ مجھے مقتول کے جرم کی بابت حقیقت نہیں معلوم۔ ہم مجاہدین کی انا کو تسکین پہنچانے واسطے فرض کر لیتے ہیں مقتول کا جرم کریہہ ترین تھا۔ البتہ سزا دینے کا حق اور سزا درست ہے، اس پر اثبات میں جو سر ہلتا ملے، اس سے دور بھاگ جائیے ورنہ آپ کا حال بھی مقتول سا ہونے کے امکان موجود ہیں۔

آج جمعہ ہے۔ بلکہ لطیفہ سنیے۔

“آج جمعہ کا بابرکت دن ہے”

مجھے اس قسم کی برکت سے دور رہنا مناسب لگتا ہے۔

میں آفس کا کام ختم کر کے ہفتہ وار بار بی کیو میں مصروف تھا۔ درمیان میں فیس بک نوٹیفیکیشن دیکھے تو مریم کا کمنٹ نظر آیا۔ حاشر صاحب کی پوسٹ جان کر نہیں دیکھی۔ مجھے اندازہ تھا کچھ ہوا ہے تاہم میں لاعلم رہنا چاہتا تھا۔ آپ مجھے بے حس کہہ سکتے ہیں تاہم میرے لیے فیملی کا ساتھ، اپنا بیک یارڈ اور سب سے اہم بات، تحفظ کا احساس نہایت اہم ہے۔ سب کچھ ختم کر کے تفصیلات دیکھیں تو معلوم ہوا مریم ٹھیک کہتی ہیں۔ میں واقعی خوش قسمت ہوں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ مریم سمیت میرے تمام پاکستانی دوست احباب بدنصیب کیوں ہیں؟ کیا آپ لوگ یہ ڈیزرو کرتے ہیں؟

نہیں۔ یقیناً نہیں۔

پس اسی وجہ سے میرا آپ سب کو ایک ہی مشورہ ہے۔

بھاگیے۔

پاکستان سے زندہ بھاگ۔

اور نہیں بھاگ سکتے تو سر جھکا کر رہنا سیکھ لیجیے۔ اپنے ارد گرد آج کے روز اگر مگر کرنے والوں کو کٹائیے۔ انہیں نہیں کٹایا تو کل کلاں آپ کا اپنا سر داؤ پر لگ سکتا ہے۔

باقی میں خوش ہوں۔

الحمد للّٰہ میں تارک وطن ہوں۔

۔

۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply