حج کا اجازت نامہ اور وزارتِ حج و عمرہ کی تاریخ۔۔منصور ندیم

یقینا ً حج کرنا ایک جسمانی مشقت کے ساتھ ساتھ مالی اعتبار سے بھی کچھ گراں بار عمل ہے، پوری دنیا سے آنے والے لوگوں کو آج کے عہد میں ویزہ، رہائشی انتظامات اور سفری سہولیات کے لئے ایک بڑی رقم مختص کرنے کے بعد حج کی سعادت نصیب ہوتی ہے، سعودی عرب میں مقامی طور رہنے والے بھی ماسوائے ویزہ یا کچھ سفری اخراجات کے علاوہ بھی ایک رقم ادا کرنے کے بعد ہی حج تصریح (حج کااجازت نامہ) حاصل کرپاتے ہیں۔

سعودی عرب میں مقامی سطح پر حج کرنے کے لئے بھی حکومتی تصریح کی ضرورت لازمی ہے، ورنہ بلا اجازت حج کے لئے جانے والے حکومتی قوانین کی خلاف ورزی میں شمار ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں کئی بار انتظامی امور کو میسر ڈیٹا کے اعتبار سے مینج کیا جاتا تھا، مگر بعد ازاں چھپ کر آنے والے لوگوں کی وجہ سے اکثر بھیڑ بڑھ جانے سے حادثات ہوتے تھے۔ اس تمام امور کو سعودی وزارت حج و عمرہ دیکھتی ہے۔ تصریح (اجازت نامہ) باآسانی آن لائن اپلائی کرنے پر مل جاتا ہے. تصریح کی بنیاد پر ہی وزارت حج و عمرہ، حج پر جانے والے افراد کا تعین کرکے انتظامی امور کو دیکھتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ اجازت نامے کی ضرورت آج سے ہی ہے بلکہ سعودی عرب کے قیام کے بعد سے ہی مقامی شہریوں کو حج کرنے کے لیے اجازت نامہ ضروری تھا ۔ حج کا درخواست گزار اپنے قبیلے کے سردار سے ضلع کے گورنر کے نام مکتوب لکھواتا تھا۔ جس میں درخواست گزار مکہ اور مدینہ جانے کے لئے متعلقہ ادارے سے اپروول لیتا تھا، اور درخواست گزار سرکاری دستاویز پر اپنے تصویر لگا کر اس سرکاری ادارے کی مہر اور تین ٹکٹیں لگواتے تھے ۔

سعودی وزارت حج و عمرہ کی تاریخ :

سعودی وزارت حج و عمرہ کی شروعات سنہء ۱۹۴۵ میں ہوئی تھی، اس کے قیام کا اعلان بانی مملکت شاہ عبدالعزیز آل سعود نے جاری کیا تھا۔ ابتداء میں اس کا نام جنرل ڈائریکٹریٹ حج امور تھا اور اس پہلے سربراہ شیخ صالح آل الشیخ تھے۔ سنہء ۱۹۴۵ سے یہ ادارہ مختلف ممالک کے حج و عمرہ زائرین کو سہو لتیں فراہم کر رہا ہے۔

شیخ صالح آل الشیخ نو برس تک ادارے کے سربراہ رہے پھر جنرل ڈائریکٹریٹ حج امور کا نام الحج و الحرمین ڈائریکٹریٹ کر دیا گیا۔ اس کے بعد اسے اسلامی اوقاف اور حج ڈائریکٹریٹ کا نام دیا گیا اور شیخ حسین عرب کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔

یہ ادارہ ارتقا کے عمل سے گزرتا رہا اور یہ مسجد الحرام، مسجد نبوی اور حج امور کے انتظامات اس کے زیر انتظامیہ رہے، حاجیوں کی تعداد سال بہ سال بڑھی تو شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز نے اسے وزارت حج و اسلامی اوقاف کا نام دے دیا۔ شہزادہ خالد کو اس کا وزیر بنایا گیا۔ ۲۰ برس تک وہ اس کی خدمت کرتے رہے پھر اوقاف کو ادارہ حج سے الگ کردیا گیا اور اس کا نام وزارت حج کر دیا گیا۔

شاہ فہد کے زمانے میں وزارت حج کا دائرہ کار بہت زیادہ بڑھ گیا۔ انہوں نے طواف، زیارت، زمزم اور حجاج کو ایئرپورٹ سے لے کر مکہ مکرمہ تک مختلف سہو لتیں فراہم کرنے والے تین ادارے قائم کیے۔ ان کی نگرانی وزارت حج کو دی گئی۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اسے مزید ترقی دی اور اس کا نام وزارت حج و عمرہ کردیا گیا۔ اب حج اور عمرہ سے متعلق تمام انتظامات یہی وزارت دیکھ رہی ہے۔ حج ، عمرہ اور زیارت کی خدمات کی نگرانی سب وزارات حج وعمرہ کی زیرنگرانی ہے، اب تک اس وزارت کے نو وزیر بن چکے ہیں۔ موجودہ وزیر ڈاکٹر محمد صالح بنتن اور نائب وزیر ڈاکٹر عبدالفتاح المشاط ہیں۔

نوٹ : تصویر میں موجود یہ پرانی دستاویز تقریبا ۵۸ برس قدیم ہے جو ضلع ابھا کے عجائب گھر میں موجود ہے، جس میں ایک مقامی شہری کی درخوست ہے جس پر مذکورہ شہری کو حج اجازت نامہ جاری کیا گیا تھا۔ تاریخی دستاویز میں ابھا کے مالک قبیلے کے سردار عسیر بن علی بن احمد بن معدی نے سنہ ھجری ۱۳۸۴ (سنہء ء۱۹۶۴) میں یہ درخواست عسیر ضلع کے تحت ابھا کے گورنر کے نام لکھا گیا تھا۔ اس خط میں لکھا ہے کہ ‘قبیلے کا فرد محمد بن ملاح حج کا ارادہ رکھتا ہے، ہم گورنر سے اجازت نامہ کی درخواست کرتے ہیں اور ساتھ ہی سفر میں سہولت کی فراہمی کی امید رکھتے ہیں۔ اس خط میں گورنر کا محکمہ پاسپورٹ کے نام نوٹ ہے جس میں لکھا ہے۔

‘مذکورہ شخص کو حج کے لیے مکہ مکرمہ جانے کی اجازت ہے، مذکورہ شخص سعودی شہری ہے تاہم اسے متعلقہ ادارے سے رجوع کرکے شہریت کی درخواست دینی ہوگی۔’

Advertisements
julia rana solicitors london

اس دستاویز پر درخواست گزار کی تصویر ہے ، سرکاری ادارے کی مہر اور تین ٹکٹیں لگی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply