سوال کرنے دیجیے۔۔مرزا مدثر نواز

میرے ہم عمر اور میں جس دور میں سکول میں پڑھتے تھے‘ ان دنوں استاد کے احترام کے ساتھ ساتھ ان کا رعب و دبدبہ بھی دل میں موجود ہوتا تھا۔ سکول کے اوقات کے بعد استاد اور شاگردوں کے درمیان ایک حجاب پایا جاتا تھا‘ سر راہ اگر استاد سے ٹاکرا ہو جاتا تو نظریں چرا کر ان سے چھپنے کی کوشش کی جاتی تا کہ آوارہ گرد  کا خطاب نہ مل جائے‘ استاد کو سلام کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی جس کی وجہ ادب و احترام کی دیوار اور اکثر استاد کا غیر دوستانہ رویہ ہوتاتھا۔ میٹرک تک استاد نے جو کچھ پڑھا دیا‘ اس کی مار کے ڈر کی وجہ سے اسے یاد کر لیا‘ اکثر و بیشتر کچھ سمجھ نہ بھی آتا تو سوال کرنے کی کم ہی ہمت ہوتی اور رٹہ لگا لیا جاتا‘ گو کہ سوال کرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی لیکن ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی کا بھی کچھ خاص رواج نہ تھا۔ لہٰذا بہت سارے نظریات مبہم ہی رہے اور بنیادی کمزوریاں بے حد کوشش کے باوجود محسوس ہوتی ہی رہتی ہیں۔

سوال کرنے کی حوصلہ افزائی نہ کرنے کی وجہ شاید یہ تاثر برقرار رکھنا ہوتا تھاکہ استاد سب جانتا ہے اور کسی سوال کا جواب نہ دے پانا بے عزتی کا باعث بن سکتا ہے۔ میں نے میٹرک اردو میڈیم سکول سے کیا تھا اور طبیعیات کے مضمون میں اصول ارشمیدس کی تعریف کچھ یوں یاد کی تھی جو ابھی تک دماغ کے کسی دریچے میں محفوظ ہے جیسا کہ ”جب کسی جسم کو کسی سیال چیز میں کلی یا جزوی طور پر ڈبویا جاتا ہے تو جسم پر اس کے مساوی الحجم سیال کے وزن کے برابر اچھال کی قوت عمل کرتی ہے“ مجھے اپنی نالائقی کو قبول کرنے میں کبھی بھی عار محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت میں ”کلی یا جزوی“ کے اصل مطالب سے آگاہ نہیں تھا کہ کلی اور جزوی سے کیا مراد ہے؟ کہا جاتا ہے کہ جو زیادہ سوال کرتا ہے وہ زیادہ سیکھتا ہے‘ لہٰذا اپنے بچوں کو کبھی بھی سوال کرنے سے منع نہ کریں اور سوال کرنے پر ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کریں اور جواب دے کر انہیں مطمئن کریں۔ امام غزالیؒ سے کسی نے اس طرح پوچھا ہو گا کہ آپ علم و فضل کے اس مرتبے تک کیسے پہنچے؟ تو آپ نے فرمایا کہ جس چیز کا مجھے علم نہیں ہوتا‘ وہ دوسروں سے پوچھنے میں میں نے کبھی عار محسوس نہیں کی۔

محمد عمران مہدی ایک انتہائی قابل و شفیق استاد‘ درویش صفت‘ مجسمہ شرافت‘ ہمدرد‘ درددل رکھنے والے‘ خدمت کے جذبہ سے سرشار‘ حقیقی معنوں میں خاکسار و عاجزو نرم مزاج و رقیق القلب و ہر دلعزیز شخصیت کے مالک ہیں‘ دوسروں پر مناسب و خوبصورت انداز میں تعمیری تنقید کرنے جیسی خصوصیت کاخاص ملکہ بھی رکھتے ہیں۔ کتنا ہی دلکش محسوس ہوتا ہے کہ کوئی آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے آپ کی کمیوں  کوتاہیوں  اور  کمزوریوں کا ذکر کر رہا ہو اور آپ اپنے ہی متعلق ناپسندیدہ باتیں سن کر مسکرا رہے ہوں اور لطف اندوز ہو رہے ہوں۔ موصوف دوسروں کی باتوں سے قطع نظرو بے پرواہ ہو کراس وقت دوسروں کی مدد کر رہے ہوتے تھے جب ان کا ادارہ سراسر نقصان میں تھا اوروہ قرضے تلے دبے ہوئے تھے۔ آج مشکل وقت میں کی گئی ان کی نیکیوں کا ہی ثمر ہے کہ ان پر رب کائنات کی بے پناہ و بے شمار عنایات ہیں اور ان کے احسانا ت سے مستفید ہونے والے تادم آخر ان کے لیے کلمہ خیر کہتے رہیں گے اور انہیں اپنی خاموش و دلی دعاؤں سے نوازتے رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے کالج دور کے وہ ایسے استاد ہیں جنہوں نے مجھ سمیت تمام شاگردوں کو یہ بات اجاگر کرانے اور ان کے ذہنوں میں بٹھانے پر خاص توجہ دی کہ اگر آ پ نے کچھ سیکھنا ہے تو سوال کرنے کی عادت اپنانا ہو گیااور اس جھجک کو دور کرنا ہو گا‘ دوسرے لفظوں میں انہوں نے سوال پوچھنے کا حوصلہ دیا اور کبھی بھی کسی بھی قسم کے سوال کرنے پر ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔وہ لیکچر دیتے وقت یہی خیال کرتے تھے کہ سامنے بیٹھے ہوا بالکل زیرو ہے اور اسے کچھ پتہ نہیں‘ چنانچہ ہر بات کو گہرائی سے شروع کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جب آپ کلاس روم میں ہوتے ہیں تو آپ کی طرف سے سوالات کی بوچھاڑ ہونی چاہیے لیکن ان کا مقصد صرف اور صرف سیکھنا ہو نہ کہ کسی کی توہین یا اپنے نام نہاد علم کی دھاک بٹھانے کے لیے۔ مجھے یہ بھی انہی سے سیکھنے کو ملا کہ اگر آپ کسی سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں تو برملا اسے قبول کریں اور پھر خود سیکھ کر دوسروں کو سکھائیں اور اس بات میں کسی بھی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ لہٰذا سوال کیجئے اور سوال کرنے دیجئے‘ اگر آپ کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو 5Ws (Who, What, When, Where and Why)اور 1H (How)کو اپنا دوست بنا لیجیے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply