کائناتی جیومیٹری (6)۔۔وہاراامباکر

ہمیں سپیس کو ایک شے کے طور پر تصور کرنے کی عادت نہیں لیکن یہ یقیناً، اپنی خاصیتیں رکھنے والی شے ہے۔ اس کی تین ڈائمنشن ہیں۔ اس کی ایک خاص جیومیٹری ہے، جو ہم سکول میں پڑھتے ہیں۔ اس کو اقلیدیسی جیومٹری کہا جاتا ہے۔ اقلیدیس نے دو ہزار سال پہلے اس کے ایگزیوم اور پوسچولیٹ بنائے تھے۔ اور یہ جیومٹری دراصل سپیس کی خاصیت کی سٹڈی ہے۔ اقلیدس کے تھیورم ہمیں بتاتے ہیں کہ سپیس میں لکیر، مثلث اور دائروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ یہ ہر آبجیکٹ، میٹیریل اور تصور پر لاگو ہیں۔
میکسویل کی تھیوری کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ روشنی کی شعاع بالکل سیدھی لکیر میں سفر کرتی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ روشنی کو سپیس کی جیومٹری ٹریس کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر ہم اس آئیڈیا کو اختیار کر لیں تو ہمیں فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ آئن سٹائن کی تھیوری کا مطلب کیا نکلتا ہے۔ اگر مادے کی موجودگی کی وجہ سے روشنی کی شعاع گریویٹیشنل فیلڈ میں خم کھاتی ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مادے کی موجودگی سپیس کی جیومٹری پر فرق ڈالتی ہے۔
اقلیدس کی جیومیٹری میں، اگر دو سیدھی لکیریں پیرالل ہیں تو یہ کبھی نہیں ملیں گی۔ لیکن اصل دنیا میں اگر ایک لکیر ستارے کی ایک سائیڈ سے گزرے اور دوسری لکیر دوسری سائیڈ سے تو یہ آپس میں مل سکتی ہیں۔ اصل دنیا میں اقلیدس کی جیومیٹری مکمل سچ نہیں۔ اور یہ جیومیٹری بھی جامد نہیں، تبدیل ہو رہی ہے کیونکہ مادہ مسلسل حرکت میں ہے۔ سپیس کی جیومیٹری ایک مسلسل اور لامحدود فلیٹ سطح نہیں۔ یہ سمندر کی سطح کی طرح ہے۔ بہت زیادہ ڈائنامک، جس پر بننے والے بڑی لہریں اور چھوٹے ارتعاش جاری ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ سپیس کی جیومٹری خود ایک اور فیلڈ ہے۔ یہ جیومیٹری تقریباً گریوٹیشنل فیلڈ کی طرح ہے۔ تقریباً کیوں؟ ابھی ایک چیز اس میں موجود نہیں۔ سپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی میں سپیس اور ٹائم اکٹھے ہو کر سپیس ٹائم بن گئے تھے۔
سپیس میں سیدھی لکیر کا تصور کریں۔ دو ذرات اس پر سفر کر رہے ہیں۔ ایک یکساں رفتار پر جبکہ دوسرا مسلسل ایکسلریٹ ہو رہا ہے۔ جہاں تک سپیس کا تعلق ہے تو دونوں ایک ہی راستے پر ہیں لیکن سپیس ٹائم میں ان کے راستے ایک نہیں۔ یکساں رفتار والا نہ صرف سپیس میں بلکہ سپیس ٹائم میں بھی سیدھی لکیر پر جا رہا ہے۔ ایکسلریٹ ہونے والے کا سپیس ٹائم میں راستہ خم کھا رہا ہے۔
جس طرح سپیس کی جیومٹری میں سیدھی لکیر اور خم والی لکیر کی تفریق کی جا سکتی ہے۔ ویسے ہی سپیس ٹائم کی جیومٹری میں یکساں رفتار والے ذرے کی ایکسلریٹ ہونے والے ذرے سے تفریق کی جا سکتی ہے۔
لیکن آئن سٹائن کا equivalence کا اصول بتاتا ہے کہ کم فاصلے پر گریویٹی کے اثرات میں ایکسلریشن سے تفریق نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے ایکسلریٹ ہونے والے راستے اور یکساں رفتار والے راستے میں فرق گریویٹی کے اثرات کا ہے۔ سپیس ٹائم کی جیومٹری ہی گریوٹیشنل فیلڈ کی جیومیٹری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یوں، آئن سٹائن کی تھیوری دہری سے بڑھ کر تہری یونی فیکیشن بن گئی۔ گریویٹی کے اضافے کے بعد تمام حرکات مساوی ہیں۔ گریویٹی اور ایکسلریشن کے اثرات مساوی ہیں۔ گریویٹیشنل فیلڈ سپیس اور ٹائم کی جیومٹری سے یونیفائیڈ ہے۔ اور یہ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی تھی جو 1915 میں شائع ہو گئی۔
ایسے شخص کے لئے، جسے اکیڈمک فیلڈ میں ملازمت نہیں ملی تھی، یہ کارنامہ زیادہ برا نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے پاس 1916 میں فزکس کے مستقبل کے بارے میں دو بالکل مختلف تجاویز تھیں۔ دونوں گریویٹی کو باقی فزکس کے ساتھ اکٹھا کرنے کے گہرے خیالات تھے۔ نورڈسٹروم کا خوبصورت خیال جو سپیس میں ایک مخفی اور اضافی ڈائمنشن کے سادہ پوسچیلیٹ سے تھا۔ اور دوسری طرف آئن سٹائن کی تھیوری۔ دونوں ہی بہت غیرمتوقع خوبصورتی رکھتی تھیں۔
لیکن دونوں بیک وقت درست نہیں ہو سکتی تھیں۔ انتخاب کئے جانا تھا۔ خوش قسمتی سے دونوں تھیوریاں مختلف پیشگوئیاں کرتی تھیں جن کی مدد سے ان کو جانچا جا سکتا تھا۔ ٓائن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے مطابق گریویٹی روشنی کی شعاع کو خم دے گی اور اس کی کیلکولیشن بھی تھی کہ یہ خم کتنا ہو گا۔ جبکہ نورڈسٹروم کی تھیوری میں ایسا کوئی ایفیکٹ نہیں تھا۔ روشنی ہمیشہ سیدھا سفر کرے گی۔
برطانوی آسٹروفزسٹ آرتھر ایڈنگٹن نے 1919 میں ایک مہم کی قیادت کی۔ مغربی افریقہ کے ساحل پر مکمل سورج گرہن کے وقت کا مشاہدہ کیا۔ اگر آئن سٹائن کی تھیوری درست تھی تو اس میں سورج کے کنارے پر لیکن اس کے عین پیچھے ستاروں کا نظر آنا ممکن تھا۔ اگر روشنی سیدھا سفر کرتی تو ایسا مشاہدہ ناممکن ہوتا۔ یہ مشاہدہ ہو گیا۔ اس تجربے سے روشنی کی بدلتی سمت نے اس معاملے پر روشنی ڈال کر اسے طے کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ انتہائی اہم مثال جس چیز کا دکھاتی ہے، وہ یہ کہ اس بات کی حد ہے کہ محض سوچ سے ہم کہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ فطرت کے بارے میں سوال ہمیں بالآخر فطرت کے آگے ہی رکھنا پڑتے ہیں۔ نورڈسٹورم نے اپنے کام پر محنت کی تھی۔ یہ سادہ اور خوبصورت تھیوری تھی۔ ایسی کوئی منطقی وجہ نہیں تھی کہ یہ ٹھیک نہ ہو۔ لیکن یہ ہونا کافی نہیں تھا۔
آئن سٹائن نے جو خیال پیش کیا تھا، وہ نیچر کی بالکل الگ ہی تصویر دکھاتا تھا۔ آئن سٹائن سے پہلے سپیس اور ٹائم کی خاصیتیں ہمیشہ کے لئے جامد تصور کی جاتی تھیں۔ یہ بس ایک پسِ منظر تھا۔ اس کی جیومٹری طے شدہ تھی۔ وقت کا مارچ کسی بھی اور چیز سے بے نیاز آزادانہ طور پر جاری تھا۔ اشیا سپیس میں تھیں اور وقت کے دھارے میں تبدیل ہوتی تھیں لیکن سپیس اور ٹائم خود اس کھیل کا صرف سٹیج تھے۔ یہ تصور درست نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتہائی کامیاب یکجائی نے نئے فینامینا کی بہت بڑی پیشگوئیاں کر دیں۔ کاسمولوجی کو یکسر بدل دیا۔ پھیلتی کائنات، بگ بینگ، بلیک ہول، گریویٹیشنل لہریں، یہ جنرل ریلیٹیویٹی کی پیشگوئیاں ہیں ۔۔۔ اور ہمارے پاس سب کے بہت اچھے شواہد ہیں۔روشنی کے خم سے نئے آلات بننے لگے۔ کائنات میں مادے کی ڈسٹریبیوشن کا معائنہ کیا جانے لگا۔
خوبصورت یکجائی کے خوبصورت نتائج تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئن سٹائن اپنی باقی زندگی فیلڈز کو یکجا کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ یہاں پر انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ اگلی دہائیوں میں گریوٹی کو باقی فیلڈز کے ساتھ یکجا کرنے کا آئیڈیا بے کار کی کاوش سمجھا جانے لگا۔ آئن سٹائن کے اچھوتے خیالات، ضد، لگن اور ذہانت کا انوکھا ملاپ یہ جادو نہ کر سکا۔
اور یہ ہمیں تاریخ کے بڑے جینئیس کے بارے میں ایک بات بتاتا ہے۔ بادی النظر میں کسی خیال کو دیوانہ پن کہہ کر ہنس دینا آسان ہے۔ لارڈ کیلون کو یقین تھا کہ ایکسرے سراب ہیں۔ ارنسٹ ماک کو یقین تھا کہ ایٹم ہیں ہی نہیں۔ جیمز میکسویل ایتھر پر یقین رکھتے تھے۔ البرٹ آئن سٹائن کو یقین تھا کہ یونیفائیڈ فیلڈ تھیوری اصل ہے۔
ہمیں توقع بھی ہے اور امید بھی، کہ آنے والے ہماری سادہ لوح تصورات پر ایسے ہی ہنسیں گے۔ کون کہتا ہے کہ زندگی آسان ہے؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply