سانحۂ کرائسٹ چرچ اور منہ کے مجاہد ۔۔۔ معاذ بن محمود

آپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں منہ کے مجاہد بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اپنے اپنے نظریات کو لے کر مخالفین پر چڑھ دوڑنے کو تیار یہ منہ کے مجاہد صرف باتیں کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ عام طور پر ان کے اپنے ہم خیالوں کے علاوہ انہیں کوئی سنجیدہ شخص سنجیدگی بھری اہمیت دینے کو تیار نہیں رہتا تاہم معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب پروان چڑھتی نسل اپنے ارد گرد انہی مجاہدین کو پا کر ان کی سوچ اختیار کرنا شروع ہوتی ہے۔ یوں جاہلیت میں پور پور ڈوبا ایک ایسا طبقہ سامنے آتا ہے جس کے نزدیک مخالف کی بات سننا یا سمجھنا بذات خود گناہ کبیرہ کی طرح ہوتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں پر محیط یہ عمل بار بار دوہرائے جانے کی وجہ سے ریاست پاکستان کی عوام عمومی سطح پر انتہائی پولر ہوچکی ہے۔ معاشرے میں کسی بھی قسم کے فقط دو فریقین ہوں تو پھر کسی نہ کسی حد تک اتحاد و یگانگت اور لحاظ باقی رہتا ہے۔ ہم بدقسمتی سے اس قدر منقسم ہوچکے ہیں کہ کسی بھی معاملے پر اپنے ہی  پیاروں اور دوستوں پر کف چڑھا کر منہ سے جھاگ نکالنا کبھی بھی کہیں بھی سامنے آسکتا ہے۔ 

یہاں کسی ایک طبقے کی جانب اشارہ مخصوص نہیں۔ ہر طبقے کا ایک اچھا خاصہ حجم اس تخصیص کا شکار پایا جاتا ہے۔ آج صبح لنگوٹیے دوست منے کو ابو ظہبی ائیر پورٹ سے گھر چھوڑنے کے بعد موبائل پر عادت کے تحت نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ نیوزی لینڈ میں کسی قسم کا حملہ ہوا ہے۔ پہلا خیال جو ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ شاید پھر کسی نے مولوی منور حسن صاحب کی جانب سے اجاگر کردہ معاشرے میں قتال کی اہمیت کو سنجیدگی سے لے لیا ہے۔ پچھلے پندرہ سال میں ہم سب جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے یہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا فطری ردعمل تھا تاہم اتنا ہی دکھ ہوا جب یہ پتہ چلا کہ یہ حملہ مسلمانوں پر مسجد میں ہوا۔ 

سوشل میڈیا کا رخ کرنے پر ایک اور حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹائم لائن پر انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کی بجائے مغربی میڈیا کی جانب سے اس واقعے کو دہشت گردی قرار نہ دیے جانے پر بین ڈالا جا رہا تھا۔ ایک لمحے کو غصہ ایسے لوگوں اور مغربی میڈیا دونوں پر آیا مگر پھر خیال آیا کہ ابھی کسی قسم کا نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہے کیونکہ تب تک حملے کے محرکات سامنے نہ تھے۔ ہم چونکہ اپنے مرچ مصالحے بھرے میڈیا کے عادی ہیں لہذا ہماری امیدیں دوسروں سے بھی اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ 

کچھ دیر میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے بیانات سے اقتباسات پیش کر کے یہی بات باور کرائی جاتی رہی کہ دیکھیے صاحب مسلمان خون میں نہلا دیے جائیں تو دہشت گردی نہیں ہوتی مجرم کو ذہنی مریض قرار دیا جاتا ہے۔ تب تک نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے بیانات کی مکمل ویڈیو سامنے نہیں آئی تھی۔ 

گھر پہنچا تو ٹی وی پر بی بی سی کھولا۔ اس وقت بی بی سی پر واقعے سے متعلق تازہ ترین خبریں جاری تھیں۔ کچھ دیر تک بی بی سی نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے بیان کو نشر کرنا شروع کر دیا کہ اس واقعے کو دہشت گردی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ساتھ ہی نیوزی لینڈ مسلم کمیونٹی کی نمائیندہ خاتون جن کا پہلا نام غالبا صبا تھا، کے علاوہ دیگر مسلمان افراد سے فون پر بات بھی نشر کرنے لگے۔ میں صبح چار بجے کے قریب سو کر ساڑھے ساتھ اٹھ چکا تھا لہذا ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو گیا۔ کئی گھنٹوں بعد آنکھ کھلی تو تمام تفصیلات سامنے آچکی تھیں۔ تمام مغربی میڈیا کھل کر اس معاملے کو دہشت گردی قرار دے چکا تھا۔ عالمی سطح پر دنیا بھر کے راہنماؤں کے بیانات اس واقعے کی مذمت میں سامنے آچُکے تھے۔ 

ان سب کے باوجود سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام کی جانب سے بالخصوص ایک گھمسان کا رن جاری تھا، ہے اور غالباً چند مزید روز جاری رہے گا۔ بنیادی طور پر ہمیں تین قسم کے ردعمل دیکھنے کو ملے۔ پہلا ردعمل اس اکثریت کا جو اس واقعے کو کسی رنگ، مذہب یا نسل سے بالاتر ہوکر سیدھے الفاظ میں اگر مگر کے بغیر اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ یہ وہ ردعمل ہے جو ہمیں عالمی سطح پر  مشرق و مغرب دونوں جانب سے بھی دیکھنے کو ملا۔ انسانیت کو خون میں نہلانے سے منسوب اس سانحے پر ہر ذی شعور اور دل رکھنے والا انسان شاید ایسی رائے ہی رکھتا ہوگا۔ 

دوسرا ردعمل ان لوگوں کا سامنے آیا جن کے نزدیک اس سانحے پر مذہب کا نام لیے بغیر افسوس کا اظہار کرنا “دیسی لبرل” ہونے کے مترادف ہے۔ اس طبقے کے خیال میں وطن عزیز میں موجود ماضی و حال کی شدت پسندی میں کئی مدارس کے غیر ذمہ دار اور متشدد سوچ کی حامل انتظامیہ کا کردار صفر ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی خوشی قادیانیوں کے گھر یا عبادت گاہیں مسمار کرنے سے دوبالا ہوجاتی ہے۔ 

تیسرا ردعمل ان لوگوں کا سامنے آیا جو افواج پاکستان کی غلطیوں اور نامناسب پالیسیوں پر نالاں رہتے ہوئے افریقہ کے جنگلات میں مارے جانے والے مچھر کا تعلق بھی کسی نہ کسی طرح پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے جوڑ لیتے ہیں۔ اس طبقے نے اس سانحے پر سیدھی اور کھلی مذمت کی بجائے یہاں بھی کسی نہ کسی طرح بلوچستان اور گمشدہ افراد کا ذکر کر ڈالا۔ یہ راز رمز ہی رہے گا کہ یہ تعلق کیونکر اور کس طرح قائم کیا گیا تاہم حقیقت یہی کے کہ ایسے لوگ موجود ہیں۔  بدقسمتی سے کئی سنجیدہ اور تعلیم یافتہ دوستوں کو ایسی باتیں کرتے دیکھا۔ 

کرائسٹ چرچ میں وقوع پذیر ہونے والے اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ تاہم آپ اگر کسی گے کلب پر قتل عام کو جائز سمجھتے ہیں اور مسجد میں قتل ہونے والے مسلمانوں کی شہادت سے ناخوش ہیں تو آپ بنیادی انسانیت کے متعلق تربیت سے نابلد رہے ہیں۔ ایسی صورت میں ہماری جانب سے اظہار تعزیت قبول فرمائیے۔ 

اگر آپ سینیٹر فریزر ایننگ کے بیان کو لے کر مغرب میں کسی قسم کے منظم اسلاموفوبیا کو مبینہ مسلمان دہشتگردوں کی توجیہ دینے پر مصر ہیں تو آپ خود ایک متشدد سوچ کے حامل ہیں۔ یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ سینیٹر فریزر محض ۱۹ ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئے وہ بھی مخالف سیاسی جماعت کے منتخب سینیٹر کی نااہلی کے بعد ملنے والے موقع کو کیش کروا کر۔ 

اور اگر آپ کی دلچسپی اس موقع پر بھی اسٹیبلشمنت مخالف بیانیے داغنے میں ہے تو آپ میں اور اگر مگر کرنے والے اس طبقے میں کوئی فرق نہیں جو ڈمہ ڈولہ پر بمباری کو لاہور میں سری لنکن ٹیم یا کسی اور سانحے کی دلیل سمجھتے ہیں۔ 

یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ مغرب کو طرح طرح کے کوسنے دینے والے خواتین و حضرات ایک بات اپنے گریبان میں جھانک کر پتہ کریں کہ ایسے سانحہ کے موقع پر ہمارا ردعمل مغرب کی نسبت کس طرح کا ہوتا ہے؟ ریفرینس کے لیے لاتعداد مثالیں موجود ہیں مگر فی الوقت چار پیش خدمت ہیں۔ 

نیوزی لینڈ کی یہودی تنظیم “دی جیوش ایجنسی” نے مسلم کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کے طور پر آج پورے ملک میں یہودی عبادت گاہیں بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ کیا آپ ایسے حالات میں یہود و ہنود کی بحیثیت سلامتی کی ایک دعا بھی کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں؟

وہ لبرل جنہیں آپ “موم بتی مافیا” کے نام سے حقارت و نفرت کا نشانہ بناتے ہیں، نے آج میلبورن آسٹریلیا میں نیوزی لینڈ میں ہونے والے اس سانحے پر تمام عمارتیں یکجہتی کے طور پر کیوی جھنڈے کی مناسبت سے روشن کی ہیں۔ کیا آپ قازقستان میں ہونے والے کسی واقعے پر موم بتیاں جلانے کر یا اپنے کسی طریقے سے اجتماعی طور پر ان سے یکجہتی و افسوس کا اظہار کر سکتے ہیں؟

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کھل کر اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔ آپ میں سے کتنے ممبئی حملوں پر سرعام یا دل ہی دل میں خوشی محسوس کرتے رہے؟

چندے کی اپیل پر چند گھنٹوں میں لواحقین کے لیے تین لاکھ اسی ہزار نیوزی لینڈ ڈالرز (36397640.70 PKR) کی خطیر رقم جمع ہوئی۔ کیا آپ کے ذہن میں کبھی یہ خیال آیا کہ مسیحیوں کے چرچ پر حملے کے بعد ایسی کوئی کاوش جس سے لواحقین کی کچھ مدد ہوپائے، کی جائے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

سچ ہے، ہمارے منہ کے مجاہد  نہیں کرتے، صرف  کمال کرتے ہیں۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply