شیڈز آف میموریز۔۔ربیعہ سلیم مرزا

حسین مجروح کہتے ہیں کہ اردو میں یاد نگاری کا قافیہ شروع سے تنگ رہاہے , یادیگر اصناف کی طرح لکھنے والوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی حالانکہ یادیں کچھ بھی لکھنے کے عمل میں پنیری کا کام کرتی ہیں۔اچھی یا بری جتنی گہری اور دل کو چھو لینے والی یادیں  ہوں گی اتنی ہی دلکش تحریر کے گلاب کھلیں گے اس لحاظ سے تو یاد نگاری یعنی ڈائری سب سےاہم اور خاص صنف ہونی چاہیے تھی کہ دل دیس میں بسی جانی انجانی سب مقفل یادیں اور باتیں،جو ہم خود سے بھی چھپاتے ہیں ،سب اس میں    مقید کرتے ہیں۔
“اسی لیے تو لفظ ڈائری سے ہمیں محبت ہے ۔انجانی سی مہکتی سی۔”

اپنی پہلی کتاب “اینٹ گارے کی کھرچن ” شازیہ مفتی جی نے اپنی ڈائریوں سے کشیدکی ہے۔یہ اس قدر احساسات سے بھرپور ہوگی میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

افسوس ، لفظ ڈائری اپنے اندر بذات خود ایک جہان آباد رکھتا ہے لیکن پھر بھی یہ صنف ہماری توجہ سے محروم رہی لیکن شازیہ مفتی صاحبہ نے اس صنف سے بھرپور استفادہ کیا ہے ۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہر تحریر کی طرز اس کا ذائقہ اس کا رنگ مختلف ہوتا ہے۔اس کتاب میں مجھے نثر کے اتنے رنگ ملے کہ میں اسے shades of memories کا نام دینے پہ مجبور ہوگئی ۔جیسے یاد نگاری اور آپ بیتی میں واضع فرق ہے اسی طرح افسانے اور آرٹیکل میں بھی واضع فرق ہے ۔شازیہ جی کی دوسری کتاب باؤلی ہے جو کہ کہانیوں اور آرٹیکلز پہ مشتمل ہے ۔

ان دونوں کتابوں کو پڑھ کے میں حیراں ہوں کوئی اتنا خالص کیسے لکھ سکتا ہے ۔کہیں آپ بیتی ہے تو کہیں کوئی حسین یاد، کہیں ثقافت کی جھلک ہے تو کہیں تہذیب کا تڑکا، وہاں بچپن کی معصومیت ہے تو یہاں جوانی کا کھٹامیٹھا رس ۔ہر تحریر جدا ، اور طرز تحریر بے حد مضبوط ہے جو خواتین میں کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔موضوعات میں تنوع بھی زبردست ہے جیسا کہ!

دنیا کیسی بانوری
مفلسی میں آٹا گیلا
گشتی فون اور ماں صدقے
چارلی چائے اور بسکٹ گول
لونڈی نے سیکھا سلام، صبح دیکھی نہ شام
چوبی گڑیا
حیلے رزق بہانے موت

ان کی خاص تحریروں میں سے ہیں ۔موضوع کے چناؤ سے لے کر تحریر کے اختتام تک کہیں یگانگت نہیں ۔سطر سطر منفرد نئی اور سلجھی سلجھی سی ہے عمدہ!

Advertisements
julia rana solicitors london

بہت شکریہ شازیہ جی کہ آپ نے مجھے خود کو پڑھنے کا موقع دیا۔میں آپ کی احسان مند ہوں کہ اس صنف ڈائری سے مجھے بے حد محبت تھی ۔۔۔
اور اب آپ سے بھی ہوگئی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply