• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دروازوں کے باہر چاندنی ـــــــ چند تاثرات(حصّہ اوّل)۔۔اکرام اللہ

دروازوں کے باہر چاندنی ـــــــ چند تاثرات(حصّہ اوّل)۔۔اکرام اللہ

ڈاکٹر احتشام علی نے اپنی کتاب بہ عنوان” دروازوں کے باہر چاندنی ” کے بارے میں بتایا ہے کہ کیونکر ظہور میں آئی ۔ کرونا وبا کے ابتدائی دنوں میں بندشوں بھری زندگی سے اکتا کر انہوں نے دل بہلانے کی یہ تدبیر کی کہ اپنے پسندیدہ شاعر کی شاعری کو جو ننانوے فی صد سے بھی زیادہ غزلوں پر مشتمل ہے کوئی ایک ہزار پچھترویں بار پڑھنا شروع کیا ۔ چونکہ گھر سے باہر نکلنا خطرے سے خالی نہ تھا،وہاں پہ کرونا شدو مد سے اپنے کام میں مصروف ہوتا اور دخل اندازی کی سزا یہ تھی کہ وہ مخل ہونے والے کو دھر لیتا تھا۔اس سے قبل انہوں نے اپنے جذب کی کیفیت میں جاذبیت بڑھانے کی غرض سے جب احمد مشتاق کی شاعری پر ایک مضمون لکھ کر کسی محفل میں پڑھا تھا تو سامعین نے اصرار کیا تھا کہ یہ موضوع تو اپنے سمانے کے لیے کتاب کا طلب گار ہے ،وبا کے ایام میں انہوں نے احمد مشتاق کی غزل کے ایک مصرعے کے جزو کو عنوان بنایا اور کتاب لکھ ڈالی ۔ احتشام علی جوان ہیں اور دعویٰ ہے کہ وہ پچھلے پندرہ برسوں سے احمد مشتاق کی شاعری کو تو جہ سے پڑھتے اور اس پر غورو فکر کرتے آرہے ہیں اور احمد مشتاق کو غزل میں گُرومانتے ہیں۔ تو یوں انہوں نے گویا اپنی موجودہ عمرِ عزیز کا نصف حصہ اِس کام میں صَرف کر دیا ہے،سواب انہیں اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کسی مزید شہادت کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔

احمد مشتاق فطرت کی جانب سے بھرپور شاعرانہ صلاحیتیں لئے دنیا میں آئے۔کسی آدرش ، مسلک اور فلسفے کو بڑھاوا دینے میں اپنے عطیے  کو ضائع نہیں کیا،لیکن جبر، ظلم اور بے انصافی کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ان کی شاعری کا ایک حصہ انسان کی فطری کمزوریوں ،جیسے بے بسی، ناطاقتی، تنہائی ، انسان کا مبدّل بہ مشین ہو جانے کی نوحہ خوانی ہے۔فطرت نے مشتاق کو وقت دیا اور انہوں نے یہ وقت اپنی شاعری کو بہتر سے بہتر بنانے پر صَرف کیا۔ احتشام علی نے اپنی کتاب میں احمد مشتاق کے مشاہدے ، زندگی کے تجربات، اُن کے اسلوب ، الفاظ کا چناؤ اور شاعری کے دیگر محاسن اِس عمدگی سے قاری کو سمجھائے ہیں کہ وہ سب اُس کی یادوں کا حصہ بن جاتے ہیں، جہاں ضروری ہوا مصنف نے مختلف اشعار کے پس منظر کا مفصل ذکر بھی ساتھ شامل کر دیا ہے۔ احمد مشتاق کا ایک شعر دیکھیے:

تھی جن کو آرزو کوئی انساں دکھائی دے
دُنیا تجھے خبر ہے کہ وہ انساں کدھر گئے ؟

پہلی نظر میں تو یہ شعر آدمی پر گھسے پٹے ، پرانے عذر کو دہراتا دکھائی دیتا ہے ۔یہاں پہلی نظر کا پیدا کردہ تاثر غلط ہے کیونکہ احمد مشتاق نے دراصل اپنے شعر میں فارسی شاعری کے ایک پرانے اور مشہور مضمون کو آگے بڑھایا ہے۔ احتشام علی چونکہ مولانا روم کے اس فارسی شعر سے واقف تھے اِس لئے احمد مشتاق کے اٹھائے سوال میں ڈھکی چھپی رمز کو پاگئے ۔ انہوں نے پہلے فارسی شعر درج کیا تا کہ قاری پر سوال کا پس منظر واضح ہو اوروہ احمد مشتاق کے شعر سے حظ اٹھانے کے قابل ہوسکے۔ فارسی شعر یہ ہے:
دی شیخ باچراغ ھمی گشت گرد شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

احمد مشتاق نے اس فارسی شعر کی بنیاد پر دنیا سے سوال کیا ہے کہ وہ جو راتوں کے اندھیروں میں ہاتھوں میں چراغ لئے دیو اور وحشی جانوروں کے گروہوں سے عاجز آئے،انسان کی تلاش میں مارے مارے پھرا کرتے تھے ، دنیا تجھے ان کی کوئی خبر ہے تو بتا؟(ورنہ لگتا ہے انسان کا قصہ تو تمام ہو چکا)۔ احتشام علی نے فارسی شعر کا حوالہ کیا دیا کہ احمد مشتاق کے شعر کو پَر لگا کر اِس سفلی دنیا سے اوپر اٹھا دیا۔

احمد مشتاق آبائی طور پر امرتسر کے باسی تھے اور اُن کے ابتدائی کلام کا بیشتر حصہ جبر، ظلم ،دکھ، درد، زیادتی ، غم و اندوہ کے ذکر پر مبنی ہے۔ وطن سے جبری ہجرت کا دُکھ ہو یا محبوب سے ہجر کی کیفیت کا بیانیہ اُنہوں نے کسی عقیدے ،آدرش، مسلک ، فلسفے کا عَلم اٹھانے کی جانب رجوع نہیں کیا ۔ وہ اول و آخر شاعر تھے اور اِسی راہ کے راہی رہے۔

میں آبائی لحاظ سے امرتسر کا رہنے والا تو نہیں ہوں لیکن تقسیمِ ملک سے سات سال پہلے لڑکپن میں وہاں پہنچا، ابھی جوانی کی دہلیز عبور کی تھی کہ سیاسی حالات نے ہجرت پر مجبور کر دیا ۔ امرتسر کے تہذیبی، لسانی اور معاشرتی نقوش میری نو عمری کے باعث میرے ذہن میں ایسے مرتسم ہوئے کہ امرتسر میرے لئے بہ منزلہ آبائی وطن کے ہو گیا۔ احمد مشتاق کے امرتسری ہونے کے حوالے سے ہمیشہ میرے دل میں ایک نرم گوشہ اُن کے لئے رہا۔ امرتسر میں تو اُن سے کبھی مڈھ بھیڑ نہ ہوسکی ۔ تقسیم کے بعد مجھے پہلے بوریوالے پھر ملتان جانا پڑا ،وہ ہمہ وقت لاہور میں رہے بنک کی ملازمت کے علاوہ اپنے ادبی دنیا کے مشہور دوستوں ناصر کاظمی، انتظار حسین ، مظفر علی سید اور شاہد حمید کے ساتھ ٹی ہاؤس میں بیٹھتے۔

میں اگرچہ 1953 ء سے 1955 ء تک قانون کی ڈگری کے حصول کی خاطر لاہور میں مقیم رہالیکن میرے دوستوں کا گروہ الگ تھا۔میں ان دنوں اگرچہ اردو ادب کا شوق تو رکھتا تھا لیکن احمد مشتاق اور اس کے دوستوں تک نہ تو پہنچنے کی خواہش تھی اور نہ ہی میں جیسی چاہیے تھی ویسی ادبی صلاحیت سے متصف تھا۔میں احمد مشتاق کو صورت سے پہچانتا تھا اور انھیں یکےاز شعراء سمجھتا تھا ،اُن کا کلام مختلف ادبی رسائل میں گاہے بہ گاہے نظر سے گزرتا رہتا تھا۔احمد مشتاق کی شاعری سے مفصل تعارف احتشام علی کی کتاب موسومہ بہ “دروازوں کے باہر چاندنی” میں احمد مشتاق کے کلام کے مطالعے سے ہوا اور اُن کے بڑے شاعر ہونے کی پہچان ملی۔

قاری یا سامع کے شعر سے حظ و لطف اٹھانے میں بڑا التفات تو بلاشبہ شاعر کا ہی ہوتا ہے باقی قاری کی سخن فہمی اور ذوقِ شعر کا صلہ سمجھیے۔ ذوقِ شعر کو تو چلیے عطیہء فطرت شمار کیجئےلیکن سخن فہمی تو کوئی راہ میں گری پڑی شے نہیں ہوتی۔اس کو اُستاد یا بزرگ جس نے برسوں کی لگن اور اعلیٰ  ذوق کی بدولت شاگردوں کے اذہان کو صیقل کرتے ہوئے نکھارا تب جا کر وہ شعر میں نازک خیالی، مضمون کی ندرت اور زبان کی خوبصورتی کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کر پاتا ہے۔ غالب بعض اوقات خطوط میں اپنے اشعار کے مطالب دوستوں کو بیان کرتے ہیں یا شاگردوں کے اشعار کی تصحیح کی غرض و غایت ذہن نشین کراتے ہیں تو قضیے سے غیر متعلق خط پڑھنے والا بھی محسوس کرتا ہے کہ سخن فہمی کے رُخ لگی سیڑھی پر وہ منزل کی جانب ایک درجہ اور اوپر اُٹھ گیا ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے مجموعہء خطوط بہ عنوان “غبارِ خاطر”میں انہوں نے کہیں کہیں اردو اور فارسی اشعار کے محاسن و اقدار بیان کیے ہیں۔ بیان کو دہرانا تو ممکن نہیں لیکن جس خوبی سے انہوں نے وہ تعلیم کیے ہیں ، میں نے عمر بھر اُن سے فیض اُٹھایا ہے۔ غرض یہ کہ اعلیٰ شاعری کسی بھی زبان میں کسی بھی عقیدے، کسی بھی مسلک یا مذہب کے پیروکار کی فکر کا نتیجہ ہو وہ دنیا کی دیگر زبانوں کی شاعری سے بہت کچھ مشترک رکھتی ہے۔ پوری دنیا کی شاعری، فلسفیانہ سوچیں، عقل و فہم پہ مبنی باتیں نیز سائنس کی نت نئی ایجادات اور کائنات کے بارے میں ہوش ربا، سنسنی خیز معلومات انسانیت کی مشترکہ میراث میں ڈھل جاتی ہیں۔

جب احمد مشتاق نے شاعری کی ابتداء کی تو انہیں ناصر کاظمی، انتظار حسین اور مظفر علی سید جیسے لائق ہم درد سرپرست ملے جو انہیں ہونہار بروا مانتے ہوئے ان کے چکنے چکنے پات کے معترف اور قدر دان تھے۔ بعد میں احمد مشتاق کے امریکہ منتقل ہو جانے کے بعدہندوستان کے شہری ،اردو کی جملہ اصناف ادب پر طبع آزمائی کرنے والے نقاد، ناول نگار، شاعر اور عالم شمس الرحمٰن فاروقی، احمد مشتاق کی شاعری کے زبردست مداح بن گئے ۔ فاروقی صاحب نے بہ زبانِ اردو ایک ضخیم اور عظیم ناول تصنیف کیا اور اس کا نام احمد مشتاق کے ایک شعر کے جزو ” کئی چاند تھے سرِ آسماں” پر رکھا۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں برملا احمد مشتاق کو فراق گورکھپوری سے بہتر اور بڑا شاعر قرار دیا۔ اس پر اردو کے کئی شعرا اور اصحاب علم و فن نے اختلاف کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مٹ مٹا گئی۔ خیر! یہ فاروقی صاحب کی رائے تھی جس کا انہیں حق تھا ، لیکن اس رائے کے بارے میں یہ گمان بھی کیا گیا کہ”اِس میں کچھ شائبہ خوبیء تقدیر بھی تھا”(تقدیر احمد مشتاق کی)۔ فاروقی صاحب فراق گورکھپوری سے چنداں خوش نہ تھے اور اپنی نا خوشی احمد مشتاق کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا دی تو اپنا بوجھ کسی قدر ہلکا کر لیا۔ اس بارے میں احمد مشتاق کا رویہ کچھ ایسا تھا جیسے فاروقی صاحب نے اس بارے میں نہ کبھی کوئی رائے دی نہ اس رائے پر کچھ لوگ معترض ہوئے۔احمد مشتاق نے اپنے قیامِ لاہور کے دوران یا جب لاہور چھوڑ کر امریکہ جاآباد ہوئے کبھی شعر گوئی کے غیر معمولی عطیہء خداوندی پر کسی فخرو مباہات کا اظہار کیا نہ کسی مشاعرے ، ٹیلی ویژن ، ریڈیو وغیرہ پہ خود نمائی کی کوشش کی حتیٰ کہ 1965 ء کی جنگ کے موقع پر پاکستان کے ہر کہہ ومہہ شاعر نے قومی ترانے لکھے اور گویّوں سے گوائے،لیکن انہوں نے تمام عمر اپنے ہی ایک شعر کی مثل گزار دی:
ایک ہم ہیں کہ جنھیں اپنی خبر بھی نہ رہی
ایک وہ ہیں جنھیں آتا ہے خبر میں رہنا !

احمد مشتاق کی تمام شاعری غزلوں پر مشتمل ہے جو تعداد میں ساڑھے تین سو کے لگ بھگ ہیں۔ ڈاکٹر احتشام علی کو تلاشِ بسیار کے باوجود احمد مشتاق کی صرف تین مختصرطبع زاد نظمیں مل سکی ہیں البتہ تاثر اُن میں بھی کم و بیش وہی موجود ہے جو ان کی غزلوں کا خاصہ ہے۔ احتشام علی کے مطابق احمد مشتاق کی غزل گوئی کے تین عہد ہیں اور ہر عہد کی اپنی الگ جہت ہے۔ اولین عہد 1951 ء میں شروع ہوا اور پہلی کتاب بہ عنوان “مجموعہ” 1966 ء میں شائع ہوئی تو یہ عہد انجام کو پہنچا۔ یہ شاعری تقسیمِ پنجاب کی بھیانک سیاست جو ظلم وجبر پر مبنی تھی اس کے مختلف زاویوں سے دکھائے گئے عکس ہیں۔ تقسیم نے اپنے جبر سے زندگی کے پُر سکون بہے جاتے دھارے کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ۔ شاعر کے اپنی دھرتی سے قدم اکھڑے اور محفلیں اجڑیں تو جو زخم اُس کے دل پر آئے اُس نے انھیں کریدا تو یہ شاعری سامنے آئی، چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ باقی رہا کچھ نشان ِ بہار
ہوا پتہ پتہ اُڑا لے گئی
جلی ٹہنیاں زردپتوں کے ڈھیر
خزاں سب خزانے چھپا لے گئی

ہوا چلتی ہے پچھلے موسموں کی
صدا آتی ہے اُن کو بھول جائیں

احمد مشتاق کی دوسری کتاب “گردِ مہتاب” 1981 ء میں شائع ہوئی جس میں زندگی کی بے معنویت، لامقصدیت اور انسان کے اکیلے پن کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ مشینی دور میں انسان کے جینے کے انداز دیکھیے:
شام تک کھینچے لیے پھرتے ہیں اِس دنیا کے کام
صبح تک فرشِ ندامت پر پڑا رہتا ہوں میں

احمد مشتاق نے “گردِ مہتاب” کے لکھے جانے کے بعد پتہ نہیں کیوں ،کیسے اور کب یہ گمان کرنا شروع کر دیا کہ فطرت، انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے باوصف اس سے عدم تعاون برابرجاری رکھے ہوئے ہے۔اس موضوع پر ” اوراقِ خزانی” کی پہلی غزل کے تین اشعار ملاحظہ ہوں:
آسماں پر سے مٹا دیتے ہیں تاروں کا سراغ
ریت پر نقشِ کفِ پا نہیں رہنے دیتے
کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی
دھوپ دیتے ہیں تو سایہ نہیں رہنے دیتے
پہلے بھر دیتے ہیں سامانِ دو عالم دل میں
پھر کسی شے کی تمنا نہیں رہنے دیتے

انسانوں کی یہ شکایت عام ہے کہ فطرت ان کی تجاویز کی راہوں میں روڑے اٹکاتی رہتی ہے اور انہیں پایہء تکمیل تک پہنچنے نہیں دیتی۔ اگر شواہد اور دلائل وغیرہ کو باقاعدہ کسوٹی پر جانچیں تو شکایت غلط ثابت ہوگی۔ان اشعار میں بیان کردہ احمد مشتاق کی شکایت کو اگر عمومی شکایت جیسا ہی سمجھ لیں تب بھی بعد ازاں ” اوراقِ خزانی” میں کارکنان ِ قضا و قدر سے تعلق قطع کرنے کا انداز ہے اس کی وجہ سے اب یہ شکایت تو اس کا محض ہراوّل دستہ نظر آنے لگتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply