پنکچر پہ پنکچر۔۔سلیم مرزا

عمر اتنی تیز رفتار تھی کہ بچپن اور گنج پن کے بیچ لڑکپن کب آیا پتہ ہی نہیں چلا ۔
لڑکے کو زمانے کی ہوا نہ لگ جائے اس لئے ہمارےخاندانی نائی  نے ہمارے سر کے ساتھ ہر وہ کام کیا جسے فیشن کی شریعت میں ممنوع سمجھا جاتا ہے ۔وہ استرے کاایسے بے دریغ استعمال کرتا تھا جیسے اسٹیبلشمنٹ نیب کا کرتی  ہے ۔جب بال کٹوا کر گھر  پہنچتے  آئینہ دیکھتے پتہ چلتا ٹنڈ ہوچکی  ہے۔

حالانکہ اس کے پاس بکرے مونڈھنے والی موٹی مشین بھی تھی، جو عدلیہ کی طرح صرف دکھاوے کیلئے رکھی تھی ۔کام وہ استرے سے ہی لیتا تھا ۔استرا اتنا کھنڈا تھا کہ دوران ٹنڈ فاعل اور مفعول دونوں چیختے۔ ۔مگر نائی کا دھیان اس  ڈیزاسٹر میں بھی بجٹ کی طرف رہتا ۔
اسے دیکھ کر مجھے تقسیم کے بلوائیوں پہ باقاعدہ غصہ آتا ۔
جہاں اتنے مسلمانوں پہ ظلم کیا وہاں یہ ایک مسلمان بنانے والا بھی مار دیتے ۔کم بخت نے ایک بار ختنے کیا کردیے فری ہی ہوگیا ۔

راستہ چلتے پکڑ کر ٹنڈ کر دیتا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے ۔
بچپن میں کئی سال تک میں اسے دیکھ کر ٹانگیں بھینچ لیتا کہ “لو جی فیر ”
لیکن جب وہ صرف ٹنڈ کرکے چھوڑ دیتا تو جان میں جان آتی کہ اس کا دھیان نیچے نہیں گیا ۔”صرف بال ہی تو بڑے نہیں ہوتے ناں “۔

اس کے ماہانہ دفاعی بجٹ میں چاہے کچھ شامل ہو نہ ہو۔میری دو ٹنڈیں ضرور شامل ہوتیں ۔
وہ شاہین بچوں کے بال وپر کُتر  کر رکھتا تھا، تاکہ بچوں میں قبل ازوقت سیاسی شعور نہ آجائے ۔نتیجہ یہ نکلاکہ مڈل تک ہم اتنے ہی گنجے ر ہے، جتنے اس وقت ملکی معیشت  ہے ۔
سکول میں چھیمے ٹنڈ کے نام سے شہرت پائی اور جب میں اس سے بچنے کے سارے داؤ   سیکھ گیا ۔۔تو وہ اللہ کو پیارا ہوگیا ۔

کل جب موٹر سائیکل کا پچھلا ٹائر بالکل میرے سر کی طرح چمکدار ہوگیا ،تو مجھے وہ بہت یادآیا ۔پہیہ کیچڑ میں سے گزرتا تو لگتا  ہے، سہراب نہیں سانپ گزرا ہے۔ موجودہ وزارت خزانہ کی طرح یہ پہیہ پانچ بار پنکچر ہوچکا  ہے۔
آج تو پنکچر والے نے صاف جواب دیدیا کہنے لگا
“وکی صاحب ٹائر کے ساتھ اگر کوئی روحانی رشتہ نکل آیا  ہے، تو کم ازکم ساڑھے تین سو کی نئی ٹیوب ڈلوالیں۔ویسے بھی مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ پنکچر پہ پنکچر لگانا شرعا ًجائز نہیں ۔”

دل تو چاہا کہ ساڑھے تین سو اس کے منہ پہ ماروں اور کہوں خبردار جو سلیوشن اور شریعت کو جوڑنے کی کوشش کی ۔۔۔۔
مگر پورا ایک سو کم تھا ۔
“اور مکمل ٹائر ٹیوب کتنے کا  ہے ؟”
میں نے اپنی خودی کو سیاسی معاشی بیانیے  کی طرح بلند رکھا ۔
“انیس سو کا ،وہ بھی آپ کیلئے ”

میں نے چپ چاپ موٹر سائیکل کی ٹینکی پہ اپنی ٹینکیاں رکھیں اور نکل آیا ۔موٹر سائیکل پنکچر پہیے کے ساتھ چلتی ایسے لگ رہی تھی جیسے پنجاب حکومت کو ٹینکی پہ بیٹھ کر گجراتیے چلا رہے ہیں ۔

آج دوہزار اور موٹر سائیکل لیکر سات بجے ہی اس کی دکان کے باہر بیٹھ گیا ۔اس عمل کو پنجابی کلچر میں “تھڑا مارنا ” کہتے ہیں ۔
نوبجے اس نے دکان کھولی ۔
“ٹائر ٹیوب بدل دو “میرے لہجے کے اعتماد سے وہ حیران رہ گیا ۔
ایک نظر مجھے اور دوسری نظر اس نے ٹائر پہ ڈالی اور کہنے لگا “وکی صاحب کل کے بجٹ کے بعد ٹائر ٹیوب تئیس سو کے ہوگئے ہیں ،کھولوں پہیہ ؟ ”
میں نے اسے دوہزار پہ قائل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا ۔
باقی تین سو بعد میں دینے پہ بھی اصرار کیا ۔تو کہنے لگا “بوہنی کے ٹائم ادھار نہیں کرتا ”

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آپ کے پاس تین سو ہیں تو میں ٹائر والی دکان کے باہر بیٹھا حکومت کا سیاپہ کر رہا ہوں ۔۔جس کا  جب جی چاہے ٹنڈ کردیتی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply